موٹیویشنل اسپیکرز کی حقیقت
موٹیویشنل اسپیکرز کی حقیقت

موٹیویشنل اسپیکرز کی حقیقت
تحریر : انجینئر قمر الدین خان ۔راولپنڈی
لفظ موٹیویشن یعنی حوصلہ افزائی سے مُراد کسی انسان کو اُس کی حقیقی صلاحیتوں کی پہچان کَرا کر اُس میں حوصلہ پیدا کرنا کہ وہ درست رَاستے کا انتخاب کرتے ہوئے زندگی میں کامیاب ہو سکے۔
موٹیویشن کوئی نئی یا انہونی چیز نہیں، بلکہ انسانی زندگی کی پیدائش سے لے کر آخر تک ہر لمحہ موٹیویشن سے جڑی ہوئی ہے۔ بچہ جب آنکھ کھولتا ہے اور اِدھر اُدھر کی چیزیں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو والدین اِسے مختلف رنگوں کے کِھلونے دِکھا کر موٹیویٹ کرتے ہیں کہ وہ اِن رنگوں کو سمجھنے کی اہلیت پیدا کرے۔ آگے چل کر اس کے ساتھ باتیں کرکے، بولنے کے لیے موٹیویٹ کرتے ہیں اور اسی طرح اس کے چلنے کےقابل ہونے کی موٹیویشن کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ الغرض ہر لمحہ والدین کا کردار بچے کے لیے ایک موٹیویشنل اسپیکر جیسا ہوتا ہے جو بچے کو ہَمہ وقت آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہے ہوتے ہیں۔
اِسی طرح بچہ جب سکول جانا شروع کرتا ہے تو تب بھی والدین اِسے حوصلہ دیتے ہیں کہ وُہ شوق سے پڑھےاور ترقی کرے۔ یہی سلسلہ کالج اور یونیورسٹی دَور میں بھی جاری رہتا ہے کہ وہ بچے کو تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے اسے ہمت دیتے نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ انسان تربیت کے اِن مراحل کو کامیابی سے عُبور کرتا ہوا، زندگی کے اُس اہم مرحلےمیں داخل ہوجاتا ہے، جہاں سے آگے اِس نے مستقبل کے فیصلوں اور دیگر ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے۔
گویا ہر انسان کو پیدائش سے لے کر زندگی کے ہر مرحلے پر موٹیویشن مُیسر رہتی ہے ، جس کی بنا پر وہ اپنی زندگی کے ہر مرحلہ میں کامیابی حاصل کرتا ہوا، آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔
پھر آخر ایسی کیا وَجہ ہے کہ
آج ہمارے نوجوان کو نام نہاد موٹیویشنل اسپیکرز کی غیرحقیقی مصنوعی موٹیویشن کی ضرورت محسوس کرائی جا رہی ہے؟ اور کیوں یہ اسپکیرز نوجوان کی توجہ کا مرکز بنائے گئے ہیں کہ ہر نوجوان اپنی کامیابی کو اِن موٹیویشنل اسپیکرز سے جوڑتا نظر آتا ہے؟ اِن سوالات کے جوابات کو جاننے کے لیے ہمیں انسانی زندگی کو مندرجہ ذیل تین مراحل میں تقسیم کرنا ہوگا۔
1۔ بچپن
سکول جانے کی عمر سے پہلے بچہ والدین کی تربیت وموٹیویشن کے زیرِ اثر ہوتا ہے جو اس کو بولنا چلنا، کھانا پینا اور زندگی کے دیگر بنیادی طَور طریقے سکھاتے ہیں۔
2۔ تعلیمی زندگی
بچپن کے بعد تعلیمی مرحلہ شروع ہوتا ہے، جہاں بچے کو ایک اجتماعی تعلیم و تربیت کے ما حول کے لیے سکول بھیجا جاتا ہے۔چوں کہ سکول کالج اور یونیورسٹی کی تعلیمی زندگی میں تمام اخراجات والدین کی ذمہ داری ہوتے ہیں، اِن سب مسائل سے نوجوان بری الذمہ ہوتا ہے، اس لیے وہ مطمئن حال کی طرح کامیاب مستقبل کے لیے پُر اُمید ہوتا ہے۔
3۔عملی زندگی
تعلیمی مرحلہ مکمل ہونے کے بعد نوجوان کو اپنی علمی وعملی صلاحیتوں کے مطابق ملازمت یا کاروبار کے پیشے سے مستقبل کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پر نوجوان کو کامیاب مستقبل کے لیے موٹیویشن نظام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، یعنی نظام موٹیویشن کے ذریعے اس کے لیے باوَقار اور کامیاب مستقبل کا ذریعہ بنتا ہے یا بے روزگاری اور معاشی تنگی جیسے مسائل میں پھنسا کر مایُوسی پیدا ہونے کا ذریعہ بنتا ہے۔
