پاکستانی سوسائٹی کے خدوخال - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستانی سوسائٹی کے خدوخال

    ایک ترقی یافتہ سوسائٹی، جسے ہم آزاد اور وسائلِ رزق سے مالامال سوسائٹی کہتے ہیں۔ دوسری زوال یافتہ سوسائٹی، جسے ہم غلامی اور وسائلِ رزق سے محروم ۔۔۔۔۔

    By Noor Wahab Published on Aug 29, 2025 Views 98

    پاکستانی سوسائٹی کے خدوخال 

    تحریر ؛ نوروہاب، ہنگو 


    سماج میں ہم دو طرح کی سوسائٹیاں دیکھتے ہیں : 

    ایک ترقی یافتہ سوسائٹی، جسے ہم آزاد اور وسائلِ رزق سے مالامال سوسائٹی کہتے ہیں۔ 

    دوسری زوال یافتہ سوسائٹی، جسے ہم غلامی اور وسائلِ رزق سے محروم سوسائٹی سے تعبیر کرتے ہیں۔ 

    اس کی مزید تفصیل یہ ہے : 

    ترقی یافتہ سوسائٹی کی پہچان 

    ترقی یافتہ سوسائٹی وہ ہوتی ہے، جہاں انسانیت کو سیاسی طور پر امن وامان میسر ہو، سماجی طور پر عدل وانصاف حاصل ہو اور معاشی حوالے سے بلاتفریق خوش حالی موجود ہو۔ ایسی سوسائٹی میں انسان کی جسمانی، روحانی اور معاشی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ کوئی بھوکا نہیں سوتا، کوئی لباس سے محروم نہیں ہوتا، سردی گرمی سے بچاؤ کے لیے اسے چھت میسر ہوتی ہے۔ تمام افراد رزق اور وسائلِ رزق سے بلاتفریق مستفید ہوتے ہیں۔ افرادِ معاشرہ سیاسی اور معاشی طور پر بااختیار اور آزاد ہوتے ہیں، انھیں عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

    زوال یافتہ سوسائٹی کی پہچان 

    زوال یافتہ سوسائٹی وہ ہوتی ہے جو ان تمام خصوصیات اور اقدار سے محروم ہو۔ ایسی سوسائٹی میں سیاسی طور پر بدامنی، فرقہ واریت، انتہاپسندی، دہشت گردی، تقسیم اور آپس کے جھگڑے عام ہوتے ہیں۔ وہاں بھوک، غربت، فقر وفاقہ، افلاس، بے روزگاری، وسائلِ رزق سے محرومی، خودمختاری اور آزادی سے زندگی گزارنے کی سہولت ناپید ہوتی ہے۔ جہالت عام، تعلیم سے محرومی، بیماریوں کی بہتات، انسانی بنیادی حقوق سے محرومی، تعلیم، صحت، خوراک اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں، شادی جیسے سماجی حق سے محرومی اور انسانی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔

    ہمارا موجود معاشرہ و سماج 

    بدقسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہ زوال کا شکار ہے۔ گزشتہ تین سو سال سے ہم غلامی کی حالت میں ہیں، ہماری چھ نسلیں اسی غلامی میں پروان چڑھیں ہیں۔ اس غلامی میں رہتے ہوئے ہم نے بے شعوری کی انتہا دیکھی ہے۔ آج بھی ہم اپنے آقا کے مسلط کردہ غلامانہ قوانین، سیاسی عدم استحکام پر مبنی نظام، فرقہ واریت پر قائم خاندانی پارٹیاں، بدامنی پر مبنی ریاستی نظام، غلام قوم کے لیے تشکیل دیے گئے عدالتی سیٹ اپ، غربت اور فقر وفاقہ پیدا کرنے والے معاشی نظام میں رہ رہے ہیں۔ یہ معاشی نظام سرمایہ داری اور جاگیرداری کے اصولوں پر مبنی ہے، یہ صرف چند اشخاص اور خاندانوں کو تحفظ دیتا ہے۔ ہم نے بہ حیثیت مجموعی اسے نہ صرف قبول کیا ہوا ہے، بلکہ اپنی شناخت بنا لیا ہے۔ہم نے طبقاتی، فرقہ وارانہ اور عصرِحاضر سے کوسوں دور تعلیمی نظام اپنایا ہوا ہے۔

    طاقت ور اور کمزور کی تفریق پر مبنی ضابطے، ان کی تہذیب و تمدن، ان کی لکھی ہوئی جھوٹی تاریخ—جو ماضی سے متنفر، حال سے بیزار اور مستقبل سے مایوس کرتی ہے—وہ فتوے، جو آزادی پسندوں پر لگائے گئے اور آج بھی لگائے جا رہے ہیں، کو گلے سے لگا رکھا ہے۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں، انھیں ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور عقیدے کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہم انھیں کسی بھی صورت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ 

    اجتماعی حیثیت سے منفی رویوں کو چھوڑنے کی ضرورت 

    جب تک ہم ان ظالمانہ قوانین، رویوں، ضابطوں، طبقات، تعلیمی نظام، سماجی رویوں اور فتوؤں کا تحلیل و تجزیہ نہیں کریں گے، انھیں تاریخی تناظر اور موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش نہیں کریں گے، آزادی اور غلامی میں فرق کر کے غلامی سے آزادی کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے۔دل و دماغ سے ان کا شعور حاصل کر کے ان پر تربیت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، معاشرے کے باصلاحیت طبقات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں تک عقل وشعور پر مبنی نظریات نہیں پہنچائیں گے، تب تک ہمارے اوپر غلامی کی سیاہ رات منڈلاتی رہے گی۔ ہم ایک آزاد انسان یا آزاد سوسائٹی کے آزادی سے زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہیں گے، نہ ہی امن و امان، معاشی خوش حالی اور عدل پر مبنی سوسائٹی کی تشکیل ممکن ہو سکے گی۔

    کامیابی وترقی کے لازمی تقاضے

    اگر ہم بہ طور اشرف المخلوقات ایک باوقار ریاستی شہری بننا چاہتے ہیں، تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ ہو کر تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ کہلانا چاہتے ہیں، سماج میں بااخلاق، باوقار اور باعزت فرد بن کر رہنا چاہتے ہیں، پرامن اور ترقی یافتہ سوسائٹی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط اور صاف ستھرے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں، ظلم سے پاک نظام میں سانس لینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے شعوری جدوجہد اور کوشش ہی واحد راستہ ہے۔ یہی جدوجہد ہمیں انسانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں ہم دنیا کی اقوام کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی کر سکتے ہیں اور یہی راستہ ہمیں آخرت کی کامیابی کی طرف بھی لے جا ئےگا۔

    Share via Whatsapp