سلک روڈ کے تاریخی شہر ”سمرقند کا سفر“ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سلک روڈ کے تاریخی شہر ”سمرقند کا سفر“

    سلک روٹ چین سے شروع ہو کر وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہوتا ہوا یورپ تک پہنچتا تھا۔اسی سلک روٹ پہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں سمرقند اور بخارا ۔۔۔۔

    By Rana Rafaqat Ali Published on Oct 21, 2025 Views 535

    سلک روڈ کے تاریخی شہر ”سمرقند کا سفر“

    تحریر: رانا رفاقت علی۔ بہاولپور 


    سلک روٹ چین سے شروع ہو کر وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہوتا ہوا یورپ تک پہنچتا تھا۔اسی سلک روٹ پہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں سمرقند اور بخارا تاریخی، تجارتی اور ثقافتی طور پر بہت اہمیت  کے حامل شہر تھے، جو آج کے دور کے ملک ازبکستان میں موجود ہیں۔

    بارہویں اور تیرہویں صدی کے آغاز تک موجودہ ازبکستان  میں خوارزم شاہی ریاست قائم رہی، جس کے آخری فرماں روا جلال الدین خوارزم شاہ  نے اپنی بہادری اور سپہ گری سےچنگیزی لشکر کو شکست دی۔ چودھویں صدی عیسوی میں سمرقند امیرتیمور کا دارلخلافہ تھا۔ان کے علاوہ مسلم دور کی بڑی علمی و سائنسی شخصیات،  امام بخاری، امام ترمذی، بو علی سینا، الخوارزمی، البیرونی  کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔

    اس علاقے کی تاریخی  اور علمی ورثے سے متاثر ہو کر ہم نے اس ملک کے سفر کا ارادہ کیا، ویزہ سے لے کر ڈیپارٹمنٹل اجازت کے لیے مطلوبہ دستاویزات  کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔خدا خدا کر کے ویزہ اور ڈیپارٹمنٹل پراسس مکمل ہوا اور ہم سفر کے لیے تیار ہوئے۔ 

    23 اگست 2025ء کو اسلام آباد ائیرپورٹ سے تاشقند (ازبکستان) کی فلائیٹ تھی۔ جب ایئر پورٹ پہ کچھ ڈالرز کی ضرورت پڑی تو پتہ چلا کہ ائیرپورٹ پہ اے-ٹی-ایم مشین خراب ہے اور ویسٹرن یونین کسی وَجہ سے بند ہے۔وہاں پھر اضافی ریٹ پہ ڈالرز کا بندوبست ہوا۔  

    23 اگست شام 4 بجے تک تاشقند ائیر پورٹ  پہنچے، جہاں پہ لوکل سم اور کرنسی لی۔ پاکستانی ایک روپے کے 40 ازبک سوم ملتے  تھے،ٹیکسی اور ہوٹل میں بکنگ کے لیے آن لائن ایپلیکیشن انسٹال کر رہے تھے تو ایک پاکستانی پٹھان اویس خان سے ملاقات ہوئی جو وہاں زیرتعلیم تھے۔ انھوں نے  ایک ہوٹل  میں ہمارے قیام کا بندوبست کیا۔تاشقند میں ایک رات قیام کا ہوٹل رینٹ پانچ لاکھ ازبک سوم تھا۔ یہاں اکثرلوکل لوگوں کو انگلش نہیں آتی، جس وَجہ سے بات سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔  

    سمرقند

    تاشقندایک رات قیام کے بعد اَب سمرقند جانے کا ارادہ کیا۔ ٹرین کا سفر زیادہ بہتر تھا، لیکن ٹکٹ نہ مل سکی۔ پھر آن لائن  ٹیکسی بک کر کے سمر قند بس سٹینڈ پہ پہنچے۔ وہاں سمرقند کے لیے بس کی ٹکٹ لی۔ چار گھنٹے کے سفر کے بعد ہم سمرقند پہنچے۔ سمرقند میں  ایک اکانومی کلاس  کا ہاسٹل بک کیا، جس میں دوسرے ممالک کے لوگوں سے گفتگو کا موقع میسر آیا۔ 

