نوجوان نسل کو درست راہنمائی کی ضرورت
کسی بھی معاشرے میں نوجوان آبادی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، کیوں کہ وہ مستقبل پر اَثرانداز ہونے اور معاشرے کو نئی تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
نوجوان نسل کو درست راہ نمائی کی ضرورت
تحریر: آفتاب احمدمنہاس۔ راولپنڈی
کسی بھی معاشرے میں نوجوان آبادی بہت اہمیت کی
حامل ہوتی ہے، کیوں کہ وہ مستقبل پر اَثرانداز ہونے اور معاشرے کو نئی تشکیل دینے
کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نوجوانوں کی توانائی، تخلیقی صلاحیتیں اور عزائم قوموں کے
مستقبل کی تشکیل کرتے ہیں۔ یوں نوجوان معاشرے کی معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی میں
اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
نبوت کے بعد جب حضورﷺ نے دعوت کا آغاز کیا تو
نوجوانوں پر ہی خصوصی توجہ فرمائی اور انھیں اپنی تربیت میں لے کر مستقبل کا معمار
بنایا۔ مکی دور میں اسلام قبول کرنے والوں کی عمریں، ماسوائے چندصحابہ کرام کے،
پندہ سے تیس سال کے درمیان تھیں ۔ مکہ کے وہ نوجوان جو نسلوں سے غلامی کی زنجیروں
میں جکڑے ہوئے تھے، نبی ﷺ کی تربیت میں آکر مستقبل کے تابناک ستارے بن کر اُبھرے۔
حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ان کے والد ان کو کہا کرتے تھے
"اے عمر! تو تو بکریاں بھی نہیں چرا سکتا، تیرا کیا بنے گا" اور پھر
تاریخ نے دیکھا وہی حضرت عمرفاروقنبوی تربیت میں آکر دنیا کے بہترین منتظم (Administrator)
بنے۔اس ضمن میں حضرت عثمان،حضرت علی، حضرت عبدالرحمنبن عوف، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ہے جو
زمینی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہیں۔ ورلڈبینک کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کی
موجودہ آبادی کی اوسط عمر اس وقت 22 سال ہے۔ گویا پاکستان کی زیادہ آبادی نوجوانوں
پر مشتمل ہے،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمارے قومی نظام نے کوئی پروگرام وضع
کیا ہے، جس کی مدد سے ان افرادی وسائل کو بروئے کار لاکر ملک و قوم کی ترقی میں
شامل کیا جا سکے؟ الیکڑونک اور سوشل میڈیا میں ملک کی نامور شخصیات کو سنیں تو وہ
سارے مسائل کا ذمہ دار عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو ٹھہراتی ہیں۔ اگر ان باتوں کو
سامنے رکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوجوان اپنے تئیں خود کچھ کر سکتا
ہے ؟
پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام نے تو بچوں سے
بچپن تک چھین لیا۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین اداروں سے
تعلیم دلوائیں، تاکہ وہ آنے والے دور کے لیے بہتر طور پر تیار ہو سکیں۔ تعلیمی
ادارے والدین کی اسی خواہش کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انھیں بد ترین استحصال کا نشانہ
بناتے ہیں۔ جو بچہ ابھی صحیح سے اپنے وزن پہ کھڑا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ٹھیک سے
بات کرسکتا ہے، تعلیمی اداروں کے قواعد کے مطابق انھیں سکول میں داخل کروا دیا
جاتا ہے ،جہاں بچے سارا دن مشینوں کی طرح رَٹا لگا کر سبق پڑھتے ہیں اور پھر اپنی
یاداشت کی بنیاد پر امتحان دے کر کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ لارڈمیکالے کے وضع کردہ
تعلیمی نظام میں ایک طالب علم نہ تو خود سے کچھ سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اپنی تخلیقی
صلاحیتوں کی بنیاد پر کچھ کرسکتا ہے۔ یہی ماحول لے کر جب وہ اعلٰی تعلیم کے لیے
کالج یا یونیورسٹی میں جاتا ہے تو وہاں بھی نمبروں کی دوڑ میں تخلیقی صلاحیتیں
کہیں دور پیچھے رہ جاتی ہیں۔
حالیہ کچھ سالوں میں ملک کی سیاسی و معاشی
