مریخ پر زندگی کی تلاش اور زمین پر انسانیت کی حالتِ زار
زمین سے دور،مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش انسان کے تحقیق اور جستجو کا ایک بنیادی حصہ ہے،جس کو جاری رکھنا ضروری ہے.....
مریخ پر زندگی کی تلاش اور زمین پر انسانیت کی حالتِ زار
تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں
زمین سے دور،مریخ پر زندگی کے آثار کی تلاش انسان کے تحقیق اور جستجو کا ایک بنیادی حصہ ہے،جس کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ اور اگر ایسی ایجادات اور دریافتیں انسانیت کی ترقی کے لیے استعمال ہوتی رہیں تو بہتر رہے گا۔اور تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے ہر دور میں اپنے عقلی مشن کو جاری رکھا ہے۔ چاند پر قدم رکھنے سے لے کر مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے تک،انسان نے کائنات کو سمجھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ سائنس دانوں اور ماہرین فلکیات کی دہائیوں کی محنت کے بعد مریخ کی سطح پر پانی، نامیاتی مرکبات اور ممکنہ مائیکروبیل زندگی کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔
مریخ پر بھیجے جانے والے جدید ترین مشنز، جیسے ناسا کی "پریسیورنس روور" اور یورپین اسپیس ایجنسی کی کوششیں، ہمیں یہ سمجھانے میں مدد دے رہی ہیں کہ آیا مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی یا مستقبل میں زندگی کے امکانات ہیں۔ یہ منصوبے انسان کی اُس عظیم جستجو کی نمائندگی کرتے ہیں، جس میں زمین سے باہر انسانی زندگی کے امکانات کو تلاش کرنا شامل ہے۔ اس سے نہ صرف یہ واضح ہوگا کہ زندگی کا وجود زمین تک محدود نہیں، بلکہ یہ بھی کہ انسان کائنات کے دیگر حصوں میں بھی اپنے قدم جمانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مریخ پر انسانی بستی بسانے کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوششیں انسان کی استقامت، ہمت اور اپنی حدود سے آگے بڑھنے کے عزم کی علامت ہیں۔
زمین پر انسانیت کی حالت زار:
تاہم جب ہم خلا میں زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں،تو زمین پر موجود انسانیت کو درپیش چیلنجز ہمیں ایک تلخ حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں۔ دنیا میں غربت،بھوک،ماحولیاتی تبدیلی،جنگیں اور معاشی عدم مساوات جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ کروڑوں افراد بنیادی ضروریات، جیسے صاف پانی، خوراک اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔
یہ تضاد انسانیت کی ترجیحات پر سوال اُٹھاتا ہے۔ ایک طرف، ہم اربوں ڈالر مریخ اور دیگر سیاروں کی تحقیق پر خرچ کررہے ہیں، جب کہ دوسری طرف زمین پر موجود بہت سے لوگ ایک بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ان کو خاطرخواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔
پرتگالی ادیب جوز سارا ماگو کی یہ بات انسانی تہذیب کے تضادات کو نہایت گہرائی سے عیاں کرتی ہے۔ انھوں نے 1998ء میں ادب کا نوبل انعام وصول کرتے ہوئے کہا، "براہِ کرم مجھے معاف کردیں،آپ کو جو کچھ معمولی نظر آتا ہے، میرے نزدیک وہی سب سے زیادہ اہم ہے۔" ان کا ایک مشہور قول ہے "یہ کیسے انسان ہیں جو مریخ پر زندگی کی تلاش میں خلائی جہاز بھیج سکتے ہیں، جب کہ زمین پر انسانوں کے قتل کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟" میں ایک زبردست سوال پوشیدہ ہے۔ یہ سوال انسان کی ترجیحات،اخلاقیات اور انصاف کے نظام پر اہم تنقید ہے۔
دوسری طرف اگر ہم اسلامی تعلیمات کے تناظرمیں دیکھیں تو قرآن کریم اور سیرت نبویﷺ کی روشنی میں بھی تحقیق اور جستجو کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں کئی آیات کریمہ، جیسے:"اور زمین و آسمان کی پیدائش اور رات دن کے ہیر پھیر میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔" (سورہ آل عمران: 190)
