دینِ اسلام کے لیے حضرت ابوبکرصدیقؓ کی خدمات
’’اے مسلمانوں تم میں سے جو محمد کی عبادت کرتا تھاوہ جان لے کہ محمد وفات پا چکے ہیں۔اور تم میں سے جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے اللہ زندہ ہےاو

دینِ اسلام کے لیے حضرت ابوبکرصدیقؓ کی خدمات
تحریر: سلمان نواز۔ بہاولپور
’’اے مسلمانوں! تم میں سے جو محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا،وہ جان لے کہ محمدﷺ وفات پا چکے ہیں۔اور تم میں سے جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے اللہ زندہ ہےاور اسے کبھی موت نہیں آنی۔‘‘
حضرت محمدمصطفیٰﷺ کے بعد امت مسلمہ کو سہارا دینے والے سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیقؓ ہیں ۔ جنھوں نے اپنی پوری زندگی دینِ اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردی۔
تعارف :
خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ 573ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کا اصل نام عبدللہ اور کنیت ابوبکر ہے۔ صدیق اور عتیق آپؓ کے القابات ہیں۔آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ تیم سے ہے۔آپؓ نے سب سے پہلے حضرت محمدﷺ کے رسول ہونے کی تصدیق کی اور اسی طرح مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا اعزاز بھی آپؓ کو حاصل ہے۔ اسلام قبول کرتے وقت آپؓ کی عمر 38 سال تھی۔ ایمان کی مضبوطی اس قدر ہے کہ آپؓ کو صدیق یعنی سچائی کی تصدیق کرنے والے کا لقب دیا گیا۔ حضرت محمد ﷺ کے بعد سب سے زیادہ رحم دل انسان آپ ؓ ہیں۔حضرت محمدﷺ نے فرمایا :"آپ ﷺ کا یہ فرمان ہرجمعۃ المبارک کو خطیب حضرات اپنے خطبوں میں پڑھتے ہیں "ارحمُ اُمَّتی بِاُمَّتی ابوبکر" ’’{میرے بعد} میری اُمت پر میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل انسان ابوبکر ہے۔ ‘‘
ہجرت مدینہ کا کٹھن سفر ہو یا غارِثور میں لاحق جان کوخطرہ، حضرت ابوبکرصدیقؓ نےہر موقع پر نبی اکرمﷺ کا ساتھ دیا۔ تمام غزوات میں آپ ﷺ کے ساتھ رہے اور صلح و جنگ کے تمام فیصلوں میں آپﷺ کے وزیر مشیر بن کر زندگی کے ہر موڑ پر ثابت قدم رہے۔ حضرت محمدﷺ کی صحبت میں رہنے کا ان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آپ بہت اچھے داعی بھی بنے ۔ آپ ؓ کی دعوت سے حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ بن عوام، حضرت طلحہؓ،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓاور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جیسی شخصیات دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی تمام دولت اسلام کی راہ میں خرچ کردی۔ آپ ؓ نے بہت سا مال خرچ کر کے غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کرایا، جن کی تعداد تقریباً 17 کے قریب ہے۔ ان میں نمایاں نام حضرت بلال ؓ کا ہے۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے جو زمین خریدی گئی اس کی قیمت بھی آپؓ نے ادا کی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جب مال و اسباب کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپؓ نے گھر کا تمام مال آپﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضور اکرمﷺ کا ارشادہے: ’’مجھے جتنا نفع ابوبکر کے مال نے دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا‘‘۔ حجۃالوداع سے ایک سال پہلے 9ہجری میں حضرت محمدﷺ نے آپؓ کو امیر حج مقرر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو یہ سعادت بخشی کہ آپؓ کی امامت میں آپﷺ نے نماز ادا کی۔ 17 نمازیں حضورﷺ کی حیاتِ دنیا کے دوران مسلمانوں کو پڑھائیں۔
خلافت
حضرت ابو بکرصدیقؓ 11 ہجری میں مسلمانوں کے خلیفہ اوّل مقرر ہوئے۔ منبر پر کھڑے ہوکر سب سے پہلے آپؓ نے یہ ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر کمزور(غریب) طاقت ور ہے، جب تک میں اس کو اس کا حق نہ دِلاؤں اور طاقت ور (امیر) کمزور ہے، جب تک میں اس سے کمزور کا حق نہ لے لوں‘‘۔ اور یوں دو سال تین مہینے مسند خلافت پر رہ کر 13 ہجری پیر کے دن 63 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت عمرؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا اور آپؓ پہلوئےرسولﷺمیں آرام فرما ہیں۔
چند مشہورواقعات:
