سماجی ترقی کے اصول - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی ترقی کے اصول

    اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک آزاد انسانی سماج عدل، امن، معاشی خوش حالی اور تعلیم و شعور جیسے بنیادی اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔ان اصولوں کو۔۔۔۔۔۔

    By M Umair Malick Published on Dec 09, 2024 Views 122

    سماجی ترقی کے اصول 

    (قرآن، احادیث اور دینی مفکرین کے افکار کی روشنی میں)

    تحریر: محمدعمیرملک۔ کراچی 

     

    اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک آزاد انسانی سماج عدل، امن، معاشی خوش حالی اور تعلیم و شعور جیسے بنیادی اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔ان اصولوں کو قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور مفکرین کی آرا کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ذیل میں ان اصولوں کو ترتیب وار پیش کیا گیا ہے:

    1۔ عدل (Justice):

    عدل انسانی سماج کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی اہمیت کو واضح طور پر بیان کیا ہے:

    "بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے اور بدی اور بے حیائی سے روکتا ہے۔"(سورۃ النحل: 90)

    رسول اللہ ﷺ نے بھی عدل کو سماجی فلاح کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا:

    "عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے والے قیامت کے دن اللہ کے نزدیک نور کے ممبروں پر ہوں گے۔"(صحیح مسلم)

    شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے "حجة اللہ البالغہ" میں عدل کو کائناتی اور سماجی نظام کی بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھا:

    "عدل وہ اصول ہے، جس سے افراد اور قومیں اپنے حقوق حاصل کرتی ہیں اور فساد کا خاتمہ ہوتا ہے۔"

    امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں:

    "عدل وہ ذریعہ ہے جو ایک منصفانہ سماج کو وجود میں لاتا ہے، جہاں امیر اور غریب دونوں کو یکساں حقوق میسر ہوں۔"

    مولانا ابوالکلام آزادؒ کے نزدیک:

    "عدل کے بغیر کوئی سماج پائیدار نہیں ہو سکتا، کیوں کہ انصاف ہی آزادی اور انسانیت کا حقیقی معیار ہے۔"

    مثال:

    حضرت عمرؓ کا قول

     "اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی پیاس اور بھوک سے مر جائے تو قیامت کے دن عمر اس کے لیے جواب دہ ہوگا"

    اسلامی عدل کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

     

    2۔  امن (Peace):

    سورہ نحل آیت 112 میں ارشاد ہے

    "اللہ تعالیٰ ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرماتاہے جو امن والی ہے"۔ 

    ایک دوسری جگہ قرآن مجید نے زمین پر امن قائم رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    "اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"(سورۃ الاعراف: 56)

    نبی اکرم ﷺ نے امن کے حوالے سے فرمایا:

    "مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔"(صحیح بخاری)

    شاہ ولی اللہؒ کے مطابق:

    "معاشرے میں امن قائم رکھنا مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا۔"

    مولانا سندھیؒ کہتے ہیں:

    "ریاست کی اولین ذمہ داری امن قائم کرنا ہے، کیوں کہ امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔"

    مولانا ابوالکلام آزادؒ لکھتے ہیں:

    "امن ایک ایسا ستون ہے، جس پر آزاد معاشرتی نظام کھڑا ہوتا ہے۔ اگر انسان خوف کے سائے میں زندہ رہے تو وہ حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہو سکتا۔"

    مثال:

    صلح حدیبیہ امن قائم کرنے کی ایک بہترین مثال ہے، جس نے اسلام کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔

     

    3۔  معاشی خوش حالی(Economic Prosperity):

    سورہ نحل کی مذکورہ آیت 112 میں "اٰمنةً" یعنی امن والی سوسائٹی کے ساتھ دوسرا لفظ ذکر کیا گیا؛ مطمئنّٙةً یعنی معاشی طور پر مطمئن اور خوش حال معاشرہ۔ اسی طرح قرآن مجید نے معیشت کی ترقی اور عدل پر مبنی نظام کو فروغ دینے کا حکم دیا:

    "اور جو مال اللہ نے تمھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اور اپنے ہاتھ کو تباہی کی طرف نہ بڑھاؤ۔"(سورۃ البقرۃ: 195)

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    "اوپر والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔"(صحیح بخاری)

    شاہ ولی اللہؒ نے لکھا:

    "اسلامی معیشت میں زکوٰۃ اور صدقات کا نظام دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتا ہے، تاکہ سماج میں غربت اور استحصال کا خاتمہ ہو۔"

    مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے مطابق:

    "معاشی ناہمواری سماج کے زوال کی جڑ ہے اور اسلامی معیشت اس کا علاج فراہم کرتی ہے۔"

    مولانا ابوالکلام آزادؒ فرماتے ہیں:

    "معاشی عدل ہی سماجی استحکام کا ضامن ہے۔ زکوٰۃ اور دیگر مالی نظام سماج کو غربت سے نکال کر خوش حالی کی طرف لے جاتے ہیں۔"

    مثال:

    حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں نظامِ عدل کے قیام کےبعد زکوٰۃ کا نظام اتنا مضبوط تھا کہ کمی بیشی دور ہوگئی اور غربت کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔

     

    4۔  تعلیم اور شعور(Education and Awareness):

    تعلیم ایک ایسا ستون ہے جو سماج کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ قرآن مجید نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:

    "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔"(سورۃ العلق: 1)

    رسول اللہ ﷺ نے علم کے حصول کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیتے ہوئے فرمایا:

    "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"(ابن ماجہ)

    شاہ ولی اللہؒ نے تعلیم کو انسانی ترقی کا اہم ذریعہ قرار دیا:

    "تعلیم انسان کے شعور کو بیدار کرتی ہے اور اسے اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے۔"

    مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے مطابق:

    "تعلیم صرف پیشہ وارانہ مہارت نہیں، بلکہ شعور کی بیداری اور سماجی انصاف کے لیے ضروری ہے۔"

    مولانا ابوالکلام آزادؒ کہتے ہیں:

    "تعلیم فرد کی شخصیت کی تکمیل کرتی ہے اور اسے سماج کا ایک فعال رکن بناتی ہے۔"

    مثال:

    رسول اللہ ﷺ نے بدر کے قیدیوں کو مسلمانوں کو تعلیم دینے کے عوض آزاد کیا، جو تعلیم کی اہمیت کا بہترین نمونہ ہے۔

     

    نتیجہ:

    عدل، امن، معاشی خوش حالی اور علم وشعوروہ ستون ہیں، جن پر انسانی سماج قائم ہوتا ہے۔ قرآن، احادیث اور اسلامی مفکرین کی آرا ان اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

    لیکن ان چاروں سنہرے اصولوں کی افادیت تب ہوگی، جب ان کو اپنانے والی قوم آزاد و خودمختار ہوگی۔ تب اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو ایک پرامن، خوش حال اور ترقی یافتہ سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے، جو نہ صرف اِنفرادی بلکہ اجتماعی فلاح و بہبود کا ضامن ہوگا۔

     

    Share via Whatsapp