فری لانسنگ کے بڑھتے رجحان کے سماجی اور معاشی اثرات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • فری لانسنگ کے بڑھتے رجحان کے سماجی اور معاشی اثرات

    پاکستان میں فری لانسنگ کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے مختلف کورسز متعارف کروائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔

    By محمد صداقت طلحہ Published on Apr 07, 2025 Views 72

    فری لانسنگ کے بڑھتے رجحان کے سماجی اور معاشی اثرات

    تحریر: محمد صداقت طلحہ۔ وہاڑی 

     

    پاکستان میں فری لانسنگ کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے مختلف کورسز متعارف کروائے جارہے ہیں، جن کا مقصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ بہ ظاہر یہ ایک مثبت قدم معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر اس کے طویل المدتی اَثرات کا تجزیہ کیا جائے، تو یہ کئی معاشی، تعلیمی اور تکنیکی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام جدید ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور سائنسی تحقیق پر سرمایہ کاری کررہی ہیں، جب کہ پاکستان میں نوجوانوں کو محدود ہنر سکھا کر ایک غیرمستحکم فیلڈ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

    فری لانسنگ کا سب سے بڑا نقصان تعلیم کے زوال کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔نوجوانوں میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ تعلیم اور مہارت حاصل کرنے کے بجائے دن رات صرف اور صرف پیسہ کمایا جائے (جیسا کہ سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز فری لانسنگ کے ذریعے سے راتوں رات امیر بننے کے حوالے سے گردش کررہی ہیں) یہ سوچ وقتی طور پر پُرکشش لگتی ہے، لیکن اگر ایک نسل تعلیم سے منہ موڑ لے، تو ملک کا مستقبل یقینا خطرے میں پڑ جائےگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو تحقیق، سائنس اور تعلیمی ترقی کو ترجیح دیتی ہیں۔ اگر یہ رجحان بڑھتا رہا، تو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے افراد کی تعداد کم ہو جائے گی اور ملک علمی و سائنسی میدان میں مزید پیچھے رہ جائے گا۔

    اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ یہ رجحان ایک غیریقینی معیشت کو فروغ دیتا ہے۔فری لانسنگ کی کامیابی کا انحصار عالمی مارکیٹ کی ضروریات اور طلب پر ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔0آج جو مہارت کارآمد ہے، کل کو وہ غیرمتعلقہ ہوسکتی ہے۔ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت اور خودکار سافٹ ویئرز کئی فری لانسرز کی جگہ لے سکتے ہیں، جس سے ہزاروں نوجوان بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ مستقل ملازمتوں کی عدم دستیابی اور سرکاری نوکریوں کی کمی کے ساتھ ساتھ، یہ رجحان معاشی عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری پہلے ہی دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر چل رہی ہے۔ بڑی بین الاقوامی کمپنیاں پاکستانی فری لانسرز سے انتہائی کم قیمت میں کام کرواتی ہیں اور زیادہ تر منافع خود سمیٹتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری ترقی کرنے کے بجائے صرف بیرونی کمپنیوں کے لیے سستےمزدور فراہم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ جب تک پاکستان اپنی مقامی سافٹ ویئر انڈسٹری کو ترقی نہیں دے گا، تب تک فری لانسنگ محض ایک محدود معاشی سرگرمی ہی رہے گی۔

    فری لانسنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پاکستان کی معیشت میں ایک اور عدمِ توازن پیدا ہوسکتا ہے۔ ایک ملک کی ترقی صرف اِنفرادی سطح پر ہونے والی آمدنی سے نہیں، بلکہ منظم صنعتی ترقی اور قومی پیداوار سے جڑی ہوتی ہے۔ چین، جرمنی اور جاپان جیسے ممالک نے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے صنعتی اور تکنیکی ترقی پر توجہ دی، جب کہ پاکستان میں اِنفرادی سطح پر کمائی کو ترقی سمجھا جا رہا ہے۔ اگر یہی رجحان جاری رہا، تو ملک میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے نہیں بن سکیں گے اور صنعتی ترقی رُک جائے گی۔

