مربوط و منظم راۓ اور ہمارا معاشرہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مربوط و منظم راۓ اور ہمارا معاشرہ

    آج ضرورت اس امر کی ہےکہ حقیقی فکر ونظریہ اور اس کے معیارات کی روشنی میں اپنی راۓ قاٸم کریں اور موجودہ دور کے دجل کو سمجھیں۔

    By عبدالرحمن Published on Dec 10, 2019 Views 2194

    مربوط ومنظم رائے اور ہمارا معاشرہ

    تحریر: عبدالرحمن، کراچی

    انسان کائنات میں موجود خدائے بزگ وبرتر کی اعلیٰ ترین مخلوق  ہےجسے کائنات میں اشرف المخلوقات کا شرف  بھی حاصل ہے۔ انسان کو یہ شرف اس کی عقل و شعور کے سبب حاصل ہوا ۔کہ وہ اس عقل سلیم کے ذریعے اپنی حیوانی و روحانی ضرورتوں میں توازن رکھتا ہے اور اسے ترقی دے کرپوری کا ئنات کو مسخر کرتا ہے۔

    بات جب عقل و شعور کی ہوگی تو یقیناً انسانی خیالات و افکار سے متعلق ہوگی۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں  جو انسانی سوچ کو متأثر کرتے ہیں؟ جس کے سبب وہ معاشرے میں اپنی رائے قائم کرتا ہے اور اس رائے کے تحت ارادے اور فیصلے کرتا ہے ۔

    انسانی فطرت اس کے خیالات میں کچھ چیزوں کو ابھارتی ہے اور سماجی ماحول میں اس کی سوچ کو ڈھالتی ہے۔انسان جس ماحول میں رہتا ہے اس کی سماجی فکر ہی مثبت اور منفی خیالات کا منبع ہوتی ہے۔ اسی فکری منبع کے ذریعے انسانی سماج میں رائےقائم کی جاتی ہے۔جہاں مختلف طبیعتوں کے انسان بستے ہوں اس معاشرے میں رائے کا اختلاف بھی فطریعمل ہے۔ مثبت فکر کے زیر اثر سماجی ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔جب کہ منفی سوچ  کسی بھی معاشرے کی تنزلی کا باعث ہوتی ہے۔ فکر جامع انسانیت کے مفاد عامہ کے لیے ہوگی تو سماج میں انسانیت کے فائدے کے لیےعقل سے ترقی کے سوتے پھوٹیں گے اور اگر فکر گروہی اور ذاتی مفاد پر مبنی ہوگی تو معاشرے میں بے راہ روی اور انتشار و بے یقینی عام ہوگی۔ گروہی اور مفاد پرستی کے معاشرے میں رائے کا اختلاف آپسی و اندرونی جھگڑوں کا سبب ہوگا۔

    غور طلب بات یہ ہےکہ آج ہم اپنی کیا رائےرکھتے ہیں؟ اس رائے کا فکری منبع کیا ہے؟ کیارائے دو ٹوک ہے یا معاشرے میں رائج رجعت پسندی کے زیر اثر ہے؟

    رائے کے اختلاف سے معاشروں کی تعمیر ہوتی ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں اس کے ذریعے انتشار عام ہوتا، گروہیتیں برسرپیکار آتی ہیں نتیجتاً رائے آپسی جھگڑوں کا سبب بنتی ہے۔

    فکر و نظریہ منظم ہو تو معاشرے میں لوگوں کی رائے واضح اور دو ٹوک ہوتی ہے، ارادوں میں کامل اور پختہ یقین ہوتا ہے ۔وہاں قول و فعل میں جھوٹ ، مکروفریب اوردجل نہیں ہوتا بلکہ رائے آزادانہ ہوتی ہے۔یہ طے شدہ بات ہے کہ رائے ایک منظم وباقاعدہ فکر کے ذریعے ہی آزاد ہوگی۔ ہم اپنے فیصلوں میں تب ہی آزاد ہوں گے جب فکر ونظریہ واضح اور عالم گیر انسانیت کے لیے ہو۔ گویا ان فیصلوں سے پہلے آنے والی آراء بھی آزاد ہوں۔

    یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ ہم نے عقل شعور کی پرکھ سے درست فکر و نظریہ نہ رکھنے کے سبب کیارائے قائم کی ہے۔ہر انتخاب میں حق رائے دہی کے ذریعے قوم کے لیے رہنما کا انتخاب ہوتا ہے۔ انتخابات کے بعدپھر رائےمیں تبدیلی آتی ہے۔ اب اسی رائے کا موازنہ دیگر بننے والی حکومتی ادوار سےکریں۔رائےکے حوالے سے ایک چیز مشترک نظر آئے گی اور وہ ہے رائےکا جھول۔

    آزادانہ نظریے پر بننے والی قومیں کبھی اپنے فیصلوں پر نادم نہیں ہوتیں بلکہ مشکل فیصلوں میں ثابت قدم رہتی ہیں کیونکہ ان کی رائےآزاد ہوتی ہے۔رائے منظم فکر کے تابع ہوتو اس میں جھول نہیں آتا وہ نتیجہ دیتی ہے۔ بے نتیجہ رائے کی کوئی  اہمیت نہیں ہوتی۔ دھوکے اور فریب کے ماحول میں پروپیگنڈے کی طاقت سےمصنوعی رائے قائم کی جاتی ہے،پھر اسے حقیقی عوامی رائے قرار دےدیا جاتاہےیوں دھوکہ دہی کی بنیاد پہ نام نہاد منتخب نمائندے مصنوعی حقِ رائےدہی کے ذریعے انسانی گردنوں پر مسلط ہوجاتے ہیں۔

    آج ضرورت اس امر کی ہےکہ حقیقی فکر ونظریہ اور اس کے معیارات کی روشنی میں اپنی رائے قائم کریں اور موجودہ دور کے دجل کو سمجھیں۔

    Share via Whatsapp