زکوۃ مفہوم اور تقاضے
زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، جس کا تعلق مالی قربانی سے ہے
زکوۃ مفہوم اور تقاضے
تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔بنوں
زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، جس کا تعلق مالی قربانی سے ہے۔ اسلامی نظامِ زندگی معاشرے کے ہر فرد کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اللہ کے پیدا کردہ وسائل کو کسی فرد یا گروہ کی مستقل ملکیت قرار نہیں دیتا، بلکہ یہ وسائل پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں نماز قائم کرنے کے ساتھ زکوٰۃ دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "أقیموا الصلوة وآتوا الزكوة" (البقرہ: 43) ۔۔۔۔ترجمہ: نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو۔
مفہوم:
زکوٰۃ کا لفظی مطلب ہے "پاک ہونا، نشوونما پانااور بڑھانا"۔ جب کہ اصطلاحاً زکوٰۃ سے مرادہے مال کے اس خاص حصے کو کہتے ہیں،جس کو خدا کے حکم کے موافق فقیروں، محتاجوں وغیرہ کودے کر انھیں مال دار بنادیا جائے۔ جو قمری سال میں ایک مرتبہ ہر صاحبِ نصاب پر فرض ہے۔ ہر صاحبِ نصاب اپنی حلال کمائی میں سے مقررہ مقدار کے مطابق زکوٰۃ اسلامی حکومت کے مقرر کردہ نمائندوں یا عاملین کو دے گا۔ تاکہ وہ اسے بیت المال میں جمع کریں اور پھر حکومت اسے مصارفِ زکوٰۃ پر خرچ کرے۔ یہاں دو اہم الفاظ استعمال ہوئے ہیں: نصابِ زکوۃ اور مصارفِ زکوۃ۔
نصاب زکوۃ : نصاب سے مراد مال و دولت کی وہ کم از کم مقدارہے جس کے مالک بننے اور سال گزرنے پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے۔ شریعت نے ہر قسم کے مال اور زر کے لیے الگ الگ نصاب مقرر کیا ہے، مثلاً سونے کے لیے ایک الگ نصاب ہے، چاندی کے لیے الگ، مختلف جانوروں کے لیے الگ الگ نصاب ہیں اور اسی طرح نہری اور بارانی زمینوں سے حاصل شدہ فصلوں کے لیے بھی مختلف نصاب مقرر ہیں۔
عام طور پر سونے اور چاندی کی مثال دی جاتی ہے:
جس کے پاس ضروریاتِ زندگی کے علاوہ 20 مثقال (یعنی 7.5 تولے، 87.48 گرام) سونا یا 200 مثقال (یعنی 52.5 تولے، 612.36 گرام) چاندی ہو یا ان کی مالیت کے برابر نقد رقم موجود ہو، یا سونا، چاندی اور نقدی کی مجموعی مالیت 20 مثقال سونے کے برابر ہو،اور اس پر ایک سال گزر جائے، تو وہ شخص صاحبِ نصاب کہلاتا ہے۔
یعنی اگر ایک قمری سال کے دوران اس مال کو خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے، تو سال مکمل ہونے کے بعد اس شخص پر فرض ہے کہ وہ مقررہ مقدار کے مطابق زکوٰۃ ادا کریں۔ نصاب وہ مقدار ہے جو زکوٰۃ کے واجب ہونے کی کم سے کم حد کو ظاہر کرتی ہے۔
مقررہ مقدار: سونے، چاندی اور نقدی پر زکوٰۃ ڈھائی فی صد کے حساب سے ادا کی جائے گی۔ بارانی زمینوں سے حاصل شدہ اناج پر 1/10 یعنی 10 فی صد کے حساب سے اور نہری زمینوں سے حاصل شدہ پیداوار پر 1/20 یعنی 5 فی صد کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف جانوروں کے لیے بھی الگ الگ نصاب اور مقداریں مقرر ہیں۔
مصارف زکوۃ: وہ لوگ جو زکوۃ دینے کے مستحق ہیں، مصارف زکوٰۃ کے مستحقین کہلاتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں زکوٰۃ کے کل آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں:فقرا (غریب لوگ)،مساکین (مفلس لوگ)،عاملین (زکوٰۃ کے وصول کرنے والے اہلکار)مؤلفۃ القلوب (وہ لوگ جن کی دلجوئی کے لیے زکوٰۃ دی جاتی ہے)،رقاب (غلاموں کی آزادی)، غارمین (قرض دار لوگ)، فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں، جیسے جہاد یا تعلیمی و فلاحی کاموں میں)،ابن السبیل (مسافر جو اپنے سفر کے دوران مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہو)
زکوٰۃ کی رقم صرف انھی مصارف پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ چوں کہ زکوٰۃ ایک اجتماعی عبادت ہے، اسلامی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ صاحبِ نصاب لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرے، بیت المال میں جمع کرے اور پھر اس رقم کو مذکورہ مصارف پر خرچ کرے۔
منکرین زکوۃ :
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ یہ منکرین، زکوٰۃ کیادائیگی کا انکار کرنے والے لوگ نہیں تھے، بلکہ انھوں نے زکوٰۃ کی اجتماعی شکل سے انکار کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ چوں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوچکی ہے،اَب وہ زکوٰۃ کو مرکزی بیت المال میں دینے کے بجائے مقامی سطح پر فقرا اور مساکین پر خرچ کریں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس رویے کو سختی سے رد کرتے ہوئے فرمایا:
"لَأَقْتُلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَوٰةِ وَ الزَّكَوٰةِ"
ترجمہ: "میں ضرور جنگ کروں گا ان لوگوں کے خلاف جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں۔"
یعنی، جو لوگ نماز تو نبی اکرم ﷺ کے طریقے کے مطابق پڑھ رہے ہیں، لیکن زکوٰۃ کے لیے اپنا الگ طریقہ اختیار کر رہے ہیں، ان کے خلاف جنگ کرنا ضروری ہے۔اس اقدام سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلامی ریاست کی وحدت اور زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کی اہمیت کو واضح کیا، اور یہ ثابت کیا کہ زکوٰۃ کا نظام نبی اکرم ﷺ کی ہدایات کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔
موجودہ دور میں زکوۃ کس طرح ادا کی جائے:
موجودہ دور میں زکوٰۃ کے نظام کا وہ معیار موجود نہیں رہا جو دورِاول میں تھا، جس کی وَجہ سے اِنفرادی طور پر زکوٰۃ دینے میں غلطی کی گنجائش کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس صورتِ حال میں ایک مؤثر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ جب تک خلافت ظاہرہ قائم نہیں ہوتی، خلافت باطنہ کے ساتھ منسلک افراد کو چاہیے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم خلافت باطنہ کے قائم کردہ اداروں یا ڈیپارٹمنٹس کو ادا کریں۔ اس طرح زکوٰۃ وصول کرنے والے دیگر لوگوں سے بھی زکوٰۃ جمع کرکے خلافت باطنہ کے مالی شعبے کو دی جائے، تاکہ وہ اس رقم کو صحیح مصارف زکوٰۃ میں استعمال کرسکیں۔
جہاں خلافت باطنہ موجود نہیں ہے یا اس سے وابستہ نہیں ہیں، وہاں افراد کو چاہیے کہ وہ اِنفرادی طور پر زکوٰۃ اس طرح ادا کریں کہ وہ مستحقین جوواقعی مصارف زکوٰۃ میں سے ہوں۔ اور ان کی مالی حالت کو ذاتی طور پر جانتا ہو۔ خاص طور پر کوشش کریں کہ اپنے عزیز و اقارب میں سے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، انھیں زکوٰۃ دی جائے۔ اس طرح زکوٰۃ کا مقصد یعنی غریبوں اور مستحقین کی مدد بہتر طریقے سے حاصل ہو سکے گا اور مالی امداد صحیح لوگوں تک پہنچ سکے گی۔
زکوۃ کے اجتماعی تقاضے:
اسلام کے ہر رکن کا اجتماعیت کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے اور زکوٰۃ کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمان جماعت میں درج ذیل رویے پیدا کرنا چاہتے ہیں:
مال خرچ کرنے کا جذبہ: زکوٰۃ دینے سے افراد میں مال خرچ کرنے کی عادت اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔
سرمایہ پرستی کا انسداد: زکوٰۃ کے ذریعے دولت کے ارتکاز کو روکنے اور اس کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
معاشی مساوات: معاشرتی فرق کو کم کرکے معاشی مساوات کو فروغ دیا جاتا ہے۔
تعاون باہمی کا فروغ: زکوٰۃ کے ذریعے معاشرتی تعاون اور مدد کی روح پیدا ہوتی ہے۔
معاشی عدل کا قیام: زکوٰۃ معاشی انصاف کو قائم کرنے کی حکمت عملی فراہم کرتی ہے۔
غربت و افلاس کا خاتمہ: زکوٰۃ غربت اور افلاس کو کم کرنے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
دولت کی گردش: معاشرے میں دولت کی گردش کو یقینی بنایا جاتا ہے، تاکہ ہر فرد تک مال پہنچ سکے۔
خلاصہ:
اسلام ہر مؤمن کو ایک غیرت ایمانی عطا کرتا ہے اور اسے اس مقام سے دور کرتا ہے، جہاں اس کی غیرت متاثر ہوسکتی ہے یا اسے دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوسائٹی کی حالت پر نظر رکھے اور سالانہ معاشی منصوبے بنائے تاکہ غربت سے نجات دِلائی جا سکے۔
حکومت کو ایسے افراد کی نشان دہی کرنی چاہیے جو اپنی غیرت کی وَجہ سے کسی کے سامنے مدد کے لیے نہیں جا سکتے، لیکن جنھیں واقعی مدد کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو سہارا دے کر انھیں معاشرے کا مفید فرد بنایا جائے، تاکہ آج جو زکوٰۃ لینے والے ہیں، کل وہ زکوٰۃ دینے کے قابل بن سکیں۔
اسلامی تاریخ میں عادل حکمرانوں نے اپنے سسٹم کے ذریعے مال زکوٰۃ سے معاشرے کی حالت کو بہتر بنایا تھا اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں، حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ نے یمن سے ایک بڑی رقم مدینہ منورہ بھیجی تھی، کیوں کہ پورے یمن میں ہر شخص زکوٰۃ دینے والا بن چکا تھا اور کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہا تھا۔
آج کے دور میں جہاں زکوٰۃ کا مؤثر نظام موجود نہیں، وہاں زکوٰۃ خوروں (بھکاریوں) کی ایک بڑی تعداد تیار ہو چکی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک عادلانہ نظام قائم کیا جائے جہاں زکوٰۃ کا بہترین نظام موجود ہو، جس سے ہر بے سہارے کو عزت نفس کے ساتھ جینے کا موقع ملے اور وہ بھی معاشرے کا بہترین فرد بن سکے اور دوسروں کے لیے سہارا بن سکے۔