نظام ظلم کو اپنی بقا میں موٹیویشنل اسپیکرز کی ضرورت
آج پاکستان کا نظام نوجوان کو سوائے مایوسی کے اَور کچھ نہیں دے رہا۔ اسی لیے وہ عملی میدان میں قدم رکھتے ہی حوصلہ ہارنے لگتا ہے اور اِس کی موٹیوشن جو ابھی تک اس کو کامیابیوں کی بلندیوں کے حصول میں مددگار ثابت ہو رہی تھیں، وہ ماند پڑتے ہی مایوسی میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ اہم موڑ ہے، جہاں سے نظام کو مصنوعی موٹیویشن کے ذریعے نوجوان کی اِس مایوسی کو ختم کرنے کے لیے نام نہاد موٹیویشنل اسپیکرز کی ضرورت پڑ تی ہے۔
اگر پاکستان کی 77 سالہ تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کا نظام صرف ایک خاص طبقے کو نواز نے کے لیے بنایا گیا ہے، جب کہ عام عوام اپنی بنیادی ضروریات روٹی کپڑا مکان اور علاج تک سے محروم ہے۔ اس لیے ایسے نظام سے نوجوان کا اپنے لیے کامیاب مستقبل کی اُمید لگانا خوابِ غفلت کے سوا کچھ نہیں، بلکہ عملی زندگی میں نوجوان کا بے روزگاری اور مہنگائی وناقص اشیا و ادویات جیسے معاشی مسائل سے دوچار ہونا یقینی امر ہے۔ مایُوسی کے ان حالات میں نوجوان میں نظام کے خلاف تبدیلی کی سوچ پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ اس لیے نظام ظلم اپنی بَقا کے لیے اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے جہاں اور کئی حربے استعمال کرتا ہے، وہاں ایک جدید حَربہ موٹیویشنل اسپیکرز کی صُورت میں متعارف کرایا گیا ہے۔
موٹیویشنل اسپیکرز کا اجتماعی شعور سے محرومی میں کردار
موٹیویشنل اسپیکرز نوجوان کو نہ صرف اِنفرادیت کی سوچ دے کرمستقبل کی کامیابی وناکامی کو اُس کی ذات سے جوڑ کر نظام ظلم کو اس ذِمہ داری سے بری الزمہ قرار دیتے ہیں، بلکہ چند کامیاب لوگوں کی مثالیں دے کر یہ بات باوَر کَرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسائل اور حالات چاہے جیسے بھی ہوں، کامیابی وناکامی صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی آپ میں صلاحیت ہے تو آپ ضرور کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اگر نظامِ مَملکت آپ کے مستقبل کے لیے فکرمند نہیں تو آپ کو مایوس ہونے کے بجائے اپنی کامیابی کا راستہ خود بنانا چاہیے۔ آپ کو اپنے اندر لیڈرشپ کی خصوصیات پیدا کرنا ہوں گی، آپ کو اکیلے بڑھ کر حالات کا رُخ موڑنا ہوگا۔ گویا مسائل کے حل کے لیے اجتماعی جدوجہد سے انحراف پیدا کیا جاتا ہے۔ یعنی کامیابی کا تعلق باہر کے حالات سے نہیں، بلکہ آپ کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے۔ گویا ساری خرابی آپ میں ہے نظام ٹھیک ہے۔ اس جیسی جذباتی باتیں نوجوان کو سَحرزدہ کر دیتی ہیں اور اُس کو اجتماعی ذمہ داریوں سے غفلت میں مبتلا کر دیتی ہیں اور یوں وہ حقائق سے کوسوں دُور ہو جاتا ہے۔ وہ جب عملی میدان میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو نتائج اس کے برعکس ناکامی کی شکل میں نکلتے ہیں جس کی بنیادی وَجہ یقیناً نظام ظلم کا وہ منفی کردار ہے، جس سے وہ قطعی طور پر بے خبر ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ملکی نظام تو زَوال کا شکار ہو اور نوجوان بغیر نظام کے تعاون کے کامیابی حاصل کرلے!