صورتِ حال کی وَجہ سےنوجوانوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑ کر جارہی ہے اور جونوجوان
یہاں موجود ہیں وہ بھی اسی کوشش میں ہیں کہ کہیں سے ویزا یا داخلے کی اجازت ملے،
تاکہ وہ یہاں سے جا سکیں۔ اس دوران یہ سوال ان کے پیش نظر نہیں ہے کہ ہ وہاں جا
کربھی وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس ماحول میں 17-18 سال
گزارنے کے بعد نوجوانوں پہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ صرف کورس کی کتابیں ہی پڑھتے
ہیں اور کوئی مطالعاتی ذوق نہیں رکھتے۔ اصل وَجہ یہ ہے کہ اس تعلیمی نظام نے انسان
کے اندر کچھ سیکھنے کی جستجو پیدا ہی نہیں کی اور نہ ہی ان میں مطالعے کی دلچسپی
پیدا کی۔ تعلیمی اداروں میں گزارا ہوا وقت عملی زندگی میں صرف اخراجات کی رسیدیں
بن کر رہ جاتا ہے۔ طلبا کو صرف ایک صارف اور خریدار کے طور پر ہی لیا جاتا ہے، جس
سے وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکیں۔
ڈاکٹر جارج لینڈ (Dr. George Land)
اور ڈاکٹر بیتھ جرمن (Dr. Beth Jarman) کی 1993 ءمیں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق 5
سال کی عمر میں بچوں میں ذہانت(Genius
Level) کی اوسط 98 تک
ہوتی ہے۔ یہی سطح 30 سال کی عمر میں 2 فی صد تک رہ جاتی ہے، جس کی مختلف
وجوہات میں سے ایک وَجہ سرمایہ داری نظام ہے جو ایک انسان کو صبح سے شام تک صرف
کام میں مصروف رکھتا ہے اور پھر انٹرٹینمنٹ کے نام پر افسانوی کرداروں کو دکهایا
جاتا ہے۔ پھر یہی سرمایہ دارانسان کی بھوک میں آئے دن اضافہ کرتے ہیں، کبھی نت نئے
فیشن کے نام پر اور کبھی برانڈز کے نام پر۔ اس بھاگ دوڑ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ان
سرمایہ داروں کے لیے دن رات کام کیا جائے اور جب یہ اس منافع میں سے چند سکے
ملازمین کو دیں تو وہ ملازم کچھ خریداری کر کے کسی اور سرمایہ دار کو وہ پیسے واپس
کر دیں۔ ایک عام انسان کی ترقی کا معیار اسی بات میں رکھ دیا گیا ہے کہ وہ گاڑی
کون سی چلاتا ہے اور اس کے ہاتھ میں موبائل کون سا ہے۔
دنیا میں اس وقت اوسط گریجوایشن کی عمر 22 سے
27 سال کے درمیان ہے ۔ یعنی ایک نوجوان اپنی زندگی کا 33 فی صد حصہ ان اداروں میں
گزارکر جب باہر آتا ہے تو سماج اور ادارے اسے قبول نہیں کرتے۔ سکول اور کالج میں
وہ جو بھی اخلاقیات پڑھ کے آتا ہے، معاشرے میں وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ یہاں سے
اس کی بقا کی جنگ شروع ہوتی ہے اور وہ سرتوڑ کوشش کرتا ہے کہ کسی اچھے ادارے میں
ملازمت مل جائے ۔ اگر وہ اس ریس میں جیت بھی جائے تو خود کو منوانے میں مزیدچار
پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ یوں وہ ساری زندگی انھی سرمایہ داروں کے لیے کام کرتا ہے
اور انھی کی دولت و طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔
ان سب مسائل کے باوجود اگر تاریخ کا جائزہ لیں
تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قوموں کی تقدیر صرف نوجوان ہی بدل سکتےہیں۔ دورِحاضر
کا تقاضا یہ ہے کہ نبویﷺ انقلاب کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی روشنی میں اپنے
معاشرے میں تبدیلی کی کوشش کی جائے۔ ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کا یہ کمال ہے کہ اس
ادارے نے نوجوانوں کو اس بھنور سے نکالا اور انھیں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ دینی
اور سیاسی شعور بھی دیا ، انھیں سیاسی و مذہبی جماعتوں کا آلہ کار بننے سے بچایا،
انھیں اس قابل بنایا کہ وہ سامراجی سازشوں کے بہکاوے میں آنے کے بجائے ان کی چالوں
کو سمجھیں اور آنے والے دور میں ملک و قوم کی ترقی کے لیے کام کرسکیں۔ا ﷲ سے دعا
ہے کہ ہمیں دینی اور سماجی شعور کو حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین ۔