8 نومبر - شہری منصوبہ بندی کا عالمی دن اور قومی تقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • 8 نومبر - شہری منصوبہ بندی کا عالمی دن اور قومی تقاضے

    دین اسلام نے جہاں ہمیں عبادات ومعاملات کے درست انداز میں سر انجام دینے کی ترغیب دی ہے وہیں ایسی معاشرت کے قیام کی جانب بھی راہنمائی فرمائی ہے

    By Nisar Ahmed Published on Nov 08, 2019 Views 2328

    8 نومبر - شہری منصوبہ بندی  کا  عالمی دن اور قومی تقاضے

    تحریر:  نثار احمد شیخ، کراچی

    شہری منصوبہ بندی کا عالمی دن پہلی مرتبہ 1949 میں8 نومبر کو منایا گیا۔تاکہ پوری دنیا میں شہری منصوبہ بندی کے مایہء ناز لوگوں کو اعزاز سےنوازا جاسکے ۔شہری منصوبہ بندی کا عالمی دن ایک موقع فراہم کرتا ہے جس میں ہم اپنے شہروں کا دنیا کے بہترین منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے شہروں کے ساتھ موازنہ کر سکیں۔ اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے حکومتی اداروں اور لوگوں  کی توجہ حاصل کرسکیں۔ جس کے نتیجے میں ہمارے شہر ایک ایسا پائیدار(Sustainable) نمونہ پیش کریں جو ہمیں عائلی زندگی کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں ۔

    اسی دن کی مناسبت سے ہم آج یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دین اسلام ہمیں ٹائون پلاننگ کے حوالے سے کیا راہنمائی کرتا ہے۔

    دین اسلام نے جہاں ہمیں عبادات ومعاملات کے درست انداز میں سر انجام دینے کی ترغیب دی ہے وہیں ایسی معاشرت کے قیام کی جانب بھی راہنمائی فرمائی ہے جو ہمارے انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کرنے والی ہے۔ قرآن و حدیث میں ہمیں بے شمار جگہ اس حوالے سے راہنمائی ملتی ہے کہ کس طرح ایک منصوبہ بند عائلی و شہری زندگی کسی قوم کو بام عروج کی جانب لے کر جاتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں متعدد مقامات پر اس حوالے سے راہنمائی موجود ہے کہ زمین آسمان کو پیدا کرنے اور اس کو انتہائی شاندار پلاننگ کے ساتھ چلانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔اسی کے ساتھ بیسیوں مقامات پر فرمایا ہے کہ نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے۔

    انسانی سوسائٹی کی تشکیل کے حوالے سے قرآنِ حکیم کی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق نہیں ملتا کہ ہم اللہ تعالی کی اس صفت(Powerful Planner) کومدنظر رکھتے ہوئے بحیثیت مظہر صفات الہی اپنے شہروں کی بہتر منصوبہ بندی کریں۔ارشادباری تعالی ہے : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ (49-50) اللہ تعالی نے تمام چیزیں ایک خاص مقدار اور مقصد کے لیے بنائی ہیں-

    یہاں قدرتی  وسائل کا  حقائق کی بنیاد پر استعمال  کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ سیاسی، معاشی و معاشرتی مسائل کے پائیدار حل کے لئے مناسب نظام قائم کیا جاسکے۔

    اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بات  پائیداری کی جاتی ہے،  یعنی  مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اسی طرح پائیدارشہر وہ شہر ہوتا ہے جس کی منصوبہ بندی کرتے وقت سماجی، معاشی اور ماحولیاتی  اثرات کو مدنظر رکھا جائے،  تاکہ  ہماری مستقبل کی نسلوں کو کم سے کم مسائل کا سامنا ہو۔

    میثاق مدینہ اسلامی تاریخ کا پہلا سیاسی دستورالعمل ہےجس کے تحت مدینہ میں موجود تمام مذاہب اور قبائل کے لوگ ایک سیاسی وحدت میں ڈھل گئے۔ وہ سوسائٹی کافی عرصے سے سیاسی عدم  استحکام کا شکار تھی ۔ یثرب ،جسے اس سے قبل ''بیماریوں کا گڑھ" کہا جاتا تھا حضور ﷺ  کی شاندار ٹائون پلاننگ اور اجتماع پرور نظام کی وجہ سے انسانیت نے سکھ کا سانس لیا۔ آپﷺ کو اس سوسائٹی کا سربراہ مملکت اور سیاسی، سماجی، عسکری اور قانونی و عدالتی اختیارات کا مرکز تسلیم کرلیا گیا۔ میثاق مدینہ کے ایک آرٹیکل کے تحت تقسیم اختیارات (Devoluation of Powers)  کا تصور جو کہ مقامی حکومت (Local Government)کی بنیادی اساس ہے۔ اس دستور کے تحت مختلف مذاہب و طبقات اور ان کے حقوق و فرائض کو آئینی طور پرواضح (Define) کیا گیاہے۔

