سموگ : ایک بڑھتا ہوا ماحولیاتی بحران (وجوہات اور اس کا تدارک)
آج کے دور میں فضائی آلودگی کی وجہ سے "سموگ" بھی عام ہو گیا ہے جو دراصل دھند اور آلودہ دھویں (Smoke) کا مجموعہ ہے۔ ...
سموگ
: ایک بڑھتا ہوا ماحولیاتی بحران (وجوہات اور اس کا تدارک)
تحریر:
محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں
پہلے
زمانے میں سردیوں کے موسم میں صرف دھند (Fog) ہی نظر آتی تھی جو ہوا میں
نمی اور سردی کی وَجہ سے بنتی ہے اور کسی حد تک قدرتی تھی۔ لیکن آج کے دور میں
فضائی آلودگی کی وَجہ سے "سموگ" بھی عام ہوگیا ہے جو دراصل دھند اور آلودہ
دھویں (Smoke) کا مجموعہ ہے۔ سموگ کی ابتدا جدید صنعتی دور سے
ہوئی۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں 19ویں اور 20ویں صدی میں جب کارخانوں اور
فیکٹریوں کا جال بچھا اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ان سب نے فضا میں
آلودگی پھیلائی، جس سے دھند کے ساتھ دھواں مل کر سموگ کی شکل اختیار کرنے لگا۔
سموگ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فضا انتہائی آلودہ ہے ۔ اس سے انسانوں، پودوں، جانوروں،
پرندوں حتیٰ کہ زمین کی صحت پر بھی منفی اَثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب طاقت و اختیار
چند مخصوص افراد یا طبقے کے پاس ہو اور ان کاذاتی مفاد ہی ترقی اور فلاح کا پیمانہ
بن جائے تو نتیجتاً فطرت کو تباہ ہونا ہوگا۔ مغربی ممالک نے ترقی کے نام پر فطرت
کی بے دردی سے تسخیر کی۔ جس کا نتیجہ فضائی آلودگی اور سموگ کی صورت میں نکلا۔
سموگ، اسی طرزِ ترقی کا نتیجہ ہے، جس میں فطرت کو نظرانداز کر کے صرف ایک طبقہ کے
مفاد کو ترجیح دی گئی۔ یہ آلودگی اور سموگ صرف طاقت ور طبقات کے مفادات کی تکمیل
کی وَجہ سے پیدا ہوئے، جب کہ اس کی قیمت زمین، ماحول اور کمزور طبقات کو چکانی
پڑتی ہے۔
سموگ
کا مسئلہ سب سے پہلے بڑے پیمانے پر 1952ء میں برطانیہ کے شہر لندن میں سامنے آیا۔
یہ دسمبر 1952ء کی بات ہے، جسے "گریٹ اسموگ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس واقعے میں سرد موسم، دھند اور صنعتی دھویں کے ملاپ سے زہریلی سموگ تشکیل پائی
جو کہ پانچ دن تک جاری رہی۔ اس دوران ہزاروں افراد سانس کی بیماریوں اور دمے کا
شکار ہوئے اور تقریباً 4,000 اموات واقع ہوئیں۔ اس سانحہ کےبعد برطانیہ نے اس پر
قانون سازی شروع کردی جو کہ "کلین ایئر ایکٹ" 1956ء کی صورت میں منظور
کیا گیا۔ یہ قانون سموگ کے اَثرات کو کم کرنے کے لیے دنیا میں ابتدائی اور مؤثر
ترین اقدامات میں سے ایک تھا۔ اس واقعے کے بعد دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے تدارک
اور سموگ سے نمٹنے کے لیے مختلف قوانین اور اقدامات کیے جانے لگے۔
پاکستان
میں سموگ کا مسئلہ 2010ء کے بعد شدت اختیار کرنا شروع ہوا، اور خصوصاً 2016ء کے
بعد سے لاہور اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا۔ وطنِ
عزیز کے مختلف صوبوں میں سموگ اور فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف
اقدامات کیے گئے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں 2017ء
میں "پنجاب کلین ایئر ایکٹ" نافذ کیا گیا ہے، جس کے تحت صنعتی اخراج،
ٹریفک آلودگی اور فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ جب کہ اینٹوں
کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سندھ میں
"سندھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی" (SEPA) کے قوانین موجود ہیں، لیکن
ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ خیبر پختونخواہ میں "بلین ٹری
سونامی" جیسا منصوبہ شجرکاری کے لیے اہم تھا، لیکن خدا جانے کہ ان میں کتنے
درخت اَب باقی ہیں۔ بلوچستان اور آزاد کشمیر میں فضائی معیار نسبتاً بہتر ہے، مگر
صنعتی آلودگی اور جنگلات کی کٹائی کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ان تمام صوبوں میں فضائی
