پاکستان کے شہروں پر آبادی کابڑھتا دباؤ اور حل
پاکستان کے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی ، مسائل اور متجوزہ حل
پاکستان کے شہروں پر آبادی کابڑھتا دباؤ اور حل
تحریر: انجینئر قمر الدین خان۔راولپنڈی
انسانی زندگی مسلسل ترقی(ارتقا) کا نام ہے۔ غاروں میں رہنے والا اور جانوروں کا شکار کر کے خوراک کی ضروریات پوری کرنے والے انسان آج ترقی کی منازل طے کر کے اُس مقام تک پہنچ گیا ہے، جہاں رہنے کے لیے اُس کے پاس بہترین گھر اور کھانے کے لیے مختلف انواع کی چیزیں میسر ہیں۔ یہ سب کچھ انسان کی ان نوعی خصوصیات کی وَجہ سے ممکن ہوا ، جن کو امام شاہ ولی اللہؒ نے” رائے کلی ، حُبِ جمال اور مادہ ایجاد وتقلید “کا نام دیا ہے جو انسان کے اندر اجتماعیت پسندی کی سوچ پیدا کر کے اس کومسلسل ترقی اور ارتقا کی منازل طے کراتی ہیں۔
انسان کی ابتدائی زندگی سادہ تھی۔ زیادہ انحصار زراعت پر تھا۔ انسان کھیتی باڑی کر کے اور مال مویشی پال کر اپنی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے قبائلی زندگی گزار رہا تھا۔ شہر کا وجود نہیں تھا، اگر شہرموجود بھی تھے تو آج جدید شہروں کی طرز پر نہیں تھے، بلکہ سوائے چندسڑکوں اور سٹریٹ لائٹ وغیرہ کے ان میں کوئی خاص فرق نہیں تھا اور لوگ گاؤں میں بھی خوش حال زندگی گزار رہے تھے ۔
سائنسی دور اور مشینی انقلاب کے بعد جدید شہروں کی بنیاد پڑنا شروع ہوئی۔ بڑی بڑی تعمیرات، سڑکیں، آمدورفت کا نظام اور روشنی وغیرہ کا انتظام مشینی پیداوار بڑھانے اور اس کی ترسیل کے لیے ضروری تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ منڈیوں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لیے مزدوروں کی ضرورت پڑی تو افریقا جیسے علاقوں سے غلاموں کی شکل میں لوگوں کو یورپ لایا گیا اور فیکٹریوں میں ان سے جبری مشقت لی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہروں کی آبادی بڑھنے لگی۔ مزید سرمایہ داریت کو تقویت دینے کے لیے شہروں میں رہن سہن ،صحت و تعلیم اور باقی بنیادی ضروریات کو جدید خطوط پر استوار کرنا بھی ضروری تھا ۔اس لیے شہر اور دیہات کی زندگی میں ایک خاصا فرق نظر آنے لگا۔ شہروں کی چکاچوند زندگی اور روزگار کے مواقع لوگوں کے لیے شہروں کی طرف ہجرت کرنے کے لیے کشش کا سبب بنے۔ یہی وَجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں تمام ممالک بالخصوص ترقی پذیر ملکوں کے شہروں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھنے لگی، جس کی بڑی وَجہ لوگوں کی شہر کی طرف ہجرت ہے۔ اور یہی حال پاکستان کا بھی ہوا کہ پاکستان کے شہروں کی آبادی اتنی تیزی سے بڑھی کہ چھوٹے شہر تھوڑے ہی عرصے میں میٹرو پولیٹن شہر بن گئے،جیسے کراچی کی آبادی میں پچھلے 6 سال کے عرصے میں 43 لاکھ اور لاہور کی آبادی میں پچھلے 5 سالوں میں 19 لاکھ کا اضافہ ہوا۔
ویسے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شہر کی طرح دیہاتوں میں بھی بنیادی ضروریات میسر ہوتی ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں حکمرانوں نے اپنی کاروباری ترقی اور دیگر مفادات کے لیے شہروں کی ترقی پر تو تھوڑی بہت توجہ دی، لیکن دیہات کی ترقی پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس لیے پاکستان کے شہر اور دیہات کے معیارِ زندگی اور سہولیات میں بہت زیادہ فرق ہے۔لوگوں کی شہروں کو ہجرت کرنےکی چند وجوہات درج ذیل ہیں ۔
1۔ روزگار کے مواقع
پاکستان میں بھی دیہی آبادی کا پیشہ زراعت ہے اور زراعت ہی ان کا ذریعہ معاش ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصے میں زراعت کی زبوں حالی نے وہاں رہنے والوں کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی مشکل ہو گیا ہے۔ شہر میں کارخانے، بڑی بڑی کاروباری کمپنیوں کے دفاتر اور مال کی ترسیل کا پورا نظام ہوتا ہے۔ اس لیے شہر میں روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے لوگ روزگار اور کاروبار کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور اکثر وہاں جا کرمستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ گاؤں کی زرعی زمین کو خیرباد کہہ کرشہر کے اندر چھوٹے کاروبار کو ترجیح دے رہے ہیں۔
2۔صحت و تعلیم
ملک پاکستان جہاں پینے کے پانی سے لے کر کھانے پینے کی تمام اشیا ملاوٹ کا شکار ہیں اور نتیجتا ً لوگ کئی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اوپر سے کثیرالقومی ادویات ساز کمپنیاں اپنی ادویات بیچنے کے چکر میں لوگوں کو صحت دینے کے نام پر نت نئے علاج دریافت کرنے کے ساتھ جدید ہسپتالوں کا جال شہروں میں بچھا رہی ہیں۔ آج کے دور کی پیچیدہ بیماریوں کا علاج دیہات میں نہ ہونے کی وَجہ سے لوگوں کو شہروں کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے ۔یہاں تک کہ طویل علاج کے لیے لوگ شہر میں مستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔
اسی طرح تعلیم کی سہولت کے حوالے سے ، پاکستان کے دیہاتوں میں ابتدائی تعلیم ، شاید ہر گاؤں میں موجود ہو، لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے لوگوں کو مجبورا شہر کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے۔
3۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قیام
پچھلے کچھ عرصے میں پُرسکون اور اعلی معیار زندگی کے لیے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا ،جہاں جدید مارکیٹنگ کے طریقے استعمال کر کے ایسی جگہوں کے ماحول کو آسائشوں سے بھرپور پیش کیا گیا ، اس لیے بہت سے لوگ گاؤں کی زندگی کو چھوڑ کر اِن سوسائٹیز کے دل فریب نظاروں کےچکر میں شہر منتقل ہو گئے ۔
شہروں کی طرف رخ کرنے کے مسائل:
مندرجہ بالا وہ چند وجوہات ہیں، جن کی وَجہ سے پاکستان کے شہروں پر آبادی کا دَباؤ پچھلے کچھ عرصے میں کافی بڑھ گیا ہے۔ چوں کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے حکومت کی طرف سے نہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہوئی اور نہ ہی کوئی اقدامات اُٹھائے گئے ہیں، اس لیے شہر کی آبادی تیزی سے بڑھنے سے یہاں کافی پیچیدہ مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بنیادی ضروریات میں پانی کی کمی کا مسئلہ انتہائی تشویش ناک حد تک پہنچ چکا ہے ۔ رہاشی مکانوں کی قلت، سیوریج کا ناقص نظام، صفائی کے مسائل، روزگار کی کمی، مہنگائی، کاروبار کی مندی اور ناقص سیکیورٹی جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جس نے شہر کی زندگی کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔
مجوزہ حل
1۔ شہری آبادی کا درست اعدادوشمار
حکومتِ وقت کو چاہیے کہ موجودہ شہروں کا سروے کر کے آبادی کا صحیح اندازہ لگایا جائے اور ہر سال شہر کوہجرت کرنے والے لوگوں کا اعداد و شمار رکھ کر مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جائے۔ پا نی کے مسئلے کے حوالے سے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے تالاب اور ذخائر بنائے جائیں۔روایتی مکانات کے بجائے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر زور دیا جائے ۔ٹریفک کے مسائل کو کم کرنے کے لیے اندرونِ شہر سستی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بنایا جائے، تاکہ لوگ ذاتی گاڑی پر پبلک ٹرانسپورٹ کو فوقیت دیں۔ پانی کو آلودگی سے بچانے کے لیے سیوریج کا بہترین انڈر گراؤنڈ نظام بنایا جائے۔صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ویسٹ ریسائیکلنگ پلانٹ لگائے جائیں وغیرہ۔
2۔ نئے شہروں کا قیام
دُنیا میں یہ ایک مُسلمہ اصول رہا ہے کہ شہر کی آبادی ایک حد سے تجاوز کرنے پر نئے شہر کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سوائے ایک شہر (اسلام آباد) کے کسی نئے شہر کو آباد نہیں کیا گیا۔ حال آں کہ پاکستان کے پاس ایسی کافی زمین موجود ہے جو زراعت کے لیے موزوں نہیں، وہاں نئے شہر آباد کیے جا سکتے ہیں۔ وہاں کارخانے وپیداواری یونٹ لگا کر لوگوں کو روزگار اور بنیادی سہولیات دے کر نئی آباد کاری کی جا سکتی ہے اور موجودہ شہروں پر آبادی کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔
3۔ دیہاتوں کی ترقی پر توجہ
حکومت کو چاہیے کہ شہروں کی طرح دیہاتوں کی ترقی پر بھی توجہ دے۔وہاں پر بھی تعلیم وصحت، سٹرکیں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ جیسی سہولیات دی جائیں۔تاکہ لوگ بنیادی ضروریات کی وَجہ سے شہر کی طرف ہجرت پر مجبور نہ ہوں۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی جو ایک خطرناک حد تک کوچُھونے لگی ہے اور مزید تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے ،اگر آج اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کامستقبل قریب میں حل نکالنا انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہوگا۔ یہ کام نظامِ حکومت کا ہے کہ وہ رعایا کے مسائل کو بھانپتے ہوئے مستقل بنیادوں پرانھیں حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ لیکن بدقسمی سے پاکستان میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا، کیوں کہ یہ مسائل یہاں کے حکمران طبقے کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی ان مسائل سے ان کا واسطہ ہے۔یہ تو صرف عوام کے حصے میں آئے ہیں۔ اس لیے حکمرانوں اور اِس نظام سے اُمید لگا لینا اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنا ہے۔اس لیے ان مسائل کا حل خود عوام نے نکالنا ہےاور وہ صرف اِس فرسودہ اور ظالمانہ نظام کو تبدیل کر کے عادلانہ نظام قائم کرنے پر ہی ہو سکتا ہے۔ ورنہ قومیں اس لیے تباہ ہوتی ہیں کہ ان کو اپنی تباہی سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔
قرآن میں آتا ہے ترجمہ :" بے شک خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے"(سورت الرعد-11) ۔اس لیے پاکستانی قوم کو بھی اپنے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔ اللہ تعالی ہمیں عقل و شعور اور تنظیم پیدا کرنے کی جرات اور ہمت عطا فرمائے ،تاکہ پاکستان میں قائم نظامِ ظلم کا جلدخاتمہ ہو اور عوام کی اُمنگوں کے مطابق عادلانہ نظام قائم ہو سکے۔ آمین!