شعبہ جاتی تصادم اور نااہل قیادتیں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • شعبہ جاتی تصادم اور نااہل قیادتیں

    وکلا اور ڈاکٹرز کے درمیان تصادم کسی بڑے ہسپتال پر حملہ اداروں اور شعبوں میں تصادم کی ایک طے شدہ حکمت عملی ہے

    By عبدالرحمن Published on Dec 12, 2019 Views 2571
    شعبہ جاتی تصادم اور نااہل قیادتیں 
    تحریر:.راؤ عبدالرحمن، لاہور

    وکلا اور ڈاکٹرز کے درمیان حالیہ تصادم کسی بڑے اور نامور ہسپتال  پر حملے کی حد تک تو ایک نئی بات ہے مگر اداروں اور شعبوں میں تصادم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو  ہمارے نظام کی ایک طے شدہ  اور آزمودہ حکمت عملی ہے.گروہی اور شعبہ جاتی نفرتیں پیدا کرکے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور نوجوانوں کو مشتعل کرکے سوسائٹی کو غیر مستحکم  رکھنے کی یہی حکمت عملی اس فرسودہ نظام کی بقا کی ضامن ہوتی ہے.
     ملکی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اداروں کو باہمی متصادم رکھنے کی اسی حکمت عملی کے نتیجے میں آج تمام ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل دکھائی دیتے ہیں۔لسانی،مذہبی اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر نفرتیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔حقیقی مسائل سے توجہ ہٹائی جارہی ہے یوں گروہی مفادات کو پورا کرنا آسان ہوتا ہے.
    اسی طرح ہاسپٹل سٹاف اور وکلا کی باہمی تلخی سے شروع ہونے والا معاملہ بھی دو اداروں کی باہمی جنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے.واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے ایک چھوٹے سے مسئلے کو بھی اداروں کی باہمی چپقلش کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے جو قومی و ادارہ جاتی لیڈر شپ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے.
    قومی ہو یا شعبہ جاتی لیڈر شپ جب مفادات کا شکار اور کرپٹ ہو تو وہ محض اپنے ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھتی ہے اور اسے  پورے پروفیشن یاشعبےکا مسئلہ بنا کر اس طرح سے پیش کرتی ہے کہ جذبات کو بھڑکایاجا سکے اور گروہی یا انفرادی مفادات کا حصول ممکن ہو سکے .
    اگر غور کیا جائے کہ کیا ڈاکٹرز اور وکلا کے اسی معاملےکا کوئی تعلق نوجوان وکلا اور ڈاکٹرز کےحقیقی مسائل سے بنتا ہے توجواب یقینا نفی میں ہوگا.بلکہ تمام عمل میں صرف اور صرف رد عمل کی نفسیات اور جتھہ بندی کے طریقہ کار کو اختیار کرکے محض لاقانونیت اور تشدد کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے .یقینا اس رد عمل اور جتھہ بندی سے بڑھنے والی باہمی محاذ آرائی سے عام ڈاکٹریاوکیل اپنے لیے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے بلکہ عام نوجوان وکیل یا ڈاکٹر تو سراسر نقصان میں ہی رہےگا تو پھر ایک دوسرے کے شعبےکو ٹارگٹ کر کے عدم تعاون اور تشدد پر ابھارنا کس عقلمندی کا تقاضا ہے.
    لا قانونیت کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان عدلیہ کے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے اور عجیب بات ہے کہ موقع بے موقع اسی عدلیہ سے گہرے تعلق کا اظہار  کرنے،اس تعلق پر فخر کرنے اور مضبوط سہارے کے طور پر پیش کرنے والا شعبہ ہی عدم اعتماد کے اس اظہار میں پیش پیش رہتا ہے .
    لوگوں سے بھاری فیسیں وصول کرکےہڑتالیں کرنے والے وکلا ہوں یا سرکار سےتنخواہیں وصول کرنے والے ڈاکٹرز دونوں عوام الناس کی بہتری کے لیے کام کرنے کے پابند ہیں ۔
     سرکاری املاک کا نقصان ،اموات ،ہڑتالیں قومی نقصان کا باعث بنتی ہیں اگر غور کیا جائے تواکسانے والوں کی محض ذاتی اناؤں کی تسکین کا نتیجہ قوم کو شدید کرب اور مالی نقصان  کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے. اس ساری کشمکش میں حقیقی نقصان صرف عوام کا ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ہماری سیاسی مذہبی اور شعبہ جاتی قیادتوں کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ اپنے پیشہ ورانہ وقار سے غفلت برتی جائے .
     پروفیشن کے نام پر گروہی مفادات کا تحفظ پیشہ ورانہ وقار کی تباہی اور عوام الناس کے رد عمل کا باعث بنتا ہے جس کا سامنا کرنے میں مزید غیر ذمہ داری ،تشدد اور جتھہ بندی کا سہارا لیا جاتا ہے . 
    شعبہ جاتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بجائے تقسیم پیدا کرنے والی یہ  آلہ کار قیادتیں نوجوانوں کے حقیقی مسائل سے سروکار رکھنے کی بجائے انہیں بھڑکانے ، وقتی رد عمل پر ابھارنے اور استعمال کرنے کے طریقہ کار کو پیش نظر رکھتی ہیں  جبکہ حقیقی مسائل کو یکسر نظر انداز کر دیاجاتا ہے.
    بد قسمتی سے زندگی کی ہر سطح پر مفاد پرست اور کرپٹ قیادتوں کا یہی المیہ ہے 
    حقیقی قیادت  کی ذمہ داری اپنے نوجوانوں کو مشتعل کرکے ،کسی آزمائش کا شکار کرنے یا ان کے مستقبل سے کھیلنے کے بجائے ان کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ کرنا ہوتا ہے 
    آج ہماری ضرورت ایسی قومی و شعبہ جاتی قیادت ہے جو اپنے کارکنوں کو عقل و شعور سے آراستہ کرے۔ عقل مند بنائے۔ان کے حقیقی مسائل کو سمجھے اور ان  کے حل کے لیے درست لائحہ عمل کی راہنمائی کرے ۔جھوٹی اور مفاد پرست قیادت سے بچنا اور خود کو استعمال ہونے سے بچانا ایک نوجوان کے لیے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے
    Share via Whatsapp