مسلم دور حکمرانی اور مروجہ نظام تعلیم کا جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مسلم دور حکمرانی اور مروجہ نظام تعلیم کا جائزہ

    مسلمانوں کے دور عروج میں جو نظام تعلیم رہا اسکی اہیمیت پر بات کی گئی ہے اور اسکا انگریزوں کے نظام تعلیم کیساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔۔

    By جنید احمد شاہ Published on Sep 20, 2019 Views 5041
    مسلم دور حکمرانی اور مروجہ نظام تعلیم کا جائزہ
     تحریر:  جنید احمد شاہ، راولپنڈی

    ایک انسان کو ذمہ دار شہری بنانے سے لیکر ایک ذمہ دار قوم بنانے تک کا سفر ایک بہترین اور معیاری نظام تعلیم و تربیت سے ہی ممکن  ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم قومی شعور کو اجاگر کرتا ہے۔ایک قوم فکری و سیاسی ، معاشی و اقتصادی، سماجی و عمرانی ، مذہبی و روحانی  اور قانونی و اخلاقی طور پر اسی وقت ترقی کی منازل طے کرتی ہے جب اسکا نظام تعلیم  یکساں طرز پر ہو اور بلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب  تمام طبقات اور اکائیوں کو درست اور حقیقی سوچ دیتا ہو۔جو ماضی کے تسلسل اور ارتقاء کے ساتھ اپنے دور کے جدید علوم و فنون سے آراستہ کرتا ہو۔ 
    ریاست مدینہ کے قیام(622ء) سے لیکر خلافت عثمانیہ(1924ء) کے خاتمے تک اور محمود غزنوی کے دور حکومت(1001ء) سے لیکر اورنگزیب عالمگیر کی وفات (1707ء)تک مسلم دورحکمرانی کے نظام تعلیم کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ بحثیت مجموعی تمام شعبہ جات میں مسلمانوں کے تشکیل کردہ تعلیمی نظام میں دنیا کی  اقوام ترقی کرتی رہیں۔ مسلمانوں کا فکر وحدت انسانیت یعنی سیاسی نظام  امن و امان کا،  معاشی نظام  مساوات کا اور بلاتفریق  سماجی انصاف کے اصول پر  ہرایک کے حقوق کا ضامن رہا ۔ طبقاتیت سے بالاتر ہو کر تمام رعایا کو  تعلیم کے مواقع فراہم کرتا رہا ہے۔چنانچہ  مسلمانوں کے نظام تعلیم نےنظریاتی  علوم  میں عظیم ترین مفکرپیدا کیے۔ امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ(767ء -699ء) سے لیکر امام !حمد بن حنبلؒ(780-855ء)  تک اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ(1078-1166ء) سے لیکر حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ(1141-1236) تک بزرگان دین کا ایک تسلسل ہے جنہوں نے جامع تصور حیات کی فکر پر رائے عامہ کی ذہن سازی کی۔سائنس کے شعبہ  میں بڑے بڑے ریاضی دان ، ماہرین طبیعات ،  فلکیات اور جغرافیہ دان پیدا کر کے مستقبل کی  ترقیات کی بنیادیں ڈالیں ۔اس صف میں  ابن خلدون ، جابر بن حیان، بو علی سینا ، ابن الہیثم ، الرازی ، الفارابی، الکندی، البیرونی  سمیت بے شمار نام  اپنے علوم کے ساتھ زندہ  ہیں۔
    مسلم دور حکمرانی  کے ہندوستان میں  ایک ہی مدرسہ سے تعلیم حاصل کر کے حضرت مجدد الف ثانی ؒ(1564-1624)اپنے روحانی فیض سے رعایا کو سیراب کر تے ہیں ، اسی مدرسہ سے نواب سعداللہ خان فارغ التحصیل ہوکر شاہجہاں کے دور میں 48 سال وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہے ۔ بحثیت مجموعی تمام شعبہ جات کے ماہرین پیدا کرنا اور پوری قوم کو ترقی دینا مسلمانوں کے یکساں نظام تعلیم کا ہی کمال تھا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں والیان ملک اور امراء تعلیم اور فنون لطیفہ کی پوری سرپرستی کرتے تھے اور جائیدادیں وقف کرتے تھے۔ دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹ جانے پر بھی دہلی کے قریبی اضلاع روہیل کھنڈ میں پانچ ہزار 5000 علماء مختلف مدارس میں درس دیتے تھے۔اس دور میں  شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ تھا۔
