ریاست اور اس کے ادارے
معاشرہ انسانوں کےایسے اجتماع کا نام ہے جس میں تمام انسان اپنی زندگی کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرتے ہیں۔
ریاست اور اس کے ادارے
تحریر شیرافضل خان، کراچی
لفظ معاشرہ انسانوں کےایسے اجتماع کا نام ہے جس میں تمام انسان اپنی زندگی کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرتے ہیں۔معاشرے میں ہر رنگ و نسل، فکر و سوچ، زبان و قومیت اور مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد باہم مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے سماجی تعلق قائم کرتے ہیں تا کہ انسانی سوسائٹی امن و سکون سے رہتے ہوئے ترقی کرے۔ معاشرہ جو کہ انسانی اجتماع کا نام ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام شعبے سیاست،معیشت،تعلیم، صحت، جان و مال کا تحفظ، رائےکی آزادی وغیرہ کےلیے درست اصولوں پر مبنی نظام کا ہونا انسانی ضرورت ہے اور زندگی کے ان شعبوں کو مربوط و منظم انداز سے چلانے کےلیے معاشرے میں اداروں کی ضرورت پیش آتی ہے جو معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی ضروریات اور ان کو پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کےلیے بنائے جاتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے انسانوں کی سماجی زندگی بہتر طرح سے گزر سکے۔
معاشرے میں تین اساسی اور بنیادی ادارےہوتے ہیں جو معاشرے کے نظم و نسق کو صحیح طرح سے چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جن میں ایک ادارہ مقننہ ہےجسے ( Legislative) بھی کہا جاتا ہے جو معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کےلیےان کی زندگی کے تمام شعبوں کی قانون سازی کرتا ہے۔ یہ قوانین اس سوسائٹی میں رہنے والے افراد کے جغرافیائی تقاضوں ،ثقافتی ومذہبی رجحانات اوراجتماعی اقدار وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان کےاس ادارے کو پارلیمنٹ( قومی اسمبلی اور سینیٹ) کہتے ہیں ۔دوسرا ادارہ انتظامیہ کاہےجو قانون کے نفاذ کاذمہ دار ھوتاہے ۔یہ قانون کے مطابق معاشرتی نظم ونسق قائم کرتاہےاور معاشرے کو اجتماعی لڑی میں پروتاہے۔تیسرے ادارے کو عدلیہ (Judiciary) کہاجاتا ہے جو سماج کےمتنازع امور میں قانون کے مطابق فیصلے کرنے ، قانون کی تعبیر و تشریح کرنےاور بوقت ضروت نئی قانون سازی کی طرف متوجہ کرتاہے۔یہ ادارہ قانون پر عملدرآمد کے حوالےسے انتظامیہ کی نگرانی کرتاہے۔معاشرے کے باقی تمام ادارے درج بالا اداروں کے ہی ذیل میں آتے ہیں۔
معاشرے میں ان اداروں کےبنانے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے کے اجتماعی معاملات و مسائل کو ان کے ذریعے سے بہتر و منظم طور پرحل کیاجائے تاکہ سوسائٹی اجتماعی طور پر ترقی کرسکے۔
ان اداروں کی تشکیل کےلیے کسی نہ کسی فکر و فلسفے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی اساس پر ان کو بنایا جاتا ہے اور اسی فکر و فلسفے کے مطابق ان سے نتائج اخذ کیےجاتے ہیں۔ سوسائٹی کی اساس جتنے بلند و وسیع ،عدل و انصاف، انسان دوست فکر و فلسفے کی جامعیت پر مبنی ہوگی ان اداروں کی کارکردگی اتنی ہی بہتر اور درست ہوگی اور اس کے معاشرے میں اثرات تمام انسانوں پر مثبت اور بہتر آئیں گے۔اگر سوسائٹی کا سیاسی و معاشی نظام درست اصولوں پر ترتیب دینے کے بجائے کسی خاص طبقے کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے بنایا جائے تو معاشرے میں اس کے اثرات بھوک و افلاس ، خوف ، بدامنی ، قتل و غارت گری ، گروہیت ، جہالت وغیرہ کی شکل میں نمودار ہوں گے۔ ایسا معاشرہ زوال پذیر معاشرہ کہلاتا ہے اور ایسے معاشرے میں مذکورہ ادارے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے مقابلے میں ایک مخصوص طبقے کےلیے اپنا کردار ادا کرتے ہوے نظر آتے ہیں اور ان اداروں سے پھر انسانی مسائل حل ہونے کے مقاصد تک بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ بہترین اور کامل معاشرہ وہ ہوتا ہے جس کی ادارہ جاتی تشکیل کی اساس انسان دوستی کی بنیاد پر رکھی گئی ہو۔ جہاں کےقوانین تمام انسانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدل و انصاف پر مبنی بنائےگئےہوں تاکہ معاشرے میں موجود تمام انسانوں کا فائدہ ہو اور سوسائٹی سیاسی و معاشی لحاظ سے خوش حال ہو۔ جس معاشرے کا معاشی نظام پورے معاشرے کے افراد کی کفالت کرتا ہو اور سوسائٹی سے بھوک و افلاس کو ختم کرتا ہو وہ معاشرہ انسانی فطرت پر مبنی معاشرہ کہلاتا ہے اور جس سوسائٹی کا سیاسی و معاشی نظام عدل و انصاف پر مبنی ہوگا وہ سوسائٹی اجتماعی طور پرترقی کرے گی۔ عدل و انصاف پر مبنی معاشرے ہی دنیا میں ترقی کرتے ہیں ظلم کی اساس پر مبنی معاشرے انسانوں کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں اور انسانوں کو غلامی کی لعنت میں دھکیل دیتے ہیں۔ آج تیسری دنیا کےممالک بدترین غلامی کا شکار ہیں اور قومیں قرضوں کے بوجھ تلے جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب ان معاشروں کے فکر و فلسفہ کا قومی تقاضوں کے مطابق نہ ھوناہے اور نہ ہی وہ معاشرے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیےگئےہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشروں میں اجتماعی شعور عام کیا جائےاور انہیں عدل وانصاف کے قیام کی ضرورت کا احساس دلایاجائے۔