پاکستان میں زراعت کی تباہ حالی کے اسباب
پاکستان میں زراعت کی تباہ حالی کے اسباب
پاکستان
میں زراعت کی تباہ حالی کے اسباب
تحریر:
انجینئر قمر الدین خان(راولپنڈی )
زمین
پر انسانی زندگی کے آغاز سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کرۂ ارض پر وہ تمام وسائل
رزق پیدا کر دیے تھے جو تاقیامت آنے والی تمام مخلوقات کے رزق کی ضروریات کو پورا
کرنے کے لیے کافی ہوں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ:
"اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ پر ہے۔
اور وہ اس کا عارضی ٹھکانہ بھی جانتا ہے اور مستقل ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ ہر چیز کھلی
کتاب میں ہے"۔(سورہ ہود: 7 )
یہی
وَجہ ہے کہ انسانیت کی ابتدا سے لے کر آج جدید دور میں بھی زمین ہی وسائل
رزق کا بنیادی ذریعہ رہا ہے۔ کھیتی باڑی کر کے زمین سے اپنی ضرورت کی اجناس اگانا،
زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، بلکہ قدیم تہذ یبیں بھی وہاں آباد ہوئیں، جہاں پانی
موجود تھا اور زراعت کا انتظام ہوسکتا تھا۔ یہی وَجہ ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک
بھی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کر کے زرعی میدان میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے
ہیں۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا زیادہ دارومدار اس کے پاس موجود زرعی وسا ئل پر
ہوتا ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ ریاست مدینہ قائم ہونے کے بعد نبی پاک ﷺکے مدینہ میں
کھجوروں کے باغات کے حوالے سے اقدامات کے نتیجے میں آنے والی خوش حالی ہو یا روس و
چین کے انقلابات کے بعد وہ زرعی اصلاحات جس نے وہاں کی عوام کو معاشی خوش حالی اور
ترقی دی، اس بات کا ثبوت ہے کہ زراعت کسی بھی سوسائٹی کی خوش حالی میں بنیادی
کردار ادا کرتی ہے، بشرطیکہ انسانیت کے فائدے کےلیے زمینی وسائل کے استعمال کا
کوئی بہترین نظام قائم کیا جائے۔
پاکستان
کی تقریبا 70 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور زراعت کے پیشہ سے وابستہ ہے،
لیکن تلخ حقیقت یہ ہے پاکستان کو آج بھی مختلف قسم کی زرعی اجناس باہرممالک سے
بھاری زر مبادلہ کے بدلے درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ چاہے وہ دالیں ہوں ، خوردنی تیل یا
گندم آج بھی پاکستان کی بڑی درآمدات میں شامل ہیں۔
آخرایسا
کیوں ہے کہ پاکستان جیسا بڑا زرعی رقبہ رکھنےوالا اور زرعی وسائل سے مالامال ملک
آج اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک کا محتاج نظر آتا ہے۔
یقینا ًاس کے پیچھے چند محرکات کار فرما ہیں جن کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے ۔
چند اسباب کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
1۔
جاگیرداریت
پاکستان
میں زراعت کی تباہ کاری کی ایک بہت بڑی وَجہ جاگیرداریت ہے۔ ملک کی 65 فی صد
زمینوں کی ملکیت صرف 5 فی صد طبقے کے پاس ہے، جہاں ایک طرف تو 40 فی صد سے
زائد زمین بنجر پڑی ہے تو دوسری طرف ایک بہت بڑی انسانی آبادی ہاری اور مزارع کی
شکل میں غلامی و پستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور یوں وطن عزیز کا بہت بڑا
دیہی طبقہ دن رات کی محنت کے باوجود غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ آج
دنیا میں کہیں بھی جاگیرداریت کا تصور موجود نہیں ، یہاں تک کہ ہمارے پڑوسی ملک
ہندوستان نے بھی 1960ءکی دہائی میں زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداریت کے نظام کو
خیرباد کہہ دیا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے وطنِ عزیز میں آج بھی جاگیرداریت کا ایک
انتہائی مضبوط اور ظالمانہ نظام موجود ہے۔جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ
سے یہ صورت حال مزید گھمبیر ہوگئی ہے-
2۔
آبپاشی کا ناقص نظام
پاکستان
میں موجود آبپاشی کا نہری نظام کم و بیش 200 سال پرانا، انگریز دور کا قائم کردہ
ہے۔پرانی ساخت کی نہروں کے آئے روز ٹوٹنے اور پانی کے رَسنے کی وَجہ سے پانی کا
ضیاع بڑھتا جا رہا ہے، نتیجتاً پانی کی ترسیل کا نہری نظام دن بدن سکڑنے کی وَجہ
سے ہر سال لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔
3۔
ڈیمز اور آبی ذخائر کی کمی
زمانہ
قدیم سے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا رواج موجود رہا ہے جو چھوٹے بڑے تالابوں سے
لے کر آج بڑے بڑے جدید ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ بارش کا
پانی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس کو مناسب طریقے سے ذخیرہ کر کے آبپاشی اور
دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ آج دنیا کے بڑے ترقی
