اجتماعی ناکامی کی وجوہات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اجتماعی ناکامی کی وجوہات

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار نہ صرف ان کے اتحاد اور محنت پر ہوتا ہے، بلکہ ان کی صفوں میں چھپے غدار اور تساہل ......

    By Asghar Surani Published on Dec 20, 2024 Views 120

    اجتماعی ناکامی کی وجوہات

    تحریر: محمد اصغرخان سورانی۔ بنوں 

     

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار نہ صرف ان کے اتحاد اور محنت پر ہوتا ہے، بلکہ ان کی صفوں میں چھپے غدار اور تساہل پسند افراد کے رویوں پر بھی ہوتا ہے۔ غداری اور تساہل پسندی ایسی بیماریاں ہیں جو معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں اور ترقی کے امکانات کو معدوم کردیتی ہیں۔

    کہتے ہیں کہ ایک ٹریننگ سیشن میں ایک لیڈر بھیڑیے نے اپنے نوجوان بھیڑیوں کو شکار کے طریقے سکھانے کے لیے، بھیڑوں کو ریوڑ کے پاس لے جا کر نصیحت کی کہ بھیڑوں اور بکریوں کا گوشت لذیذ ہوتا ہے، لیکن چرواہے کی لاٹھی تکلیف دہ ہوتی ہے، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ جب جوان بھیڑیوں نے ریوڑ کے اندر کھڑے ایک کتے کو دیکھا، جو شکل میں ان بھیڑیوں جیسا تھا تو اس نے اپنے لیڈر سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ لیڈر نے خبردار کیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم جیسے نظر تو آتے ہیں، مگر ہمارے دشمن ہوتے ہیں اور آج تک ہمارا سب سے بڑا نقصان انھی کی وَجہ سے ہوا ہے۔

    مطلب یہ کہ بہ ظاہر اپنے جیسے لگنے والے لوگ، اگر دل میں خیانت اور خودغرضی رکھتے ہوں، تو وہ اصل دشمن ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو ذمہ داری کے وقت تساہل سے کام لیتے ہیں۔ ایسے افراد اپنی قوم،تنظیم یا گروہ کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں اور دشمن کو کامیاب ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

    چناں چہ غدار وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی کرتے ہیں اور دشمن کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنی قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں، بلکہ دشمن کے منصوبوں کو بھی کامیاب کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے غداروں کی فطرت اور اَثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیوں کہ ان کا وجود کسی بھی قوم کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یہ رویہ صرف جنگوں تک محدود نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی کے معاملات میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، چاہے وہ سیاسی میدان ہو، کاروباری دنیا ہو، یا کوئی اور شعبہ زندگی ہو۔

    ان غداروں کو موقع اس وقت ملتا ہے، جب وہاں کے کام والے لوگ تساہل پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تساہل پسندی کا مطلب ذمہ داری سے بھاگنا اور اپنی ڈیوٹی میں کوتاہی برتنا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اِنفرادی ناکامی کا سبب بنتا ہے، بلکہ اجتماعی ترقی کو بھی روکتا ہے۔ جب کوئی فرد اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتا، تو اس کا اَثر پوری ٹیم یا قوم پر پڑتا ہے۔ وقت کی پابندی، محنت اور ایمان داری ہی وہ اصول ہیں، جن کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔

     انقلابی لیڈر چی گویرا کہتے ہیں کہ "غدار ہمیشہ انقلاب کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے عمل سے قوم کو اندر سے کمزور کرتا ہے اور دشمن کو وار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔"

    ولادیمیر لینن کا مشہور قول ہے کہ 

    "اپنے دشمنوں سے بچنا آسان ہے، لیکن غداروں کی پہچان کرنا سب سے مشکل کام ہے۔"

    تاریخ کو اگر ایک نظر دیکھ لیا جائے تو ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ اندلس میں مسلمانوں کی شان و شوکت کا خاتمہ، وہاں کے حکمرانوں کی نااتفاقی اور غداری کی وَجہ سے ہوا۔ بعض حکمرانوں نے سامراجی قوتوں کے ساتھ سازباز کرکے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف جنگیں لڑیں، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل ہونا پڑا۔ 