حضرت ابوبکرصدیق ؓ خلیفہ بننے کے بعد اگلےہی دن بازار گئے اور معمول کے مطابق اپنے کپڑے کی تجارت میں مصروف ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا آپؓ یہاں کیا کررہے ہیں؟ سلطنت کے معاملات کوکون دیکھے گا؟ آپؓ نے فرمایا اگر میں کاروبار نہیں کروں گا تو گھر کا خرچہ کیسے اُٹھاوں گا؟ جس پر صحابہ کرامؓ کی مشاورت منعقد ہوئی اور فیصلہ یہ ہواکہ آپؓ اپنی اُجرت طے کرلیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا میری اُجرت مدینہ کے ایک عام مزدور کے مطابق طے کردی جائے ۔ لیکن صحابہؓ نے کہا آپ کا کنبہ تو کافی بڑا ہے، جب کہ مزدور کی اُجرت تو عام طور پر اتنی نہیں ہوتی، جس سے آپ کے کنبے کا خرچہ چل سکے گا؟ اس پر آپؓ نے فرمایا "پھر مزدور کی اُجرت کو بڑھا دیا جائے"۔ یہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عدل ہی کا تقاضا ہے کہ آپؓ نے خود کو کبھی کسی سے برتر نہیں سمجھا۔ خلیفہ ہوتے ہوئے بھی خود کو عام انسان کے برابر سمجھتے ۔خوف خدا اتنا کہ خلافت کی ذمہ داری بوجھ محسوس ہونے لگتی ۔ ہر وقت یہ ڈر ستائے رکھتا کہ کہیں عدل و انصاف میں کمی کوتاہی نہ رہ جائے۔ اور ہر فیصلے کے لیے اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس رکھتے ۔ خدا کے سامنے احتساب اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک بار حضر ت ابوبکرصدیقؓ ایک باغ میں موجود تھے ۔ایک چڑیا کوچہچہاتے دیکھا تو رونے لگے اور فرمایا: ’’کاش میں یہ چڑیا ہوتا ، گھاس کا تنکا ہوتا، تاکہ مجھے(اللہ کے حضور) حساب نہ دینا ہوتا‘‘۔
2 بڑے چیلنجز
خلافت سنبھالتے ہی دو بڑے چیلنج جن کا آپؓ کو سامنا کرنا پڑا، ان میں سے ایک وہ لوگ تھے، جنھوں نے زکوٰۃ دینے سے صاف انکار کردیاتھا۔ اس پر حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کہا: ’’اگر وہ لوگ جو حضرت محمدﷺ کے دور میں زکوٰۃ دیتے تھے، وہ آج زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں، تو میں ان سے ضرورجنگ کروں گا۔ میں کسی بھی قیمت پر مسلمانوں کے دین میں کسی قسم کی کمی یا تبدیلی نہیں ہونےدوں گا‘‘ اس معاملہ پر حضرت عمرؓ نے رائے دی کہ ابھی ہمیں ان سے جنگ نہیں کرنی چاہیے ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’کہ اگر ایک شخص آپﷺ کے دور میں ایک اونٹ کی رسی بھی دیتا تھا اور اب وہ رسی دینے سے انکار کررہاہے تو میں اس رسی کے لیے بھی ان سے جنگ کروں گا۔‘‘ آپؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے مانعینِ زکٰوۃ کے خلاف جنگ شروع کی اور کامیابی حاصل کی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: ’’ خدا کی قسم ! جب حضرت ابوبکرصدیقؓ نے فیصلہ کیا کہ ہم ان لوگوں سے جنگ کریں گےجو زکوٰۃ دینے سے انکار کرتےہیں، تو میں نے اس وقت تک کبھی ایسا فیصلہ نہیں سنا تھا۔ مگر بعد میں جب حضرت ابوبکرصدیقؓ نے مجھے اس کی حقیقت سمجھائی، تو میں نے اس فیصلہ کو مانا اور اس پر عمل کیا‘‘
جنگ کے حوالے سے ابوبکرصدیق کی وصیتیں۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ نے فوجیوں کو شام بھیجتے ہوئےہدایت دی:’’ کہ کسی بچے، کسی عورت اور کسی بوڑھے آدمی کو قتل نہ کرنا۔ کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ جس زمین پر کاشت ہوتی ہو اسے تباہ مت کرنا۔ خوراک کی ضرورتوں کے علاوہ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کو نہ مارنا۔ کسی کھجور کے درخت کونہ کاٹنا اور نہ جلانا۔ مال غنیمت کو نہ چھپانااور کبھی حوصلہ نہ چھوڑنا‘‘ یہ وہ ہدایت تھیں جو حضرت محمدﷺ اپنے صحابہ کرام کو دیا کرتے تھے۔
وفات حسرتِ آیات
زندگی کے آخری لمحوں میں حضرت ابوبکرصدیق ؓنے حضرت عائشہؓ کو وصیت کی کہ میرا غلام اور اونٹ جس پر میرے لیے پانی آتا ہے حکومت کے حوالے کر دینا یہ قوم کی ملکیت ہیں میں نے جو لباس پہنا ہوا ہے یہ بھی خزانہ سے ملا ہے ۔ میرے انتقال کے بعد یہ سب چیزیں بھی دوسرے خلیفہ کے سپرد کر دینا۔ آپؓ نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت آپؓ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔اور آپؓ کی وفات کے وقت آپؓ کے پاس صرف ایک چادر، ایک اونٹ اور ایک غلام تھا۔
غلبہ دین کے بعد استحکامِ دین میں صدیقِ اکبر کا کردار
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ہمیشہ ایک مخلص ساتھی بن کر حضرت محمدﷺ کا ساتھ دیا۔ اور آپﷺ کے بعد نظام کو ویسے ہی آگے بڑھایا جس طرح حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی میں جاری رکھا۔ آپؓ نے نہ خود کوئی تبدیلی کی اور نہ ہی کسی کو کرنے کی اجازت دی ۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو آپؓ نے ان سے جنگ کی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا نظام قائم کرنےکی توفیق دے جس کی ہدایت حضورﷺ نے دی اورحضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس کی آبیاری کی۔