آلودگی کے کنٹرول کے لیے قوانین موجود ہیں، مگر ان پر سخت عمل درآمد اور مستقل
اقدامات کی ضرورت ہے۔
سموگ
کی بنیادی وجوہات:
فصلوں
کی باقیات کو جلانا:
پاکستان
میں، خاص طور پر پنجاب کے دیہی علاقوں میں فصل کی کٹائی کے بعد اس کی باقیات کو
کھیتوں میں جلا یا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف فضا میں کاربن، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور
نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے کیمیائی اجزا کا اخراج کرتا ہے، بلکہ سانس کی
بیماریوں، دل کے امراض اور آنکھوں کی جلن جیسی صحت کے مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔
کسانوں کے پاس باقیات کو تلف کرنے کے متبادل طریقے مفقود ہو چکے ہیں اور یہی طریقہ
رائج ہے۔
صنعتی
آلودگی:
کارخانوں
اور اینٹوں کے بھٹوں سے خارج ہونے والا دھواں سموگ کا ایک اہم عنصر ہے۔ یہ
کارخانے، خاص طور پر بھٹوں، سیمنٹ فیکٹریوں اور کیمیکل پروسیسنگ یونٹس سے بڑی
مقدار میں زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جو ہوا میں تحلیل ہوکر سموگ کا باعث بنتے
ہیں۔ ان صنعتی یونٹس میں بیش تر قوانین پر عمل درآمد کا فقدان ہے، جس کی وَجہ سے
یہ یونٹس آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔
ٹریفک
کا دھواں: 3
شہروں
میں گاڑیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اور ناقص معیار کے ایندھن کے
استعمال کی وَجہ سے یہ گاڑیاں بڑی مقدار میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی
آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی خطرناک گیسیں خارج کرتی ہیں۔ زیادہ گاڑیاں،
ٹریفک کے رش اور پرانی گاڑیوں کی وَجہ سے دھواں اور زہریلی گیسوں کا اخراج بڑھتا
جا رہا ہے، جس کا براہِ راست اَثر شہریوں کی صحت اور فضائی آلودگی کی شدت پر پڑ
رہا ہے۔
شہری
توسیع:
بڑے
شہروں کا تیزی سے پھیلاؤ اور انفراسٹرکچر کی توسیع کے عمل نے ماحول پر دباؤ بڑھا
دیا ہے۔اس توسیع میں سڑکوں کی کشادگی، انڈر پاسز اور فلائی اوورز کی تعمیر اور
بلند و بالا عمارات کی تعمیر شامل ہیں،جن کے لیے بڑی مقدار میں تعمیراتی مواد
استعمال ہوتا ہےاور یہ فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ تعمیراتی سرگرمیوں
کے دوران مٹی، دھول اور دیگر مضر صحت ذرات ہوا میں شامل ہوتے ہیں، جو سموگ کو مزید
بڑھا دیتے ہیں۔
درختوں
کی کٹائی:
فضا
میں آکسیجن کا توازن برقرار رکھنے میں درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لاہور جیسے
شہروں میں درختوں کی تیزی سے کٹائی ہو رہی ہے، جس سے نہ صرف آکسیجن کی مقدار کم ہو
رہی ہے، بلکہ زمین کی قدرتی فلٹرنگ صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ درخت کاربن ڈائی
آکسائیڈ کو جذب کرکے ہوا کو صاف رکھنے میں مدد دیتے ہیں، مگر کٹائی کی وَجہ سے یہ
توازن بگڑتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں فضائی آلودگی اور سموگ کی شدت میں اضافہ
ہو رہا ہے۔
سموگ
پر قابو پانے کے طریقے:
زرعی
باقیات کا متبادل استعمال:
فصلوں
کی باقیات کو جلانا سموگ کی ایک بڑی وَجہ ہے، جو کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر
زہریلی گیسوں کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے باقیات کو بایو
فیول یا بایو گیس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے نہ صرف آلودگی کم ہوگی، بلکہ
توانائی کے متبادل ذرائع بھی فراہم ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کو مشینری
اور مالی مدد فراہم کرے تاکہ وہ اس رجحان سے گریز کریں۔ساتھ ہی فصلوں کی باقیات
جلانے پر سخت پابندی لگائی جائے ۔
عوامی
ٹرانسپورٹ کا فروغ
شہروں
میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد اور ناقص معیار کے ایندھن کے استعمال سے سموگ کے
مسائل شدید ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر
بنایا جائے۔ جدید اور ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ جیسے میٹرو بس، ٹرین اور الیکٹرک
گاڑیاں متعارف کروائی جائیں۔ اس کے علاوہ عوام کو کارپولنگ اور رائیڈ شیئرنگ کی
جانب راغب کرنے کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں، تاکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم
ہو اور آلودگی میں کمی آئے۔
صنعتی
قوانین کا نفاذ
فیکٹریوں
اور اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں سموگ کا ایک اہم سبب ہے۔ اس مسئلے کے حل
کے لیے ضروری ہے کہ صنعتوں پر سخت ماحولیاتی قوانین کا نفاذ کیا جائے۔ زگ زیگ
ٹیکنالوجی جیسے جدید طریقے بھٹوں کی آلودگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے
ہیں۔ حکومت صنعتوں کو ماحول دوست ٹیکنالوجی اپنانے کے لیے مراعات فراہم کرے اور
خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت کارروائی کی جائے۔
درختوں
کی شجرکاری
درخت
فضائی آلودگی کو کم کرنے میں قدرتی فلٹر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی
شہروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتی ہے اور آکسیجن فراہم کرتی ہے۔ شجرکاری
مہمات کے ذریعے شہروں میں درختوں کی تعداد بڑھائی جائے اور گرین بیلٹس قائم کی
جائیں۔ درختوں کی غیر قانونی کٹائی پر پابندی عائد کی جائے اور تعلیمی اداروں میں
شجرکاری کو فروغ دینے کے لیے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
ایئر
کوالٹی مانیٹرنگ
سموگ
پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے اس کی شدت کی نگرانی ضروری ہے۔ بڑے شہروں میں ایئر
کوالٹی مانیٹرنگ اسٹیشنز کا قیام کیا جائے تاکہ آلودگی کی سطح کا اندازہ لگایا جا
سکے۔ اس ڈیٹا کو عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے، تاکہ وہ اپنی روزمرہ کی عادات کو
بہتر بنا سکیں۔ جب آلودگی کی سطح خطرناک حد تک پہنچ جائے تو فوری طور پر گرین لاک
ڈاؤن یا دیگر ہنگامی اقدامات کیے جائیں، جیسے فیکٹریوں اور غیر ضروری ٹریفک پر
عارضی پابندی عائد کرنا۔
عوامی
آگاہی مہمات
ماحولیاتی
مسائل کے حل کے لیے عوام کا شعور بیدار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ سموگ اور فضائی
آلودگی کے نقصانات سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں، میڈیا اور
سوشل میڈیا کے ذریعے مہمات چلائی جائیں۔ عوام کو روزمرہ کی عادات میں تبدیلی کرنے،
توانائی بچانے اور ماحول دوست رویوں کو اپنانے کی ترغیب دی جائے۔ اس کے ساتھ لوگوں
کو آلودگی میں کمی لانے کے اِنفرادی اقدامات کرنے کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا جائے۔
نظام
عدل کی ضرورت
نظامِ
عدل کسی بھی معاشرے کی ترقی اور توازن کے لیے ناگزیر ہے، کیوں کہ یہ انصاف کی
فراہمی اور حقوق کی مساوی تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔ ایک مؤثر اور منصفانہ نظامِ
عدل وہی ہے جو طاقت ور اور کمزور دونوں کے لیے یکساں انصاف فراہم کرے اور کسی بھی
مسئلے، چاہے وہ سماجی ہو یا ماحولیاتی، کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے۔ ایک
بہتر نظام میں قوانین صرف مخصوص طبقہ کے مفاد کے لیے نہیں بنائے جاتے، بلکہ تمام
انسانوں اور باقی مخلوقات کی بہتری کے لیے بنائے اور لاگو کیے جاتے ہیں۔ سموگ جیسے
مسائل، جو فضائی آلودگی کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ دراصل نظام کی کمزوری اور قوانین
کے غیر مؤثر نفاذ کا نتیجہ ہیں۔
نتیجہ
سموگ
جیسے ماحولیاتی مسائل کا حل صرف قوانین بنانے سے ممکن نہیں بلکہ ان پر عمل درآمد
کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط نظامِ عدل ضروری ہے۔ ایسا نظام جو تمام مسائل کے
لیے مساوی انصاف فراہم کرے، عوام میں شعور بیدار کرے اور ماحولیاتی مسائل کے حل کے
لیے پائیدار اقدامات کرے، وہی حقیقی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