    ایک انگریز مورخ الیگزینڈر ہملٹن کے بقول" اورنگزیب عالمگیر ؒکے دور حکومت میں صرف ٹھٹھہ شہر سندھ میں 400 مختلف علوم و فنون کے کالجز تھے"۔ مقریزی کتاب الخطط میں لکھتا ہے " محمد تغلق کے زمانہ میں شہر دہلی میں 1000 مدرسے تھے"۔ مسٹرکیرہارڈی نے لکھا " انگریز عملداری سے قبل بنگال میں اسی  ہزار 80000 مدارس تھے"۔
    برصغیر میں مسلم دورحکمرانی کے زوال کا آغاز 1707 سے ہوتا ہے جب اورنگزیب عالمگیر ؒ کی وفات ہوئی۔ یہ وہ دور ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مکروہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے سرگرم عمل ہوئی۔ 1757 میں نواب سراج الدولہ اور 1799 میں ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد انگریز نے ہندوستانیوں کے لیئے ایک ایسا  نظام تعلیم طبقاتی بنیادوں پر بنانےکا فیصلہ کیا جو غلامانہ سوچ کی پیداوار ہوا ور انگریز حکومت کے لیئے ملازمین پیدا کر سکے۔لارڈ میکالے نے 1835 میں، برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کے لیئے تعلیمی پالیسی پیش کرتے ہوئے دیگر ساری گفتگو کے علاوہ دو جملے کہے جو انگریز کی سامراجی اور ظالمانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس نے کہا 
    "ہمیں ہندوستانیوں کیلئے ایک ایسا نظام تعلیم بنانا چاہیئے جس سے پڑھنے والے طالب علم اپنی نسل اور رنگت کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہنی طور پر ہمارے غلام ہوں"۔ 
    "ہم ہندوستان کو ایک ایسا نظام تعلیم دینا چاہتے ہیں جس سے پڑھ کر نکلنے والا اگر کلرک نہیں بن سکا تو کم از کم افسر بھی نہیں بن سکے گا "۔
    یہ وہ منصوبہ تھا جسے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد باقاعدہ طور پر اس خطے میں  نافذ کیا گیا اور آج تک اس نظام تعلیم سے پڑھ کر نکلنے والے کلرک اور مرعوبانہ  ذہن  ہی پیدا ہو رہے ہیں ، لیڈر نہیں۔ 1861 میں جب برصغیر میں پہلا میٹرک کا امتحان ہوا تو پاسنگ مارکس 33 فیصد رکھے گئے، وجہ یہ بتائی گئی چونکہ برطانیہ میں پاسنگ مارکس 66  فیصد ہیں، ہندوستانی انگریز کے مقابلے میں عقل کے آدھے ہیں اس لیئے انکے لیے پاسنگ مارکس 33 ہونے چاہیئں اور ہم نے بھی آج تک اسی معیار کو اپنے گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔ 
    برعظیم میں نئے دور کے تقاضو ں کا شعور سب سے پہلے حضرت الام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (1703-1762) نے بلند کیا۔ آپ ؒنے قرآن حکیم کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ مدرسہ رحیمیہ دہلی کے ذریعے تعلیم و تربیت کا نظام قائم فرمایا۔ دور زوال سے نکلنے کا مکمل جامع فکر و فلسفہ دیا ۔ آپ ؒکی فکری، سیاسی  و معاشی  جدوجہد  انگریز کے خلاف ایک عملی تحریک  کی صورت میں اجاگر ہوئی ۔ جیسا کہ آپ ؒکے  فرزند ارجمند امام شاہ عبدالعزیز دہلویؒ ، امام شاہ محمد اسحاق دہلوی ؒ، سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہید ؒ، حاجی امدادللہ مہاجر مکی ؒ، مولانا محمد قاسم ناناتوی ؒ، مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ نے اگلے پورے دور میں انگریز کے خلاف  ہر محاذ پر مزاحمت کی ۔ پھر اگلے دور میں حضرت شیخ الہند رؒکی تحریک ریشمی رومال سے لیکر جمیعت علمائے ہند  کے قیام تک امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی ؒ ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ، مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ اور شاہ عبدالرحیم رائے پوری ؒ ، شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ تک علمائے ربانین نے ظالمانہ انگریزی نظام کے خلاف جدوجہد اور کوشش کی۔ اسی وللہی جماعت کی 300 سالہ جدوجہد اور کاوشوں کے نتیجے میں انگریز کو اس خطے سے شکست خوردہ ہوکر نکلنا پڑا۔ انگریز کے قائم کردہ تعلیمی نظام نے مسٹر اور ملا کی جو تقسیم پید ا کی ،ولی اللہی تحریک نے ان دونوں طبقات کو ایک پلیٹ فارم دے کر متحد کردیا۔ 
    1947 میں اس خطے کی تقسیم کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ قومی سوچ اور قومی تقاضوں کے مطابق  نظام تعلیم بناتے تاکہ اسکے نتیجے میں ایک عظیم اور مضبوط قوم وجود میں آتی لیکن  اس نئے ملک میں بھی انگریز کی تعلیمی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے نسل در نسل  محکوم ذہن بنانے کا تسلسل جاری رکھا گیا۔ آج پاکستان میں ایک درجن سے زائد نظام تعلیم متعارف ہیں۔ طبقاتی تقسیم کے ساتھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ایک لمبی چین ہے اور سرکاری سکولوں کا توکوئی پرسان  حال  ہی نہیں ۔ دوسری طرف مدارس میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر الگ الگ بورڈز کا نظام متعارف کروا رکھا ہے جو فرقہ وارانہ سوچ کا حامل ہے۔ پاکستان کا مجموعی نظام تعلیم   خدمت انسانیت کا درس اور قومی سوچ دینے سے قاصر ہے۔ رٹا سسٹم اور نمبر گیم  قابلیت کا معیار ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھایا جاتا۔ 
    پورا نظام تعلیم کاروبار کی  بنیادپر کام کر رہا ہے۔یہ طبقاتی نظام تعلیم انفرادی سوچ ، مفاد پرستی ، دین سے دوری اور غلامانہ سوچ پیدا کرنے کے سواء کچھ نہیں سکھاتا۔ قومی تعلیمی  ادارے ڈگریاں دیتے ہیں ، تعلیم دیتے ہیں لیکن تربیت اور کردار سازی سے کوسوں دور ہیں۔ چنانچہ پاکستان کا نوجوان  تعلیم یافتہ تو  ہےلیکن تربیت یافتہ نہیں اورغیر تربیت یافتہ  قوم، بغیر نظم و ضبط  کے ترقی یافتہ اقوام میں اپنا مقام پیدا نہیں کر سکتی۔
    اس منقسم  طرز تعلیم سے وابستہ  طالب علم ذہنی انتشار کا شکار ، اپنے مستقبل سے مایوس ، یورپ سے مرعوب ، اپنی تاریخ سے نابلد ، غلامانہ سوچ کا حامل ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا  زرخرید غلام بننے پرمجبور  ہوتا ہے۔اسی خطے  میں رقبے اور آبادی کے اعتبار سے  پاکستان سے کئی گنا بڑے ملک چین کی شرح خواندگی 95 فیصد اور انڈیا کی شرح خواندگی  75 فیصد ہے ۔اور تواور  پاکستان  سےعلیحدہ  ہونے والے بنگلہ دیش کی شرح خواندگی  72 فیصد ہے۔ ایران کی شرح خواندگی 93 فیصد ہے۔ پاکستان میں   50 فیصد شرح خواندگی   ہے۔جس میں کم سے کم صلاحیت یہ رکھی گئی  کہ وہ شخص خواندہ  کہلائے گا  جو اپنا نام لکھ سکتا ہو۔  اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا نظام تعلیم دنیا سے 60 سال پیچھے ہے۔ 37 فیصد بچے  اس وقت تعلیمی اداروں سے باہر اور  2 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ 
    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوان میں اس طبقاتی نظام  کا شعور پیدا کریں،  اصول تاریخ  کی درست بنیادپر مطالعہ کروا کے اپنے تابناک اور روشن ماضی  سے آگاہ کریں، نظام تعلیم کی خرابیوں پر مذاکرہ و مباحثہ کا ماحول پیدا کریں۔تعلیم کے ساتھ تربیت کا اہتمام ہو تاکہ ہم منظم ہو کر اجتماعی شکل میں اس فرسودہ نظام کے تدارک کے لیئے اپنی قومی ذمہ داریوں کو بطریق احسن سرانجام دے سکیں۔
    Share via Whatsapp