سموگ: حقائق، اور غلط فہمیاں
ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت اور شہری علاقوں کے رہنے والوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ سموگ کی اصل جڑ صرف کسان ہیں ،یہ غلط فہمی حقائق کی بنیاد پر دور۔۔۔۔۔
سموگ:
حقائق، اور غلط فہمیاں
تحریر:
محمد تیمورتنویر ۔ وہاڑی
ہر
سال کی طرح اس سال بھی حکومت اور شہری علاقوں کے رہنے والوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ
سموگ کی اصل جڑ صرف کسان ہیں ،یہ غلط فہمی حقائق کی بنیاد پر دور کرنےکی ضرورت ہے۔
تا
حال ہونے والی دو عدد ریسرچ آرٹیکلز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ پہلا United Nations Food and Agriculture
Organization(صفحہ نمبر 96)کی جانب سے
2018-2019 ءکے دوران پورے پنجاب میں کیا گیا ، جس میں یہ واضح طور پر بتایا گیا کہ
فصل کی باقیات کا جلانا صرف 20 فی صد اسموگ کا سبب بنتا ہے، جب کہ سب سے بڑا سبب
ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہے، جو 43 فی صد آلودگی پیدا کرتا ہے۔اس کے بعد صنعت کا حصہ 25
فی صد اور پاور سیکٹر 12 فی صد ہے۔
دوسرا
مطالعہ 2022 میں The Urban Unit(صفحہ نمبر 4)نے خاص طور پر لاہور پر کیا، جس کے
مطابق چاول کی فصل جلانے کا اسموگ میں حصہ محض 4 فی صد ہے، جب کہ ٹرانسپورٹ سیکٹر
83 فی صد آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ ان نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب یا لاہور میں
زراعت کا شعبہ اسموگ کا بنیادی سبب نہیں ہے۔
حقائق
کچھ اَور بتا رہے اور ہماری سادہ لوح عوام کو کسی اور بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے۔
جیسے ہی سموگ شروع ہوتی ہے سارا اِلزام کسانوں پر دھر کے ان پر شکنجہ کَس دیا جاتا
ہے اور لوگوں کا دھیان اس طرف جانے ہی نہیں دیا جاتا کہ لوگ اُن سرمایہ داروں کے
خلاف احتجاج کریں، جن کی انڈسٹریز سے نکلنے والا دھواں زہر بن کر ہماری رگوں میں
ضم ہو رہا ہے یا کوئی ایسی پالیسی بنائے جائے جس سے گاڑیوں کے دھویں سے چھٹکارا مل
سکے، لیکن نہیں! کیوں کہ بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہے، اس لیے غریب کسان پر
بھاری جرمانے کر کے کمر توڑ دی جاتی ہے۔
ایک
اَور غلط فہمی جو درست کرنے کی ضرورت ہے،وہ یہ ہے کہ سموگ صرف سردیوں میں پیدا
ہوتی ہے، خاص طور پر خریف کے سیزن کے آخری دو ماہ کے دوران، جب چاول کی کٹائی ہوتی
ہے۔ تاریخی اعداد و شمار(IQAir)
کے مطابق ملک کی فضاؤں میں سال
بھر باریک ذرات کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ صرف جولائی اور اگست کے مون سون کے موسم
میں ہوا تھوڑی صاف ہوتی ہے۔
The great smog of Londonپالیسی بنانے والوں کا چاہیے کہ اس کو انٹرنیٹ پر
پڑھیں اور ان کے کلین ایکٹ کو دیکھیں کہ کیسے لندن انتظامیہ نے چند سالوں میں اپنی
فضا صاف کر لی ،مگر ہم دوسروں پر اِلزام درازی سے باز آئیں اور اپنے ذاتی مفادات
سے نکلیں تو ہمیں پتا چلے کہ اصل وَجہ کیاہے۔
ٹرانسپورٹ:
اس شعبے کو بہتر کرنے کے حوالے سے UAE کی مثال لےلیں، ہر سال ہر قسم کی گاڑی کی Inspectionہوتی ہے جو کہ بذات خود پیسے دے کر کروانی پڑتی ہے ۔ اگر اس میں
کوئی مسئلہ آگیا تو گاڑی جب تک ٹھیک نہیں ہو جاتی، تب تک روڈ پر نہی آسکتی۔ اگر Inspection نہ ہوئی تو بھاری جرمانہ کیا جاتاہے -یہ سادہ اور سیدھا سا
قانون ہے۔ مزید یہ کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو معمول بنانے کی طرف عوام کو راغب کیا
جائے، تا کہ پرائیویٹ گاڑیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو۔
زراعت:
زمین کی باقیات کو جلانا، ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کو حل کرنے کےلیے جامع اور مکمل
حکمت عملی کی ضرورت ہے۔کسان اس لیے باقیات جلاتا ہے، کیوں کہ اس کے پاس کوئی دوسرا
کم خرچ راستہ نہیں ہے، جس سے وہ اگلی فصل کو تیار کر سکے۔ پاکستان میں کسان کے جسم
میں صرف خون بچا ہوا ہے، باقی سب تو موجودہ نظام اس کو لوٹ کر کھا گیا ہے۔
کچھ
سوال ہیں جو میں آپ کے لیے چھوڑ رہا ہوں، ان پر غور کیجے گا؟
1۔ کسان باقیات کیوں جلاتا ہے؟ کیا اس کو نہیں
پتا، اس سے زمین کو نقصان ہوتا ہے؟
2۔ حکومت وقت کسان کو دے کیا رہی ہے؟ سوائے
مافیا کا ساتھ دینے کے۔
3۔ سموگ کی وَجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیاں تو
فائدہ نہیں اٹھا رہیں؟
4۔ سموگ کوختم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ نظام
یا عوام ؟
5۔مسئلے کا رخ ہمیشہ نظام سے ہٹا کر کسی اور
طرف کیوں کردیا جاتا ہے؟