وادی سندھ کی تہذیب، کثیرالجہتی معاشرہ، اور شاہ ولی اللہؒ کی فکر
وادی سندھ کی تہذیب، کثیرالجہتی معاشرہ، اور شاہ ولی اللہ کی فکر
وادی سندھ کی تہذیب، کثیرالجہتی معاشرہ، اور شاہ ولی اللہؒ کی فکر
تحریر: محمد اویس خٹک۔ برلن، جرمنی
وادی سندھ کی تہذیب اور شناخت کا ارتقا
وادی سندھ کی تہذیب، جو تقریباً 2500 قبل مسیح میں اپنے دور میں ترقی کی بلندیوں پر تھی، انسانی تاریخ کی اولین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ تہذیب موجودہ پاکستان اور شمال مغربی بھارت کے علاقوں پر مشتمل تھی اور اپنی ہم عصر تہذیبوں، جیساکہ مصر اور میسوپوٹامیا سے رقبے میں بڑی تھی۔ ہڑپہ اور موہنجو داڑو جیسے شہروں کی منصوبہ بند تعمیرات، جدیدطرز کی نکاسی آب اور معیاری وزن و پیمائش کے نظام اس تہذیب کی اجتماعی سوچ اور تنظیم کی اعلیٰ مثال ہیں۔
وادی سندھ کی تہذیب کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا کثیرالجہتی معاشرہ تھا۔ یہ تہذیب مختلف ثقافتوں، زبانوں اور عقائد کے لوگوں کو ایک ساتھ لے کر چلتی تھی اور یہی تنوع اس کا اصل جوہر تھا۔ یہ مختلف ذوق رکھنے والے افراد کو ایک مشترکہ شناخت میں پروتی تھی، جو سب کے لیے یکساں قابل قبول تھی۔
شناخت، کسی بھی معاشرے کی تعمیر اور اس کے اجتماعی شعور میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ ایک مضبوط شناخت سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے، اجتماعی فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے، اور ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ وادی سندھ کے لوگ بھی اسی اجتماعی شناخت اور کثیر الجہت ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنی تہذیبی کامیابیاں حاصل کرتے رہے، لیکن نوآبادیاتی دور کے آغاز نے اس شناخت کو بکھیر کر رکھ دیا۔
استعمار (colonialism) نے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“کی پالیسی کے تحت سماج میں مصنوعی تقسیم پیدا کی، مذہبی عدم رواداری کی ایسی زہرآلود فضا قائم کردی، جس سے معاشرہ مذہبی، نسلی اور ثقافتی بنیادوں پر ٹوٹ گیا۔ یہ زبردستی تھوپی گئی شناختیں اصل اجتماعی شناخت کو مجروح کرگئیں اور لوگوں میں الجھن پیدا کردی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وادی سندھ کی روایتی سماجی، ثقافتی اور دینی و سیاسی سمجھ بوجھ کو نقصان پہنچا اور معاشرے میں ایک ایسا فکری انتشار و سماجی افراتفری پیدا ہوئی، جس کے اَثرات آج تک انسانی ذہن کو پراگندہ کررہے ہیں اور مجموعی طور پر ہماری اصل شناخت کو دھندھلا کر متشدد، رجعت پسند، ترقی مخالف، فرقہ پرست اور تنگ نظر گروہ کے طور پر پھیلایا گیاہے۔
اس تاریخی پس منظر کو سمجھنا اس بات کے لیے نہایت اہم ہے کہ ہم اپنی اصل شناخت، موجودہ اور غلط شناخت کی پیچیدگیوں کو سمجھ سکیں اور اپنی اجتماعی وراثت کے کثیرالجہتی اصولوں کو دوبارہ اپنانے کی کوشش کرسکیں۔
حقیقی کثیرالجہتی اور شاہ ولی اللہؒ کی فکر
حقیقی کثیرالجہتی وہ ہے، جس میں مختلف ثقافتیں، زبانیں اور مذاہب ایک معاشرے میں ہم آہنگی کے ساتھ موجود رہیں اور ان کے درمیان باہمی احترام اور سمجھ بوجھ کا رشتہ ہو۔ وادی سندھ اور برصغیر کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ سے مختلف طبقات اور عقائد کے درمیان ہم آہنگی کا مظہر رہا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ، ایک عظیم اسلامی مفکر اور مصلح نے کثیرالجہتی کی اس اہمیت کو اپنے علمی کاموں میں خوب صورتی سے بیان کیا۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اسلامی تعلیمات انسانیت کی وحدت اور تنوع کو یکجا کرنے کی طاقت رکھتی ہیں اور معاشرے میں فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع طریقہ کار فراہم کرتی ہیں۔
