باشعور اجتماعیت کی ناگزیریت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • باشعور اجتماعیت کی ناگزیریت

    جذباتی طبیعت کے مالک اور ہیجانی کیفیت کے عادی معاشروں میں چیزوں کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی

    By محمد حنیف Published on Aug 25, 2019 Views 2277
    باشعور اجتماعیت کی ناگزیریت
    تحریر: محمد حنیف، بالا کوٹ

    جذباتی اور ہیجانی کیفیت  میں رہنے والے افرادمیں معاشروں کو  حقائق کی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت  نہیں  پنپ سکتی۔ وہ حالات و واقعات کا مطالعہ سطحی اور من پسندی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے تیسری دنیا کے معاشروں  کا بھی یہی المیہ ہے کہ ان کے مجموعی مزاج غوروفکر اور حقائق پسندی کی بجائے جلد بازی اور جذباتیت پر تشکیل پائے ہیں۔ جسکے نتیجے میں معاشرےآگے نہیں بڑھ پارہے اور مسلسل زوال سے دوچار ہیں۔ اس زوال کے پیچھے ان سماجی،سیاسی اور مذہبی نمائندہ طبقات کا کردار ہے جنھوں نے انفرادی، گروہی اورشخصی  مفادات کی خاطر ان تمام حقائق پر پردہ ڈالے رکھا جن سے آگہی ضروری تھی۔
    کوئی بھی  معاشرہ بنیادی اصولی طریقہ کار اور جہدمسلسل کے عمل سے گزرے بغیر عروج حاصل نہیں کرسکتا ۔معاشرتی  کامیابی کے بنیادی اسباب اور محرکات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جن کو اپنائے بغیر ترقی کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔ زوال پذیر معاشروں کی قیادت فرعونی روش  کے تحت افراد کو جاہل رکھ کر تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارتی ہے۔ نفرت اور تقسیم کا ظالمانہ فرعونی نظام انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر بنا دیتا ہے۔ عصر حاضرکا فرعونی نظام سرمایہ داریت ہے جس نے انسانیت کو سرمائے کا غلام بنا کر رکھ دیا۔ اس نظام سے آزادی حاصل کیے بغیر ترقی اور کامیابی کی باتیں محض خواب و خیال ہیں۔ وطن عزیز کا  المیہ  یہ ہے کہ اس میں برطانوی دور  کے تسلسل سے  سرمایہ داری نظام  موجود ہے۔
    اس سسٹم کے تمام نمائندگان کا اس بات پراتفاق نظر آتاہے کہ عوام الناس میں جہالت ، غربت ،منافرت اور تقسیم سسٹم کی بقاء کیلیے ضروری ہیں۔ تاہم نظام کے تمام مذہبی، سیاسی، انتظامی فریق اپنااپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں ۔بدقسمتی یہ ہےکہ نظام سے وابستہ    مذہبی نمائندگان بھی اس نظام کا اہم کردار ہیں۔ لوگوں کو غربت کے فضائل سنا تے ہیں اورخود جن نعمتوں سے دنیا میں مستفید ہورہے ہیں غریبوں  کے لیے  جنت میں ملنے کی گارنٹی دیتے ہیں ۔ جن کاموں کو  دنیا کہہ کر غریبوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں ان میں خود لتھڑے ہوئے ہیں  ۔ اللہ نے  دنیا کے تمام وسائل تمام انسانوں کیلیے پیدا کیے اور ان سے فائدہ حاصل کرنے کابلا تفریق رنگ ،نسل اور مذہب کے تمام انسانوں کو برابر دیا۔ لہذا غربت کو خدا کی تقسیم کہہ کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ظلم ہے۔حضور اکرم ﷺ   نے  غربت کو انسان کے  کفر تک پہنچنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ بتلایا۔
    غربت پیدا کرنے والےسرمایہ داری نظام کی تبدیلی کا عمل ناگزیریت اختیار کرگیا ہے یہاں تک کہ یہ انتخابات کا بھی مقبول نعرہ بن چکاہے۔لیکن یہ تبدیلی ممکن کیسے ہے ؟ کیا اس سسٹم کی تبدیلی کا  کوئی  شارٹ کٹ  ہے؟جو غلاموں کی سی زندگی گزارنے والوں کو آزادی دلا دے۔ اور زوال شدہ معاشرہ راتوں رات ترقی کا سفر طے کرلے؟ اس کا جواب نفی میں ہے تو سماجی تبدیلی کےلیے جدوجہد  کرنے والے عناصر کے لیے اس عمل کے  بنیادی امور اور طریقہ کار سے واقف ہونا  ضروری ہے۔ انہیں  بنیادی انسانی حقوق کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ ان بنیادی حقوق پر بات کی جا سکے جو تمام انسانیت کے ہاں تسلیم شدہ ہیں۔  یعنی موجودہ نظام کا درست تجزیہ کرنا کہ کیسے یہ نظام بنیادی انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ اسکے تمام پہلووں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔  متبادل نظام کا خاکہ ذہن میں ہو کہ انسانیت کے بنیادی حقوق کیونکرپورے کیے جا سکتے ہیں ؟ ان کو عمل میں لانے کا طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے ۔معاشرے کے باشعور افراد کے سامنے اس کا بنیادی  ڈھانچہ رکھا جائے۔ 
    عملا صورتحال یہ ہے کہ سماج میں موجود  جتنی بھی پارٹیاں ، تنظیمیں اور جماعتیں جو سوسائٹی میں تبدیلی لانے کیلیے کام کرتی ہیں یا نعرے لگاتی ہیں۔وہ   نعرے لگانے والےاور شعور سے خالی کارکن پیدا کرتی ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ ان میں جذباتی تقریریں کر نے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ انہیں  مروجہ نظام کی خامیوں کا علم ہوتا ہے  نا ہی کوئی متبادل فریم ورک کا پتہ ۔ ان کے عمل سے  ایک وقتی  ہیجان  پیدا  ہوجاتا ہے۔ کسی بھی عنوان سے کام کرنے والی ایسی جماعتیں معاشرے میں کوئی ساکھ  نہیں رکھتیں۔جب کہ سماجی تبدیلی کاعمل  ایک باشعور اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں ۔ایسی اجتماعیت جس کی فکر میں کل انسانیت کی گنجائش ہو اور وہ انسانیت کے بنیادی حقوق کا علم  رکھتی ہو،اس سے وابستہ افراد معاشرے میں باوقار کردار کے حامل ہوں اور ایک ایسے متبادل نظام کو بنانے اور چلانے کا وژن اور صلاحیت  رکھتے ہوں۔
    Share via Whatsapp