    امیر تیمور کا مزار

    سمرقند میں  سب سے پہلے امیرتیمور کے مزار پر پہنچے۔یہاں پہ ایک بڑی تعداد میں سیاح موجود تھے۔  امیرتیمور کی پیدائش    سمر قند سے تقریبا 80 کلومیٹر دور شہر کیش (جسے اَب شہر سبز کہا جاتا ہے)  اپریل 1336ء میں ہوئی۔ 1370ء میں ماورالنہر پہ تخت نشین ہوا۔  1405ء میں اپنی موت تک تقریبا 35 سال میں دہلی سے ماسکو تک  ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی اور ہندوستان کے بعد چین فتح کرنے کا جب ارادہ کیا تو بیماری کی وَجہ سے راستے میں اس کا انتقال ہوگیا۔ تاریخ کی کتابوں میں امیرتیمور کو بہت ظالم شمار کیا گیا ہے، لیکن ہندستان پر حملہ کرنے کی ایک بڑی وَجہ یہ تھی کہ شہزادہ محمود جب دہلی کے تخت پر بیٹھا تو دہلی کی سلطنت کافی کمزور ہوگئی اور ہر طرف بغاوتیں ہونے لگیں،جن پر قابو پانا  سلطان محمود کے بس کی بات نہیں تھی۔   امیرتیمور کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے پہلے اپنی افواج سے ہندستان پر حملہ کرنے کی مشاورت کی اور اس کے بعد علما سے اس معاملے پر مشورہ ہوا۔ جنھوں نے اس کی حمایت کی۔ امیرتیمور نے لکھا ہے کہ میں نے اپنے مرشد حضرت شیخ زین الدینؒ کو اپنے ارادہ کے بارے میں آگاہ کیا تو شیخ نے حاشیے میں لکھا کہ اس کام سے تم کو دین و دنیا کی سعادت حاصل ہوگی اور انھوں نے مجھے ایک بڑی تلوار بھی بھیجی۔ اور یوں ہندستان فتح ہوگیا اور بعد میں ان ہی کی اولاد نے ہندستان میں مسلمانوں کی ایک مستحکم حکومت قائم کی جو کہ سلطنت مغلیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ 

    امیرتیمور اہل علم کی بہت قدر کرتا تھا اور مختلف علاقوں سے لا کر انھیں سمرقند میں بساتا، لیکن اصفہان (ایران) کی فتح پر مشہور شاعر حافظ شیرازی کے اس شعر پر ناراضگی  کا اِظہار کیا۔

    اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا بخال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را

    (اگر میرا محبوب دل سے میرا ہوجائے، تو سمر قند و بخارا اس کے چہرے کے سیاہ تل پہ قربان کر دوں) 

    امیرتیمور نے حافظ شیرازی کو  دربار میں بلا کر استفسار کیا کہ جس سمرقند و بخارا کو میں نے اتنی قربانیوں سے  بزور شمشیر حاصل کیا تم اسے محبوب کے صرف ایک تل کے بدلے قربان کرنے کو تیار ہو۔  

    مقامی لوگ امیرتیمور کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں ۔ اس کی قبر پر قرآن پاک پڑھتے ہیں اور اس سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ 

    بی بی خانم مسجد

    بی بی خانم امیرتیمور کی ایک  محبوب زوجہ تھی جو کہ چنگیز خان کی نسل سے تھی۔ 1399ء میں امیر تیمور نے بی بی خانم کے نام پہ ایک بڑی مسجد بنانے کا حکم دیا۔ یہ مسجد دنیا میں چودھویں صدی کی بڑی مساجد میں سے تھی۔ مسجد کے احاطے میں ایک ہاتھ سے لکھا ہوا ایک بہت  بڑا قرآن پاک شیشے کے اندر موجود ہے۔ ہم  دوپہر کو ظہر کے وقت مسجد میں پہنچے اور نماز ظہر مسجد میں ادا کرنے کا ارادہ تھا،لیکن جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مسجد میں نماز کا باقاعدہ کوئی اہتمام نہیں ہے، لیکن اگر کوئی نماز پڑھنا چاہے تو  کچھ جائے نماز فراہم کر دیے جاتے ہیں اور مسجد کے باہر ایک کونے میں نماز ادا کی جا سکتی ہے، لیکن وضو کا اہتمام نہ تھا ۔ ہم مسجد بی بی خانم سے  مسجد خضر تک پہنچے لیکن وضو کی جگہ نہ مل سکی۔  