    عثمانی سلطنت، جو ایک وقت میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی، اپنی تساہل پسند حکمرانی اور انتظامیہ کی کوتاہیوں کی وَجہ سے زوال پذیر ہوئی۔ حکمرانوں نے محنت، منصوبہ بندی اور اصلاحات کو نظرانداز کیا، جس سے دشمنوں کو ان پر قابو پانے کا موقع ملا۔ اسی طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال میں میرجعفر اور میرصادق جیسے غداروں کا کردار نمایاں ہے۔ میرجعفر نے جنگ پلاسی میں انگریزوں کا ساتھ دیا، جس کے نتیجے میں بنگال میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اسی طرح میرصادق نے ٹیپو سلطان کے خلاف انگریزوں کی مدد کی، جو جنوبی ہندوستان میں مسلم اقتدار کے خاتمے کا سبب بنی۔ انگریزوں کے دور میں برصغیر کے مسلمانوں نے تعلیم اور جدید علوم کو نظرانداز کیا۔ اس تساہل پسندی کی وَجہ سے وہ اقتصادی اور سماجی ترقی میں پیچھے رہ گئے، جب کہ دیگر غالب اقوام نے تعلیم کے ذریعے اپنا مقام مضبوط کیا۔

    مسئلہ فلسطین کے حل میں ناکامی کا سبب غداری 

    فلسطین کی موجودہ صورتِ حال میں جہاں اسرائیل کا جبر اور بربریت واضح ہے، وہیں فلسطینی صفوں میں موجود غداروں اور خودغرض قیادت کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسرائیل کے مسلسل ناجائز قبضے اور فلسطینی عوام کے خلاف مظالم میں ان تنظیموں اور رہنماؤں کا بھی بڑا کردار ہے جو بہ ظاہر فلسطینیوں کے معاون بننے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن درحقیقت اپنے ذاتی مفادات کے لیے دشمن سے مالی مدد لیتے ہیں اور ان کے منصوبوں کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ یہ تنظیمیں فلسطینی عوام کو تقسیم کرتی ہیں، باہمی انتشار پیدا کرتی ہیں اور اسرائیل کو اپنے عزائم پورے کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

    بعض فلسطینی رہنما اور پڑوسی ممالک کا یہ حال ہے کہ وہ ظاہری طور پر اپنے آپ کو فلسطینیوں کا ہمدرد دکھاتے ہیں تو دوسری طرف وہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے اور اسرائیل سے غیر اعلانیہ تعاون کرتے ہیں۔ ایسی قیادتیں فلسطینی عوام کے حقوق کے بجائے کسی اَور کے مفادات پورا کرنے کی فکر میں رہتی ہیں۔ الفتح جیسی بڑی اور قومی تنظیم کے ہوتے ہوئے کسی اور تنظیم کا فرنٹ پر آنا بنیادی طور پر آزادی کی قومی تحریک کو نقصان پہنچانا ہے۔ اَب عام آدمی کو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی تنظیم ان کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہے اور کون سے لوگ اندرونی تقسیم اور انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسرائیل کو نہ صرف فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے میں آسانی ہوئی ہے، بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی جدوجہد بھی کمزور ہوتی نظر آتی ہے۔ ایسے میں فلسطینی عوام صرف اسرائیلی مظالم ہی کے نہیں، بلکہ اپنی قیادت کی غداری کے بھی شکار ہیں۔

    تساہل پسندی کا نقصان 

     غداری اور تساہل پسندی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب قوم کے افراد اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کرتے ہیں، تو غداروں کو اپنے منصوبے کامیاب کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تساہل پسندی سے پیدا ہونے والی کمزوریاں دشمنوں کے لیے ہتھیار بن جاتی ہیں۔ ایک غیرذمہ دار معاشرہ نہ صرف اپنی حفاظت کے قابل نہیں رہتا، بلکہ دشمنوں کو اپنی صفوں میں داخل ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

    نوجوانوں کی ذمّہ داری 

    نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنی تعلیم، کردار اور شعور کو مضبوط کریں، تاکہ دشمنوں اور غداروں کی سازشوں کو پہچان سکیں۔ ایک ذمہ دار نوجوان نہ صرف اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرتا ہے، بلکہ نہ وہ خود کسی طاقت کا آلہ کار بنتا ہے اور نہ اپنی صفوں میں غدار عناصر کو برداشت کرتا ہے، بلکہ ان جیسے عناصر کی نشان دہی کرتا ہے جو قوم کی ترقی کے بجائے نقصان کا باعث بن رہے ہوں۔ نوجوان اپنی تاریخ، مذہب، اپنی ترقی کے افکار ونظریات اور قومی مفاد سے گہری وابستگی رکھیں اور اپنی قابلیت کو قوم کی خدمت کے لیے وقف کریں۔ 

    ایک باشعور اور متحد قوم ہی دشمن کے عزائم کو ناکام بنا سکتی اور کامیابی کا منہ دیکھ سکتی ہے۔

     

    Share via Whatsapp