    المهاجرون من قريش علی ربعتهم يتعاقلون علي ربعتهم يتعاقلون بينهم معاقلهم الاولي وهم يفدون عانيهم بالمعروف والقسط بين المؤمنين

    (ترجمہ: قریش میں سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو)

    اس آرٹیکل میں مقامی سطح پر ذمہ داری اور اختیارات کی تفویض کی حکمت بھی بیان کر دی گئی کہ اس کا مقصود ہر سطح پر قانون اور انصاف کا قیام ہے۔

    حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی کتاب البدور البازغہ میں سوسائٹی کی تشکیل اور اس کے انتظامات (Administration)کے حوالے سے فرمایا ہے کہ،"مدینہ یا شہر فصیل بازار اور قلعے کا نام نہیں بلکہ یہ تو تعامل اور تعاون پر مبنی روابط کا نام ہے۔ مثلاً کاشتکاروں، تاجروں، بافندوں اور دیگر اہل صنعت و حرفت کے درمیان تعلقات کی بنیاد ہے۔ ان میں سے کوئی فرد ایسا ضرور ہونا چاہیے جس کو وہ ان صورتوں کے قیام کا معاملہ سپرد کردیں اور وہ اپنی صحیح حکمت عملی(Strategic Planning) اور دور رس عقل و رائے (Sustainable/Futuristic Approach)کے ساتھ ان امور کو سرانجام دیں ۔"

    آج ہم نے اپنے شہروں کو کنکریٹ کا جنگل بنادیا ہے، جس کی نتیجے میں  نکاسی آب ، سفری سہولیات،صفائی کے انتظامات، امن و امان ، مافیاز کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس پر ہماری قومی سطح  کی جماعتیں آئے روز سیاست کرتی نظر آتی ہیں۔ آج  ہم نے اپنے گھروں کو ان کی حدود سے تجاوز کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے گزرگاہیں اتنی تنگ ہیں کہ ہنگامی صورتحال میں کسی قسم کی خدمات مہیا کرنا تقریباً نا ممکن  ہے، جبکہ حدیث رسولﷺ ہے:اجْعَلُوا الطَّرِيقَ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ ( ترمذی -1355)( ترجمہ:راستہ سات ہاتھ (چوڑا) رکھو)

    ہمارےسرکاری اداروں میں مجموعی طور پر انتظامی صلاحیتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔لاہور اورنج لائن ٹرین کا پراجیکٹ جس کی لاگت کا کل تخمینہ کوئی 240 ارب روپے ہے اور پورے پنچاب کا سال 2018-19 کا ڈویلپمنٹ بجٹ 238 ارب  روپے ہے اور اسی طرح کم و پیش بلوچستان صوبہ کا کم و پیش 2014-15 کا بجٹ 216 ارب روپے ہے، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا ترقیات کے حوالے سے ترجیحات کا کتنا بڑا مسئلہ ہے۔

    کراچی کی مثال ہمارے سامنے ہے، یہ ایسا میٹروپولیٹن شہر ہے جس کی کوئی انتظامی حد بندی نہیں،جس کی وجہ سے یہ شہر بغیر کسی تعین کے ہر طرف سے پھیلتا جا رہا ہے۔ماسٹر پلان وہ واحد ڈاکومنٹ ہوتا ہے جو پورے شہر کو ریگیولرائز کرتا ہے، اور المیہ یہ ہے کہ موجودہ کراچی شہر کا کوئی ماسٹر پلان نہیں۔ یہ مسئلہ صرف کراچی یا لاہور کا نہیں بلکہ تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں کا ہے۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں کی مکمل طور پر  نئے سرے سے منصوبہ بندی کریں اور اپنے انتظامی ڈھانچے میں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ لوگ جو اس  پروفیشن کے ماہر ہیں علاقائی میونسپلٹیز تک مستقل بنیادوں پر ان کی خدمات حاصل کریں، تاکہ ہم بنیادی سطح پر شہری و دیہی منصوبندی کرکے اپنے لوگوں کو ایک بہتر زندگی گزارنے کا ماحول مہیا کر سکیں۔

    لیکن یہ ہدف اس وقت تک حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک قومی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا نہ کی جائے۔ آج ضرورت ہے اپنے باصلاحیت نوجوانوں میں اس سیاسی شعور کی بیداری کی جس سے ایسا معاشرتی ڈھانچہ تشکیل دیا جاسکے جو ہماری عائلی،سماجی اور قومی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہو۔

    بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو

    کرہ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ

    Share via Whatsapp