    سمر قند کا پلاؤ 

    ازبکستان کا پلاؤ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ سمرقند میں ایک ٹیکسی والے سے درخواست کی کہ ہمیں سمرقند کے بہترین پلاؤ سنٹر پہ لے جائیں۔ ایک لمبا سفر کر کے جب وہاں پہنچے تو ہوٹل بہت شان دار تھا۔ وہاں ایک انگلش بولنے والا ویٹر موجود تھا۔چاول کی کوالٹی پاکستانی چاول سے بہت کم تھی، جس کی وَجہ سے اس پلاؤ کا ذائقہ مختلف تھا۔ہم اس پلاؤ کو ختم نہ کر سکے۔  چائے کا پوچھا تو پتہ چلا کہ یہاں پاکستانی دودھ پتی کا کوئی بندوبست نہیں۔ یہاں صرف قہوہ یا گرین ٹی پی جاتی ہے۔ اس صورتِ حال پہ اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہاں قیام صرف چند دِنوں کا ہے۔ 

    سمرقند میں اگلے دن کا آغاز شاہ زندہ کمپلکس سے کیا۔ 

    شاہ  زندہ کمپلیکس

    ساتویں صدی عیسوی میں  حضرت سعید بن عثمان گورنر خراسان نے جب سمرقند کی طرف مہم جوئی کی تو  حضرت محمدﷺ کے چچا زاد بھائی قثم ابن عباس بھی ان کے ساتھ تھے۔  سمر قند میں ہی ان کا انتقال ہوا۔  ان کا مزار سمرقند میں شاہ زندہ کے نام سےمشہور ہے۔اس مزار کی آج عالیشان عمارت جو نظر آتی ہے وہ امیر تیمور نے بنوائی۔ اس کے بعد اس جگہ پر مقبروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جہاں امیر تیمور کے خاندان کے مختلف لوگ مدفون ہیں۔ 

    اس جگہ سے مقامی لوگوں کی عقیدت  بالخصوص آشکار تھی۔ سیاحتی مقامات میں سے سمرقند میں شاید یہ واحد جگہ تھی، جہاں سیاحوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ یہاں اسلامی روایات کو مدنظر رکھیں ۔ یورپی سیاحوں کو بھی نامناسب لباس پر داخلی دروازے پر روک کر تنبیہ کی جاتی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے کچھ شال یا سکارف دیے جاتے ہیں۔ 

    رصد گاہ مرزا الغ بیگ 

    سمر قند میں شاہ زندہ سے  کچھ فاصلے پر امیرتیمور کے پوتے اور پندرہویں صدی کے نامور سائنس دان اور ماہر فلکیات ، مرزا الغ بیگ (1449-1394) کی بنائی گئی رصدگاہ پر پہنچے۔ یہ رسد گاہ 1420ء میں تعمیر کی گئی۔  اپنی کتاب زیج سلطانی میں ایک ہزار سے زائد ستاروں کی فہرست تیار کی اور یہ فہرست اس دور کے تمام ماہرین فلکیات سے زیادہ درست تھی جس سے بعد میں آنے والے بڑے ماہر فلکیات مستفید ہوئے۔   یہ رصدگاہ یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج میں شامل ہے۔ 

    ریگستان سکوائر

    ریگستان سکوائر سمرقند میں اسلامی تعلیم اور فن تعمیر کا ایک مرکز ہے۔ اس جگہ پر تین مدرسے  (جدید تعلیمی ادارے)قائم ہیں، جن میں سے ایک مدرسہ پندھویں صدی میں مرزا الغ بیگ نے (1420-1417) کے دوران بنایا۔ یہ اس وقت کا سب سے جدید تعلیمی ادارہ تھا، جس میں ریاضی، فلکیات، فلسفہ اور دینی تعلیم دی جاتی تھی باقی دو مدرسے سترہویں صدی عیسوی میں بنے۔ یہ مدرسے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہیں۔ رات کے وقت ان مدرسوں کی دیواروں پہ لائٹ شو ہوتا ہے، جس پہ اس شہر کی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔ 

    سمرقند میں گاڑیوں کی اکثریت Shevrolet کمپنی کی تھی۔ یہ گاڑیاں ازبکستان میں مقامی فیکٹریوں میں تیار ہوتی ہیں۔ یہاں موٹرسائیکل اور رکشے نہ ہونے کے برابر ہیں، کیوں کہ انھیں غیرمحفوظ سواری سمجھا جاتا ہے۔ ازبکستان میں شرح خواندگی 99 فی صد ہے۔ نظامِ تعلیم مقامی ازبک زبان میں ہے اور 9 سال تک تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ Global Peace Index  میں ازبکستان کئی یورپی ممالک جیسے فرانس   سے بہتر ہے۔ یہاں سیاح اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں اور سن 2025ء کے پہلے سات مہینوں  میں چھ ملین سے زائد لوگوں نے ازبکستان کا سفر کیا۔

    Share via Whatsapp