سیلاب: کلاؤڈ برسٹ، عذابِ الٰہی یا قدرت کا الارم
یہ کلائمیٹ چینچ، گلوبل وارمنگ، ہارپ ٹیکنالوجی، سیزمک ٹیکنالوجی ہے یا عذابِ الٰہی۔دنیا میں برپا ؛ہونے والے فساد کی بابت قرآن حکیم یہ حقیقت بیان کرتاہے

سیلاب: کلاؤڈ برسٹ، عذابِ الٰہی یا قدرت کا الارم
(اسباب کا شعوری جائزہ اور تدارک کے لیے تجاویز)
تحریر: ڈاکٹر سید فضل اللّٰہ شاہ ترمذی۔ سوات
یہ کلائمیٹ چینچ، گلوبل وارمنگ، ہارپ ٹیکنالوجی، سیزمک ٹیکنالوجی ہے یا عذابِ الٰہی۔دنیا میں برپا ؛ہونے والے فساد کی بابت قرآن حکیم یہ حقیقت بیان کرتاہے :
"ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس" (الروم:41)
"بر و بحر میں انسانوں کے (اجتماعی غفلت پر مبنی) اعمال کے نتیجے میں فساد پھیل گیا ہے"۔
آج دنیا بیالوجیکل اور ایکولوجیکل وارکے ذریعے معاشی اور سیاسی پاور شفٹنگ میں مصروف ہے اور ان کے تمام تر تجربات پاور شوز اور معاشی پابندیوں کی لیبارٹری تیسری دنیا کی غلام اقوام ہیں۔ لیکن کیا ہم ان جنگوں سے باخبر ہیں؟ دراصل ہمارے لیے تو یہ سب عذاب ہے۔
جی ہاں! اگر عذاب ہے، تو پھر بھی ہم قصوروار ہیں۔
مون سون نے اس سال جو تباہی مچائی ہے، یہ ہمارے لیے قدرتی انتباہ ہے۔اس سیلاب نے محکمہ جنگلات اور موجودہ حکومت کی کرپشن کو بے نقاب کردیا ہے۔
تجاویز
1۔ پانی کے وہ تمام راستے، جس سے یہ سیلاب گزرا ہے، ادھر دوبارہ آبادی نہ کی جائے، ورنہ آئندہ اس سے بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔
2۔ جنگلات کی بےدریغ کٹائی روکی جائے۔
3۔ ضلعی انتظامیہ، لینڈزالاٹمنٹ اور ہوٹل مالکان کے لیے ریڈ الرٹ جاری کیا جائے کہ آئندہ کے لیے پانی کے راستوں میں روکاوٹ نہ ڈالیں۔ یہ اپنی کرپشن اور دولت کے لیے قدرت سے اعلانِ جنگ ہے، جس سے عوامُ الناس کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
4۔ تمام پرانی گاڑیاں، کارخانے، جو بے انتہا حرارت پیدا کرتے ہیں اور کمبسشن کے بعد اس کی فلٹریشن کا ہمارے ملک میں کوئی پراسس نہیں اور حکومتی محکمے اس کی اپروول دیتے ہیں، ان کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ ان سب کو قصور وار ٹھہرایا جائےاور ان سب سے کو ان کی مجرمانہ غفلتوں کا بھاری جرمانہ لیا جائے۔
5۔ پراپرٹی ڈیلرز جو بڑی بڑی سوسائٹیز کا لالچ دے کر پانی کے راستوں کو تبدیل کرکے ٹاؤنز بنارہے ہیں، ان کو اجازت دینے والے اربن ٹاؤننگ اور مختلف ڈویلپمنٹل اتھارٹیز کو قصوروار ٹھہرایا جائے۔
6۔ نیز ہماری آبادی اکسپوننشل گروتھ کے ساتھ بڑھ رہی ہے، ان کے رہنے کے لیے کوئی پلاننگ نہیں اور لوگ بے دریغ دیہاتوں سے شہروں کے طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کی پلاننگ کی جائے اور بہت ہی بہتر ہوگا اگر شہری سہولیات ملک کے تمام دیہاتوں تک ممکن حد تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جائے ۔
7۔ دریاؤں میں کرش پلانٹس الاٹ کرنے والوں کو سزا دی جائی، جن کی وَجہ سے پانی کے قدرتی ذخائر متاثر ہوئے ہیں اور پانی کے قدرتی راستوں کو تبدیل کیا گیا۔
8۔ "مائیننگ ڈپارٹمنٹ" کے لیے پلاننگ کی جائے، تاکہ زمین کی ساخت کو لینڈ سلائیڈنگ کی تباہی سے بچایا جاسکے۔
