خوابوں کی ہجرت یا شناخت کا جنازہ؟
خوابوں کی ہجرت یا شناخت کا جنازہ؟

خوابوں کی ہجرت یا شناخت کا جنازہ؟
تحریر: تیمور تنویر۔ وہاڑی
آج وطنِ عزیز کا ہر نوجوان ملک سے باہر جانے کے
لیے بے تاب ہے، لیکن وہ اس فیصلے سے قبل یہ کیوں نہیں سوچتا کہ وہ دراصل غلامی کے
ایک نئے اور بہ ظاہر خوش نما پھندے کو گلے لگانے جا رہا ہے،جس یورپ کے اپنے شہری
غربت، نسل پرستی اور بے روزگاری کا شکار ہیں، وہ تمھیں کیوں گلے لگائیں گے؟ جب وہ
اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہیں، تو تمھیں کیا مقام دیں گے؟ان
حالات میں ہمیں نہایت سنجیدگی سے اپنے سماج کی زبوں حالی اور نوجوانوں کے فکری
انتشار کا جائزہ لینا ہوگا، تب جا کر ہمیں اندازہ ہوگا کہ مسئلہ صرف معاشی نہیں،
نظریاتی بھی ہے۔ہمارے نوجوان دو واضح طبقات میں تقسیم نظر آتے ہیں:
پہلا طبقہ:ان افراد پر مشتمل ہے، جن کے پاس یہاں سب کچھ موجود ہے۔ گھر، گاڑی، بیوی، بچے، عزت، نوکری مگر ان کے خوابوں کا محور پھر بھی بیرونِ ملک کی شہریت حاصل کرنا بن گیا ہے۔وہ صرف اس لیے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں، تاکہ امریکا کا گرین کارڈ یا یورپ کی شہریت حاصل ہوجائے، دنیا انھیں قبول کر لے اور ان کے ویزے بغیر روک ٹوک کے لگیں ۔ان کے پیش نظر صرف عیش و عشرت کی زندگی گزارنا اور اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنا رہ جاتا ہے۔ یہ خواہش دراصل ایک نفسیاتی غلامی کی عکاسی کرتی ہے، جہاں انسان اپنے اصل وجود اور شناخت سے شرمندہ ہو کر دوسروں کی تسلیم شدہ شناخت کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے۔
دوسرا طبقہ:ان نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کے پاس یہاں کچھ بھی نہیں۔ نہ روزگار، نہ سہولت، نہ کوئی معاشی اور سماجی سہارا۔ ان کی دردناک زندگی انھیں یہ سوچ سوچنے پر مجبور کردیتی ہےکہ کسی طرح باہر چلا جاؤں، کوئی نوکری مل جائے اور زندگی کا پہیہ کسی طور گھومتا رہے۔ یہی سوچ دراصل سب سے بڑی قید ہے۔ ہم نے اپنی خودی، اپنی شناخت، اور اپنے مستقبل کی تمام امیدوں کو صرف ایک ویزے کی مہر سے وابستہ کر دیا ہے۔ ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اگر ہمارا پاسپورٹ تبدیل ہو گیا تو ہم مہذب، عزت دار اور قابلِ قبول انسان بن جائیں گے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم وہاں بھی اجنبی ہی رہیں گے، وہاں بھی ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور جس دن یورپ کے اندر کا تعصب اور خوف جاگ اٹھا، سب سے پہلے ہم ہی نشانہ بنیں گے۔ یا تو قتل کر دیے جائیں گے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں یورپ میں ہوا، یا ملک بدر کر دیے جائیں گے۔