یہ آیت انسان کو کائنات کے رازوں پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ تاہم قرآن کریم کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی درس دیا گیا ہے کہ انسانوں کے ساتھ بہتر رویہ اپنایا جائے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ نبی اکرم ﷺ کی زندگی اس بات کی عملی مثال ہے کہ انسانی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔"
یہ اصول ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ کائنات کی رازوں پر تحقیق کرنا اہم ہے، لیکن انسانیت کے مسائل سے بے خبری اور بے رغبتی کہاں کی انسانیت ہے؟
معروف ماہر اقتصادیات امرتیا سین نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ انسانی ترقی صرف اقتصادی ترقی پر منحصر نہیں، بلکہ یہ تعلیم، صحت اور سماجی انصاف پر بھی منحصر ہے۔ ان کے مطابق ترقی کا پیمانہ وہ ہے، جس سے انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔
مہاتما گاندھی نے کہا تھا، "زمین ہر کسی کی ضروریات پوری کرسکتی ہے، لیکن ہر کسی کی لالچ کو نہیں۔" یہ قول انسانی حرص اور وسائل کے غلط استعمال پر روشنی ڈالتا ہے۔ گاندھی کا یہ نظریہ موجودہ وقت میں اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے، جب ہم عالمی مسائل جیسے ماحولیاتی تبدیلی اور عدم مساوات کے خطرات سے دوچار ہیں۔ لیکن ہم کسی اور لالچ میں پڑے ہیں۔ اسی طرح سماجی مصلح نیلسن منڈیلا نے کہا، "حقیقی آزادی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک غربت کا خاتمہ نہ ہو اور انسانی وقار بحال نہ کیا جائے۔" یہ بیان انسانیت کے بنیادی مسائل پر عالمی توجہ کی ضرورت کو اُجاگر کرتا ہے۔
ایلون مسک، جو دنیا کے امیرترین افراد میں سے ایک ہیں، اپنی کمپنی اسپیس ایکس کے ذریعے مریخ پر انسانی بستی بسانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کے منصوبے میں خلائی سفر کو عام کرنا اور مریخ کو انسانی رہائش کے قابل بنانا شامل ہے۔ اسپیس ایکس کے مختلف مشنز اور راکٹ ٹیکنالوجی کی ترقی پر اربوں ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایلون مسک کو زمین پر انسانی مسائل کے حل نہ کرنے کے حوالے سے اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کی کمپنیوں میں مزدوروں کے حقوق کے مسائل معاشرتی عدم مساوات کو بڑھاوا دینے والی ٹیکنالوجی اور بعض اوقات انسانیت سوز رویے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا مریخ پر بستی بسانا ایک ضروری ترجیح ہے، جب کہ زمین پر موجود اربوں انسان بنیادی ضروریات سے محروم ہیں؟
یہ اقوال اور حقائق اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ انسان سائنسی ترقی میں تو بہت آگے بڑھ چکا ہے، لیکن انسانی اخلاقیات، مساوات اور عالمی امن کے مسائل پر وہ توجہ نہیں دے رہا جو دینی چاہیے تھی۔ مریخ پر زندگی کی تلاش ایک متاثر کن کامیابی ضرور ہوسکتی ہے، لیکن اگر ہم زمین پر انسانوں کو قتل و غارت، بھوک، غربت اور استحصال سے نجات نہیں دِلوا سکے تو یہ ترقی ادھوری اور نامکمل رہے گی۔
جوز سارا ماگو، دیگر دانش وروں اور ایلون مسک جیسے ارب پتی افراد کے منصوبوں کے درمیان یہ تضاد ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ سائنسی ترقی صرف اس وقت بامعنی ہوسکتی ہے، جب اس کے ثمرات زمین پر موجود ہر انسان کی بھلائی کے لیے استعمال ہوں۔ مریخ کی جستجو اپنی جگہ اہم ہے،لیکن زمین پر انسانیت کی بقا، امن اور خوش حالی کو نظرانداز کر کے ہم ایک نامکمل تہذیب کی نمائندگی کرتے ہوں گے۔
آج یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر غور کریں اور زمین اور کائنات میں انسانی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے اور ایک بہتر مستقبل تشکیل دینے کی کوشش کریں۔ مریخ کی تحقیق اور زمین پر مسائل کے حل میں توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ تاکہ سائنسی ترقی اور انسانی خوش حالی ایک ساتھ ممکن ہو سکے۔ جوز سارا ماگو کی بصیرت، دیگر دانش وروں کے خیالات اور موجودہ وقت کے صنعتی و سائنسی راہ نماؤں کے اقدامات ہمیں ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنے اور عملی اقدامات اُٹھانے کا درس دیتے ہیں۔