9۔اس کے علاوہ غیررجسٹرڈ چھوٹے کباڑ کارخانے جن میں ٹائرز جلائے جاتے ہیں اور حکومتی نمائندے اس سے اپنا حصہ تو وصول کرتے ہیں، لیکن ان مفاد پرست اور جاہل سیاست دانوں اور کرپٹ مافیاز کو اس کے نقصانات کا اندازہ نہیں۔ ان کو فوری بند کیا جائے۔
ذمہ دار کون؟
یہ یاد رکھیں کہ سیلاب، آندھی، طوفان، آفتیں اور طغیانی کے نتیجے میں ہونے والے ناقابل تلافی نقصانات سب ایک کرپٹ نظام کی نااہلی اور مس منیجمنٹ کی علامات ہے۔
امام انقلاب مولانا سندھی ؒکے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ جب آپ زمین پر اللہ تعالیٰ کے قانون کا عادلانہ نظام قائم کرتے ہو، تو آفتیں نہیں برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
اس سال کے بے حد تباہی کا ذمہ دار ان تمام حکومتی مشینری کو ٹھہرایا جائے، جنھوں نے بڑے بڑے ادارے اور محکمے تو بنائے ہیں، لیکن کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔کیا ہماری حکومت کے پاس کوئی پلیننگ نہیں ہے۔ یہ صرف مغربی طاقتوں کے آلہ کاری کے لیے اپنےآپ کو وقف کیے ہوے ہیں۔
اس کے ساتھ ہارپ اور سزمک ٹیکنالوجی کو سمجھنا تو دور کی بات ہے، ہم آج بھی انیسویں صدی کے فرسودہ نظام چلارہے ہیں۔ دنیا آج سے تیس پچاس سال بعد تیل، ڈیزل اور گیس کے ماحول دشمن فیولنگ سسٹم سے نکل کر ایندھن کے جدید انسان دوست ذرائع کو اپنانے والے سسٹم کے عروج پر ہوگی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے نت نئے تجربات کر رہی ہوگی، اگر ہمارے یہی حالات رہےتو ہم آج سے بد تر حالت میں ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج ہم ان میدانوں میں اپنا قدم رکھتے اور آنے والے دور کا مقابلہ کرتے، لیکن افسوس کہ خراب نظام اور کرپٹ حکمرانوں کی وَجہ سے مزید زوال کا شکار ہوگئے۔
قدرتی آفات کا انسانی حل
ان سب کو سمجھنے کے لیے سیاسی شعور اور تاریخ کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ کسی بھی ریاست کے تمام تر فیصلے وہاں کے سسٹم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور سسٹم جب فیل ہوجائے تو ایک نئے فکر و فلسفہ کے ذریعے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کے لیے ایک انقلابی جماعت کی تشکیل ناگزیر ہوتی ہے۔ جو نوجوانوں کی تربیت کریں اور مستقبل کے چیلنجز کو سمجھ کر نئے نظام کی تشکیل کریں۔ جس میں عوام الناس کی فلاح اور وطن عزیز کی خیر ہو۔ ورنہ خراب نظام کے تمام ادارے چاہے مذہبی ہو یا غیر مذہبی، سب سامراج کے ہتھکنڈوں کی تکمیل کے لیے کام کررہےہوتے ہیں اور قومی سوچ سے قاصر ظالمانہ متشددانہ رویے اپناتے ہیں۔
یاد رہے ہمارے وطن میں ہم سب جُگاڑ پر چلتے ہیں اور ہمارے ہاں یہ مقولہ زبان زدِ عام ہے کہ: "پھر دیکھیں گے ابھی کام چلاؤ"۔
لیکن یہ قدرت سے ایک جنگ ہے اور کروڑوں سالوں میں قدرت نے ہم سے پہلے بڑی بڑی جان دار مخلوقات کو شکست دے کر فنا کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ہم قدرت سے جیت نہیں سکتے، وقتی آرام اور دولت کا نشہ آنے والی انسانی نسل کے لیے باعثِ معدومیت (اکسٹنکشن) ہوگی۔
اسی وَجہ سے نبی اکرم ﷺکا فرمان مبارک ہے:
ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء
"تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا"۔