کیا تمھیں یاد ہے کہ تمھارے باپ دادا کے پاس کیا تھا؟ نہ گاڑیاں، نہ گھر، نہ دفاتر اور نہ آسائشیں۔ انھوں نے ہل جوت کر، زمین آباد کر کے اور دن رات مزدوری کر کے اس ملک کو جو کچھ ممکن تھا لوٹایا۔ انھوں نے نہ پلاٹ خریدے، نہ پاسپورٹ کی دوڑ میں لگے، مگر انھوں نے ایک کام ضرور کیا وہ اپنی زمین سے جڑے رہے، اپنی شناخت کا دفاع کیا اور تمھارے لیے ایک باعزت بنیاد چھوڑ گئےاور آج تمھیں وہی زمین اور شناخت ورثے میں ملی تو تم خود کو کمتر سمجھ کر بھاگنے کو تیار بیٹھے ہو۔
تم جن ممالک کو جنت سمجھتے ہو،جن کی شہریت کے لیے تم اپنی زندگی گروی رکھتے ہو ، وہ ملک تمھیں اپنا شہری نہیں، بلکہ سستا مزدور سمجھتے ہیں! تمھاری تعلیم، تمھاری توانائی، تمھاری جوانی، یہ سب ان کی معیشت کے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا پر جو کامیابیاں تمھیں دِکھائی جاتی ہیں،مہنگی گاڑیاں، ویزا اپروول، امیگریشن وکلاوغیرہ ، یہ سب ایک منظم مارکیٹ کا حصہ ہیں۔ تمھیں خواب بیچے جا رہے ہیں، تاکہ تم باہر جا کر سستی مزدوری کرو، اور یہاں اپنی جڑیں، اپنی زمین اور اپنی پہچان سب کچھ چھوڑ دو۔
یہ نظام کبھی نہیں چاہتا کہ تم یہاں کچھ بن سکو۔ یہ چاہتا ہے کہ تم ہمیشہ ادھورے رہو، تاکہ باہر جانے کی تمنا میں تم اپنی پوری جوانی اور صلاحیتیں بیچ دو۔ اگر تم تعلیم یافتہ ہو، باشعور ہو، وسائل رکھتے ہو، تو پھر بھاگنے کی وَجہ کیا ہے؟ اپنے وطن کو چھوڑنا اگر بزدلی نہیں، تو اَور کیا ہے؟ اور اگر اپنے خواب کسی اور ملک میں دفن کرنا غلامی نہیں، تو اَور کیا ہے!
اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس صورتِ حال کا حل
کیا ہے؟حل سادہ سا، لیکن جرات طلب ہے اور وہ یہ کہ خود پر یقین کرو، تم کسی سے کم
نہیں۔یہاں کچھ نیا شروع کرو، چاہے چھوٹا ہو، مگر تمھارا ہو۔ فری لانسنگ، آن لائن
بزنس، ڈیجیٹل سروسز یا کوئی اور چھوٹا کاروبار جو دور کے تقاضوں کے مطابق کسی
انسانی مسئلہ کو حل کرسکتا ہو، اسے سوچ بچار اور مخلص اور ماہر دوستوں کے
مشورے سے شروع کرو۔ اگر اتم پنی محنت اور اپنے ٹیلنٹ کو استعمال
میں لاؤ تو اپنے ملک میں رہ کر بھی باعزت زندگی گزارنا ممکن ہے، جہاں تمہاری
سیاسی حیثيت بھی ہوگی اور تم قومی ترقی میں اپنا کردار بھی ادا کرسکو گے۔
اگر ہم غور کریں تو آج کی دنیامیں ایک طرف ہے امریکا
ہے، جسے ہم سپر پاور سمجھتے ہیں اور دوسری طرف چین ہےجو خاموشی اور پختہ عزم کے
ساتھ معاشی میدان میں امریکا کو پیچھے چھوڑچکا ہے۔ یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ عزت،
ترقی اور قیادت صرف مغرب کا استحقاق نہیں، بلکہ محنت، خودداری اور نظریاتی استقامت
رکھنے والی کسی بھی قوم کی میراث بن سکتی ہے۔
دور کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں کا نوجوان قائد بنے، مقلد نہیں۔ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے، خود یہاں کچھ کر کے دِکھائے۔ اَب غلامی کے خواب چھوڑے، اَب وقت ہے قیادت کا اور بہادری سے آگے بڑھنے کا۔ دنیا میں ایشیا کے عروج کا سورج ایک بار پھر طلوع ہو چکا ہے۔ اگر ہم نے اَب بھی اپنی زمین پر اپنے قدم نہ جمائے اور اپنی قومی ترقی کے لیے اجتماعی کردار ادا نہ کیا تو تاریخ نہ ہمیں معاف کرے گی اور نہ ہی آنے والی نسلیں ہم پر فخر کرسکیں گی۔