غور و فکر کی عادت؛ ایک مثبت رویہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • غور و فکر کی عادت؛ ایک مثبت رویہ

    سرسبز وادی کے ایک دور افتادہ گاؤں میں، جہاں روایات کی جڑیں زمین کی گہرائیوں تک پھیلی ہوئی تھیں، ایک پریشان باپ اپنے بارہ سالہ بیٹے کا ہاتھ تھامے۔۔۔۔

    By Asghar Surani Published on Dec 11, 2024 Views 247

    غور و فکر کی عادت؛ ایک مثبت رویہ

    تحریر: محمد اصغرخان سورانی۔ بنوں 

     

    سرسبز وادی کے ایک دور افتادہ گاؤں میں، جہاں روایات کی جڑیں زمین کی گہرائیوں تک پھیلی ہوئی تھیں، ایک پریشان باپ اپنے بارہ سالہ بیٹے کا ہاتھ تھامے، ڈاکٹر کے کلینک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بچے کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ دنیا کو ایک مختلف نظر سے دیکھ رہا ہو۔

    کلینک کے اندر داخل ہوتے ہی والد نے اپنی پریشانی کا اِظہار کیا، "ڈاکٹر صاحب، میرا بیٹا... اسے ایک انوکھی بیماری نے گھیر لیا ہے۔ یہ ہر چیز پر سوال اٹھاتا ہے، ہر روایت پر سوچتا ہے، ہر ناانصافی پر آواز بلند کرتا ہے۔"

    والد نے آہ بھری اور آگے بتایا، "گزرے ہفتے اس نے خان صاحب کی عمارت کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ ایک خاندان کے پاس اتنی زمین ہو، جب کہ دوسرے فاقوں میں سو رہے ہیں؟ مسجد میں امام صاحب سے پوچھا کہ اگر اللہ نے سب کو برابر پیدا کیا ہے تو پھر یہ امیرغریب کا فرق کیوں؟ خان کے کتوں کا کھانا امریکا سے آتا ہے، جب کہ پڑوس کے لعل ضمیر کے بچے بھوک سے تڑپتے ہیں۔"

    "سکول میں استاد نے شکایت کی کہ یہ نصاب پر سوال اُٹھاتا ہے۔ پوچھتا ہے کہ ہمیں صرف رَٹنے کی تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟ سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کی آزادی کیوں نہیں؟ خان صاحب کے لوگوں نے دھمکی دی ہے کہ اس کا علاج کرا لیں، ورنہ یہ موذی مرض دوسروں تک پھیل سکتا ہے۔"

    ڈاکٹر نے گہری نظروں سے بچے کو دیکھا، جو کھڑکی سے باہر پرندوں کی آزادانہ پرواز کو دیکھ رہا تھا۔ پھر مسکرا کر بولے، "آپ کے بیٹے کی 'بیماری' دراصل ایک نایاب نعمت ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو تاریکی میں راہ دکھاتی ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو خاموشی کے سمندر میں حق کی صدا بلند کرتی ہے۔"

    "لیکن ڈاکٹر صاحب،" والد نے مضطرب ہو کر کہا، "یہ معاشرہ ایسی آواز کو کیسے قبول کرے گا؟ میں اپنے بیٹے کی حفاظت کیسے کروں؟"

    ڈاکٹرنے سنجیدگی سے جواب دیا، "دیکھیے، ہر دور میں ایسے نوجوان پیدا ہوئے ہیں، جنھوں نے سماجی برائیوں کے خلاف آواز اُٹھائی۔ انھیں 'پاگل'، 'باغی' اور 'مسئلہ' کہا گیا، لیکن یہی لوگ تاریخ کے ورق پر سنہری حروف میں لکھے گئے۔ آپ کا بیٹا ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جو حق اور سچ کی راہ پر چلنے کی ہمت رکھتا ہے۔"

    "آپ کو اسے سمجھنا ہوگا، اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ اسے ایسے ماحول میں لے جائیں، جہاں اس کی سوچ کو پروان چڑھنے کا موقع ملے۔ یہ وہ نسل ہے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔"

    والد کی آنکھوں میں اَب خوف کی جگہ اُمید کی چمک تھی۔ "آپ کی باتوں نے میری سوچ بدل دی ہے۔ میں اَب اپنے بیٹے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔"

    ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس معصوم بچے کی کہانی نے ان کے ذہن میں بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے:

    * کیا ہمارا معاشرہ نئی سوچ، نئے خیالات اور تنقیدی فکر کے لیے تیار ہے؟

    * ہم اپنے بچوں کو سوچنے، سوال کرنے اور حق کی آواز بلند کرنے کی تربیت کیوں نہیں دیتے؟

    * کیا ہمارا تعلیمی نظام طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو کچل نہیں رہا؟

    * سماجی ناانصافی اور طبقاتی امتیاز کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو 'بیمار' کیوں کہا جاتا ہے؟

    * ایسے نوجوانوں کے والدین کو کس طرح اپنے بچوں کی حمایت کرنی چاہیے؟

    * معاشرے کو ایسی آزاد سوچ کے حامل نوجوانوں سے کیا سیکھنا چاہیے؟

    یہ کہانی صرف ایک بچے کی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کی ہے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی کا خواہاں ہے۔ اگر ہم ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں، ان کی آواز کو دَبانے کے بجائے انھیں سنیں، تو شاید ہم ایک ایسا معاشرہ تعمیر کر سکیں جہاں انصاف، برابری اور انسانیت کی قدر ہو۔

    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں ایسے ماحول کی تخلیق کریں، جہاں ہر بچہ، ہر نوجوان اپنی سوچ کا آزادانہ طور پر اِظہار کر سکے۔ جہاں سوال کرنے والوں کو 'بیمار' نہیں، بلکہ 'مصلح' سمجھا جائے۔ کیوں کہ یہی وہ 'بیماری' ہے جو معاشرے کو صحت مند بنا سکتی ہے۔

    اگر تاریخ انسانیت کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا تواسے زوال سے نکالنے کے لیے انبیاعلیہم السلام اور مصلحین آئے اور انھوں نے اپنی قوم کے نونہالوں ( بچوں ) میں یہی سوچنے اور حالات کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا کر کے ایک صالح اور باشعور اجتماعیت پیدا کی اور اس کے ذریعے اپنےپورے معاشرے کوظالم و غاصب قوتوں سے آزاد کروایا اور زوال و پستی سے نکال کر معاشرے میں عدل،امن اور معاشی خوش حالی کا نظام قائم کرکے انسانی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کردیا۔

    حضرت موسی علیہ السلام اور نبی آخرالزمان ﷺ نے بھی یہی کام کیا اور آج بھی ان لوگوں کو تلاش کرکے جو انبیا علیہم السلام کے طریقے پر بچوں کی جامع دینی شعوری تربیت کرکے اپنے معاشرے میں ایک صالح اجتماعیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

    اللہ تعالی ہمیں انبیا علیہم السلام کے ان سچے جانشینوں کو پہچان کر ان کی کامل اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

     

    Share via Whatsapp