موٹیویشنل اسپیکرز کی یہ باتیں دَرحقیقت افسانوی کہانیوں کی طرح ہوتی ہیں جو وقتی طور پر ایک ہیجان پیدا کر کے آپ کو خیالی دنیا میں لے جاتی ہیں اور حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حال آں کہ حقیقی موٹیویشن تو حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔ نظام ظلم کی بَقا کے لیے اَصل حقائق کو دَانِستہ طور پر پسِ پَردہ رکھ کر چند کامیاب لوگوں کی مثالوں سے یہ ثابت کرنا کہ کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار نوجوان خود ہے، محض ایک دھوکا اور موٹیویشنل اسپیکررز کے کردار پرسوالیہ نشان ہے؟ درحقیقت مثال وہی قابل عمل ہوتی ہے جو بہت سے کامیاب لوگوں کی نمائندگی کرتی ہو۔ 99 فی صد لوگوں کی ناکامی کے مقابلے میں صرف 1 فی صد لوگوں کی کامیابی کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا کہاں کی حقیقت پسندی ہے؟ مزید سونے پہ سہاگہ یہ کہ جن کامیاب لوگوں کی مثالیں موٹیویشنل اسپیکرز دیتے ہوئے نہیں تھکتے، اُن سب کا تعلق اُن ترقی یافتہ ممالک سے ہوتا ہے جہاں کا نظام بذاتِ خود نوجوان کے لیے موٹیوشن اور کامیابی کا ضامن ہے۔ نظام ظلم موجود ہو اور آپ نوجوان کو مصنوعی موٹیویشن کے ذریعے کامیابی کے سہانے خواب دکھاتے رہیں تو یہ نظام ظلم کی وفاداری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے نظام ظلم میں فاسد مذہبی طبقہ تمام مسائل کو عوام کے اِنفرادی گناہوں کی سزا قرار دے کر نظام ظلم اور حکمران طبقے دونوں کو بری الذمہ قرار دیتا ہے۔
خلاصہ کلام
مندرجہ بالا نکات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ موٹیویشنل اسپیکرز نظامِ ظلم کے پیدا کردہ وہ عناصر ہیں جو خاص ایجنڈے کے تحت نوجوان میں نِظام ظُلم کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت کی سوچ کے مقابلے میں اِنفرادیت کی سوچ کو پَروان چڑھا کر نظام ظُلم کو جِلا بخشتے ہیں۔ اس لیے آج نوجوان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی کامیابی کیا ہوتی ہے اور اس میں ریاست کے نظام کا کیا کردار بنتا ہے؟ مزید یہ کہ اِن موٹیویشنل اسپیکرز کے پیچھے نظامِ ظلم کے کیا مقاصد کار فرما ہیں؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور خصوصاً
نوجوانوں کو نظام ظلم کے پیدا کَردہ ان حَربوں کو سمجھنے اور ان سے
بچنے کا شعوری انداز عطا فرمائے۔