    اس کے ساتھ ساتھ، فری لانسنگ کا بڑھتا ہوا رجحان سماجی عدمِ استحکام کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ ایک ایسی معیشت جہاں زیادہ تر نوجوانوں کا روزگار غیریقینی ہو، وہاں مستقبل کی منصوبہ بندی ممکن نہیں ہوتی۔ ملازمتوں کے فقدان اور غیرمستقل آمدنی کی وَجہ سے خاندانوں میں مالی بے چینی بڑھے گی اور اس کا اَثر معاشرتی استحکام پر بھی پڑے گا۔ مغربی ممالک میں فری لانسنگ زیادہ تر اضافی آمدنی کے طور پر کی جاتی ہے، جب کہ پاکستان میں اسے بنیادی روزگار کا ذریعہ بنایا جارہا ہے، جوکہ ایک خطرناک طرزِعمل ہے۔ فری لانسنگ کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کو تخلیقی اور تحقیقی کاموں سے دور کر دیتا ہے۔ چوں کہ فری لانسنگ میں زیادہ تر کام دوسرے ممالک کے پروجیکٹس پر مبنی ہوتے ہیں، اس لیے پاکستانی نوجوان اپنے ذاتی سافٹ ویئر، مصنوعات، یا نئی ٹیکنالوجیز بنانے کے بجائے محض دوسروں کے لیے چھوٹے موٹے کام کرتے رہتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی تخلیقی صلاحیتوں کا زیاں ہوتا ہے اور ملک حقیقی معنوں میں کسی بڑی اختراع کی طرف نہیں بڑھ پاتا۔

    حکومت کا فری لانسنگ کو فروغ دینا اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ سرکاری نوکریاں اور معیاری ملازمتوں کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو اپنے نوجوانوں کے لیے ملازمتیں فراہم کرنے میں ناکام ہو، وہ انھیں فری لانسنگ کی طرف دھکیل کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ اگر سرکاری اور نجی شعبے میں روزگار کے مواقع کم ہوتے گئے، تو اس کا اَثر ملکی معیشت اور سماجی ڈھانچے پر بھی پڑے گا۔ پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے فری لانسنگ سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ملک میں سافٹ ویئر ہاؤسز، مقامی کمپنیوں اور تحقیقی اداروں کو ترقی دی جائے۔ چین اور بھارت نے اپنی آئی ٹی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی سافٹ ویئر اور ٹیکنالوجی کی ترقی پر سرمایہ کاری کی، جب کہ پاکستان میں ابھی تک صرف بیرونی کاموں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی روش جاری رہی، تو ہم کبھی بھی عالمی معیار کی ٹیکنالوجی تخلیق نہیں کرسکیں گے۔

    اس میدان میں حقیقی ترقی کے لیے قلیل المدتی فوائد کے بجائے طویل المدتی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ تعلیم،تحقیق، اور مقامی صنعتوں کو فروغ دیے بغیر فری لانسنگ کو کامیابی کا راستہ سمجھنا ایک خطرناک غلط فہمی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو نہ صرف نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں، بلکہ انھیں ایک مستحکم اور ترقی یافتہ معیشت کا حصہ بھی بنائیں۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جو وقتی حل تلاش کرتی ہیں، وہ ہمیشہ ترقی یافتہ اقوام کے پیچھے رہ جاتی ہیں اور نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ وقتی کمائی کی بجائے اپنے مستقبل کی پائیدار ترقی پر توجہ دیں۔ اعلیٰ تعلیم اور جدید مہارتوں میں مہارت حاصل کریں، سائنسی تحقیق، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور سافٹ ویئر انجینئرنگ جیسے شعبوں میں مہارت پیدا کریں، تاکہ وہ محض بیرونی کمپنیوں کے لیے سستی لیبر نہ بنیں، بلکہ خود نئی ٹیکنالوجیز تخلیق کرنے کے قابل ہوں۔ انھیں فری لانسنگ کو ایک اضافی ہنر کے طور پر اپنانا چاہیے، نہ کہ واحد ذریعہ معاش، تاکہ وہ صنعتی ترقی، مقامی کاروبار اور سٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دے سکیں اور ملک کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک خودمختار اور طاقت ور حیثیت دلوا سکیں۔ مزید یہ کہ انھیں تحقیق اور اختراع کو ترجیح دینی چاہیے، تاکہ پاکستان بھی اپنی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر انڈسٹری میں عالمی سطح پر مقابلہ کر سکے اور ایک حقیقی معاشی قوت کے طور پر ابھر سکے، بجائے اس کے کہ وہ صرف دوسرے ممالک کے پروجیکٹس پر کام کرنے تک محدود رہیں۔

    Share via Whatsapp