شاہ صاحبؒ نے اجتہاد اور مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی پر بہت زور دیا۔ انھوں نے حنفی اور شافعی مکاتب فکر کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کی اور ایک ایسے قانونی اور اخلاقی نظام کی بات کی جو معاشرے کے کثیرالجہتی مزاج سے ہم آہنگ ہو۔
تاریخی طور پر وہ علما اور راہ نما جنھوں نے اس خطے کے کثیرالجہتی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی، ہمیشہ عوام میں مقبول رہے۔ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اس روایت کی عکاس ہیں اور برصغیر کی فکری اور ثقافتی تاریخ میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کا فکر اور اس کی بنیادیں
شاہ ولی اللہؒ کا علمی ورثہ ان کے گہرے علم و فکر کی عکاسی کرتا ہے، جو مذہب، ثقافت، تاریخ اور زبانوں پر محیط ہے۔ انھیں برصغیر کی نشاۃ ثانیہ کےایک فلسفی کے طور پر جانا جاتا ہے، جنھوں نے ان تمام عناصر کو معاشرتی ترقی کے لیے استعمال کیا۔ ان کی مشہور کتاب “حجۃ اللہ البالغہ” میں اسلامی اصولوں کی آفاقیت اور مختلف ثقافتوں میں ان کی مطابقت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کے اہم نظریات میں سے ایک “تطبیق الآراء” کا تصور ہے، جس کا مطلب مختلف آراء کو ہم آہنگ کرنا ہے۔ انھوں نے اس اصول کے تحت مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان اختلافات کو کم کرنے اور ایک جامع تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔
شاہ ولی اللہؒ نے ”ارتفاقات“کا نظریہ بھی پیش کیا، جو معاشرتی ترقی کے چار مراحل خاندان، بستی، قوم اور بین الاقوامی برادری پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک ان ستونوں پر ایک انصاف پسند اور ہم آہنگ معاشرہ قائم ہوتا ہے اور ان کا آپس میں تعلق معاشرتی بہتری کے لیے نہایت اہم ہے۔
شاہ صاحبؒ کی فکر کا ایک اور اہم پہلو”رواداری“ ہے، جو مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان باہمی احترام اور ہم آہنگی پر زور دیتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ رواداری ہی ایک پُرامن اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے۔
پاکستان کی شناخت اور وادی سندھ کی تہذیب کا ورثہ
پاکستان جو وادی سندھ کی عظیم تہذیب کا وارث ہے، اپنے اندر ایک گہری ثقافتی اور کثیرالجہتی میراث رکھتا ہے۔ دریائے سندھ جو ہمیشہ سے اس تہذیب کی زندگی کی علامت رہا ہے، ایک ایسی مشترکہ شناخت کی نمائندگی کرتا ہے جو مختلف زبانوں، ثقافتوں اور مذاہب کو جوڑتا ہے۔
اسلام کی آمد نے اس خطے کی کثیرالجہتی اقدار کو مزید تقویت دی اور ان میں انصاف، مساوات اور سماجی بہبود جیسے اصول شامل کیے۔ یہ امتزاج ایک ایسا ڈھانچہ پیش کرتا ہے، جس کے ذریعے پاکستان اپنی تاریخی میراث کو محفوظ رکھتے ہوئے موجودہ فرقہ پرستی، رجعت پسندی، سماجی طبقہ واریت اور سرمایہ پرستی جیسے چیلنجز کا سامنا کرسکتا ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کی فکر ہماری اس اصل شناخت کو سمجھنے اور مضبوط بنانے میں نہایت مددگار ہے۔ ان کے تصورِ دین میں بیان کردہ تین اہم ستون سیاست، طریقت اور شریعت ایک جامع نظام فراہم کرتے ہیں، جو آج کے تین اہم مسائل کو حل کر سکتا ہے:
•سماج: خاندان اور کمیونٹی کے رشتے مضبوط کر کے اخلاقی اور سماجی ترقی کو فروغ دینا۔
•معاش: وسائل کی منصفانہ تقسیم اور معاشی انصاف کی وکالت۔
•سیاست: ایسی حکمرانی کا قیام جو اخلاقی اصولوں پر مبنی ہو اور عوام کی فلاح کو یقینی بنائے۔
شاہ ولی اللہؒ کی فکر ہمیں یہ سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنی تاریخی اور ثقافتی وراثت کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ آج کے دور میں شاہ صاحبؒ کے فکری وارثین ان کے پیش کردہ افکار کی روشنی میں ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس کے نتیجے میں اپنے معاشرے کو ایک عادلانہ اور کثیرالجہتی اصولوں پر مبنی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