یافتہ ممالک سے لے کر چھوٹے ممالک بھی پانی کو ذخیرہ کرنے کے حوالے سے خطیر رقم
خرچ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے پاکستان جیسے ملک جہاں سینکڑوں ڈیم
اور پانی کے ذخائر بننے کی فزیبلٹی موجود ہے، وہاں اول دور میں بنائے گئے سوائے
چند ڈیموں کے علاوہ کوئی قابل ذکر ڈیم نہ بن سکا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی واضح
مخلصانہ حکمت عملی اور عملداری نظر آتی ہے۔ اسی وَجہ سے آج ایک طرف آبپاشی کے لیے
پانی کی طلب پوری نہیں ہورہی تو دوسری طرف گزشتہ چند سالوں میں ہونے والی بارش کی
ہولناک تباہ کاریاں بھی سامنے ہیں، جس نے نہ صرف انسانی آبادی، بلکہ لاکھوں ایکڑکی
فصلوں اور زمین کو برباد کر کے رکھ دیا ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے پچھلے
کچھ عرصے میں برسات کے دِنوں میں اربوں روپے کی مالیت کا بارش کا پانی سمندر برد
کر کے ضائع کیا جو ہمارے آبی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔
4۔
مہنگے زرعی آلات اور بیج و کھا دیں
آج
کے جدید مشینی دور میں زراعت کا انحصار جدید زرعی آلات پر ہے، جس نے نہ صرف کسان
کی محنت کو کم کیا، بلکہ مختصروقت اور تھوڑے رقبے سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے
کوممکن بنایا ، یہی وَجہ ہے کہ زمین کی تیاری سے لے کر بیج کی بوائی و فصل کی
کٹائی اور دیگر مراحل میں زرعی مشینری کا استعمال ناگزیر نظر آتا ہے، لیکن بدقسمتی
سے پاکستان کا کسان آج بھی جدید زرعی آلات سے محروم ہے، جس کی بنیادی وَجہ زرعی
آلات کی وہ قیمتیں ہیں جو کسان کی قوت خرید سے باہر ہیں ، یہی وَجہ ہے کہ آج بھی
ہمیں پاکستان کے بہت سے علاقوں میں روایتی کھیتی باڑی نظر آتی ہے، جس سے یقینا
ًکسان کی محنت کے مقابلے میں اوسطا ًپیداواربہت کم حاصل ہوتی ہے۔
اگر
بات کی جائے کھاد و بیج اور زرعی ادویات کی توایک تو وہ جدید معیار کے مطابق نہیں
اور دوسرا ان کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ چھوٹے کسان کی قوت خرید سے باہر ہیں۔
نتیجتاً آج ہمارا کسان فصل کاشت کرنے سے گریزاں نظر آتا ہے، کیوں کہ اس کو کاشت کے
اخراجات فصل کی آمدن سے زیادہ پڑتے ہیں۔
5۔
زرعی تحقیق کا فقدان
تحقیق
اور ترقی زندگی کے کسی بھی شعبے کو ترقی کی معراج پر پہنچاتی ہے۔ آج دنیا کے ترقی
یافتہ ممالک آر این ڈی (R&D) پر ملکی بجٹ کا ایک بہت بڑا
حصہ صرف کرتے ہیں۔آج ہائبرڈ بیج سے لے کر کم وقت میں زیادہ پیداوار ،بنجر اور
صحرائی زمینوں کو قابل کاشت بنانا ،آبپاشی کے جدید طریقے جیسے ڈریپ ایریگیشن اور
سپرنکل سسٹم وغیرہ سب زرعی شعبے میں آر این ڈی(R&D) کا نتیجہ ہے، جس نے آج زراعت
کو روایتی طریقہ کار سے نکال کر جدید خطوط پراستوار کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے
ملک میں ہر شعبے کی طرح زراعت میں بھی آر این ڈی(R&D)کا فقدان ہے۔ ہمارے زرعی
ادارے زراعت کی جدت کے حوالے سے نابلد نظر آتے ہیں اورآج جدید دور میں بھی پاکستان
کی زراعت کا انحصار پرانے اور روایتی طریقہ کار پرہے ۔
6۔
زرخیز زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کا قیام
پچھلی
دو دہائیوں سے پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا گیا ہے، جس
میں بڑے بڑے سرمایہ داروں، کمپنیز اور یہاں تک کہ حکومتی اداروں نے کسان سے اونے
پونے زرخیززرعی زمینیں خرید کران کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کردیا، بلکہ یہاں
تک کہ کچھ جگہوں پر تو پھلوں کے قیمتی باغوں کو اجاڑکر ہاؤسنگ سیکٹر بنانے کے
افسوس ناک اور انسانیت دشمن اقدامات اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا اور نتیجتاً
آئے روز ایک بڑا زرعی رقبہ ہاؤسنگ سیکٹر میں تبدیل ہو تا جا رہاہے۔
مندرجہ
بالا نکات کا اگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے
کہ ملک پاکستان میں زراعت کی تباہی اور زبوں حالی کا ذمہ دار ملک میں قائم وہ ظالم
سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام ہے، جس نے ملک کے باقی شعبوں کی طرح زراعت کو
بھی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
آج
وطنِ عزیز کی زراعت کو اپنے پاؤں پر کھڑاکرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے
جو یقیناً اس وقت ظالمانہ نظام کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں، کیوں کہ یہ نظام ایک خاص
طبقے کے مفادات کا تو امین ہے، لیکن عوام کے لیے زہر قاتل ہے۔
اس
لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے
اکھاڑ کر اس کی جگہ عادلانہ اور کسان دوست نظام قائم کیا جائے، جب نظام ظلم کا
سورج غروب ہو کر نظام عدل کا قیام ہو گا تو تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ زراعت بھی
ترقی کرے گی۔ ہمارا کسان خوش حال ہوگا تو پاکستان خوش حال ہوگا۔