سرمایہ دار دنیا کی بساط پر کھیلوں کا مستقبل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سرمایہ دار دنیا کی بساط پر کھیلوں کا مستقبل

    دنیا میں کھیل ہمیشہ تفریح اور ذہنی و جسمانی صحت کا ذریعہ رہا ہے۔ کھیل انسان کی اجتماعی زندگی کا وہ دلچسپ گوشہ ہے جو....

    By Faisal Iqbal Published on Oct 11, 2025 Views 455

    سرمایہ دار دنیا کی بساط پر کھیلوں کا مستقبل

    تحریر: فیصل اقبال۔ بہاولپور 

     

    دنیا میں کھیل ہمیشہ تفریح اور ذہنی و جسمانی صحت کا ذریعہ رہا ہے۔ کھیل انسان کی اجتماعی زندگی کا وہ دلچسپ گوشہ ہے جو صدیوں سے ، رواداری اور بھائی چارے کی علامت رہا ہے۔ماضی قریب میں جب دنیا کے بڑے بڑے ملک جنگوں اور تنازعات میں اُلجھے ہوئے تھے، کھیل کے میدان سیاسی حکمت عملی کا ذریعہ، عوامی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے ایک دوسرے کو قریب لانے اور اختلافات کو کم کرنے کا ذریعہ بنتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں دولت کے ناجائز حصول اورسٹہ کے سبب یہ میدان بھی سیاست اور سرمایہ دار طاقتوں کے مفادات کی بساط پر بچھا دیے گئے ہیں۔ اَب یہ کھیل ہے یا سرمایہ دار طاقتوں کی سیاست کا ایک مہرہ بن چکا ہے؟

    حالیہ دِنوں میں ایشیا کپ کرکٹ میں روایتی حریفوں کے درمیان ہونے والے مقابلے نے یہ تلخ حقیقت اُجاگر کی کہ کھیل کی روح کو ایک بار پھر سیاسی انا اَور دَباؤ نے پس منظر میں دھکیل دیا۔ کھیل کے عالمی ادارے کہ جنھیں غیرجانب داری اور اصولوں کا محافظ ہونا چاہیے، محض تماشائی بنے رہے۔ یہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ کھیل کی فیصلہ سازی پر وہی اَثر و رسوخ غالب ہے جو سرمایہ دار طاقتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہے۔

    سرمایہ داری کا اَلمیہ یہ ہے کہ یہ کھیل کو بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے مستقبل، ان کے تعلقات اور عوامی سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے کھیل کو ایک بیانیے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ایشیا کے دو روایتی حریفوں کے درمیان کرکٹ کے حالیہ مقابلے میں جو کچھ ہوا، وہ محض ٹیمز کی ضد یا اَنا کا مظاہرہ نہیں تھا، بلکہ اس خطے میں نفرت، تقسیم اور دشمنی کے بوئے گئے بیج کی ایک سوچی سمجھی جاری حکمتِ عملی کا حصہ تھی۔ مین اسٹریم میڈیا نے اس رویے کو مزید ہَوا دی، تاکہ کھیل کے شائقین کے ذہنوں کو کھیل کی آڑ میں سیاسی بیانیے کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ اس طرح کھیل، جو صحت مند تفریح، رواداری اور کھیلوں کی روح (کھیل کھیل کے لیے ہو جنگ نہ ہو) کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا، (عوامی بے شعوری میں اضافے کے کھیل اور) سیاسی مفادات کے شکنجے میں جکڑ کر نفرت اور تقسیم کے ایجنڈے کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔

    اگر اس کا موازنہ کریں تو فیفا (FIFA) جو کہ فٹبال کے کھیل کی عالمی تنظیم ہے، کا فیصلہ سامنے آتا ہے۔ فروری 2022ء میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا، تو سب سے پہلے یورپ کے تین ممالک پولینڈ، سویڈن اور چیک ریپبلک نے روس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ ان کے دَباؤ کے بعد فیفا اور یوئیفا (UEFA) نے غیرمعمولی تیزی سے فیصلہ کیا اور روس کو ورلڈ کپ 2022ء سمیت تمام بین الاقوامی مقابلوں سے باہر کردیا۔ اسے دنیا کے سامنے ایک ’’اصولی فیصلہ‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا کہ کھیل جارحیت کو قبول نہیں کرتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ کھیل کی غیرجانب داری کی بنیاد پر تھا یا سرمایہ دار یورپی طاقتوں کے سیاسی دَباؤ کا نتیجہ تھا؟

    اسی تناظر میں حالیہ دِنوں میں یورپین فٹبال ایسوسی ایشن (UEFA) کے اندر اسرائیل کے خلاف ممکنہ پابندیوں کے حوالے سے بحث نے ایک نیا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ فلسطین میں جاری خونریزی اور ہزاروں معصوم جانوں کے ضیاع کے باوجود فیصلہ سازی میں شدید تذبذب پایا جاتا ہے۔ روس کو فوری طور پر الگ کردینا اور اسرائیل کے معاملے میں ہچکچاہٹ یہ دہرا معیار اس بات کی گواہی ہے کہ کھیل کے عالمی ادارے سرمایہ دار دنیا کے مفادات کے زیراَثر ہیں۔

    اس کے برعکس کھیل کی تاریخ ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ اگر کھیل کو سیاست کے خول سے آزاد کر دیا جائے تو یہ امن کے قیام کا سب سے طاقت ور ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ 2005ء میں آئیوری کوسٹ کے معروف فٹبالر ڈیڈیئر ڈروگبا نے خانہ جنگی کے عروج پر اپنی قوم سے براہِ راست خطاب کیا اور کھلاڑیوں کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے حکومت اور باغیوں کو جنگ بندی پر آمادہ کیا۔ اسی طرح 1971ء کی "ٹیبل ٹینس ڈپلومیسی" نے امریکا اور چین کے تعلقات میں برف پگھلائی، اور جنوبی افریقا میں اپارتھائیڈ کے خاتمے کے بعد 1995ء کے رگبی ورلڈکپ میں نیلسن منڈیلا نے کھیل کو قومی اتحاد کی علامت بنا دیا۔

    مگر آج کا اَلمیہ یہ ہے کہ ایشیا میں کھیل کے میدان ہوں یا یورپ کے بڑے اسٹیڈیم، کھیل کو عوامی رائے کو موڑنے، نفرت کے بیانیے کو پروان چڑھانے اور نئی نسل کے اذہان کو سیاست کے مطابق ڈھالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا ان واقعات کو بڑھاوا دے کر اس عمل کو مزید گہرا کرتا ہے، تاکہ کھیل کے ذریعے عوامی شعور کو ایک خاص سمت میں دھکیلا جا سکے۔

    کھیلوں کے مقابلوں کے نتیجے میں لایعنی سوالات، غیرسنجیدہ خواہشات اور اُمیدیں نسلِ نو میں مایوسی اور شدت پسندی پیدا کررہی ہیں ۔ٹکٹ بلیک ہوتے ہیں ۔آخر میں اسٹیڈیم یا سڑکوں پر توڑپھوڑ پھر شدت پسندی کے اِظہار ہوتا ہے۔

    اصل سوال یہی ہے کہ کھیل کے عالمی ادارے کب تک سرمایہ دار دنیا کی پالیسیوں کا آلہ کار بنے رہیں گے؟ کھیل جدید دنیا میں آج امن کا ذریعہ بن سکتا ہے، دشمنیوں کو ختم کرنے کا وسیلہ ہے اور دوستی کے نئے دروازے کھولنے کا نام ہے۔ اگر اسے سرمایہ داری سیاست کی قید سے نہ نکالا گیا تو کھیل اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا اور انسانیت کو جوڑنے کا یہ پلیٹ فارم بھی ضائع ہو جائے گا جو دنیا کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    Share via Whatsapp