بر صغیر میں مغلیہ دور کی ٹیکس پالیسی
برصغیر کے مسلم حکمرانوں میں مغلیہ خاندان کی حکومت طویل ترین دور حکمرانی ہے۔ جس کو سیاسی وحدت کے ساتھ معاشی خوش حالی کا بے مثال دور مانا جا سکتا ہے۔
بر صغیر میں مغلیہ دور کی
ٹیکس پالیسی
تحریر: راؤ مشتاق احمد۔
لاہور
کسی بھی ملک کی آمدن کے
ذرائع میں محصولات یا ٹیکس ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ محصولات کا نظام، ملک کی
معاشی سرگرمیوں اور پیداواری عمل کو مہمیز بھی دے سکتا ہے یا پھر معاشی سرگرمی اور
پیداواری عمل کی سست روی اور ملکوں کے لیے معاشی تباہی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
آج ہم پاکستانی بھی، آخرالذکر حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جس کے باعث وطن عزیز میں
پیداواری عمل تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ یقیناً اس کے عوامل اور بھی ہیں،
مگر نظام محصولات کا اپنا ایک نمایاں کردار ہے۔
برعظیم مسلم تاریخ کا وہ خطہ
ہے جو دنیابھر میں خوش حالی کا استعارہ مانا جاتا تھا اور بجا طور پر اس کے کچھ
اہم اسباب تھے، ان میں سے ایک اہم سبب نظامِ محصولات (System of Taxation) کا
بھی تھا جو بہ طور کیس سٹڈی پڑھا اور سمجھا بھی جاسکتا ہے۔ ابھی اس دور کے تاریخی
ثبوت اس خطے پر قابض انگریز مورخین کے حوالوں سے معزز قارئین کے پیش خدمت ہیں۔
خاندان مغلیہ کا دورِحکمرانی
کا آغاز، 1526 عیسوی میں پانی پت کی فتح کے بعد ظہیرالدین محمد بابر نے کیا۔ مغلیہ
دورِحکمرانی میں محصولات کا باقاعدہ منظم نظام تھا اور اس کے پیچھے ایک یک سو
نظریہ اور سوچ کار فرما نظر آتی ہے۔ اور اس دور میں Accounting records کی
درستی پر اعتماد (credibility) اس حد تک تھا کہ؛ سر آسکن پیری نے انگلینڈ میں
ایک کمیٹی کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا کہ "ہندوستان میں تجارتی بہی کھاتوں
(Accounting books) کی وہ حرمت تھی کہ متنازعہ لین دین کے بارے میں ان کا پیش
ہوجانا، ناقابلِ تردید شہادت سمجھا جاتا تھا۔"
یعنی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ
ہندوستان کی معیشت، ایک منظم documented economy کا
ٹھوس تصور رکھتی تھی اور ان بہی کھاتوں (Accounting books) کے
مطابق ہی تجارتی مال پر ٹیکس کا تعین ہوتا تھا، جسے شاہی ٹیکس کہا جاتا تھا اور ٹیکس
کی شرح بہت کم طے کی گئی تھی، جسے ادا کرنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا۔ جس کا اندازہ
ان محصولات کی مقررہ شرح سے لگایا جاسکتا ہے، جیسا کہ ایک مسلم تاجر سے 2 فی صد کی
شرح سے آمدن پر ٹیکس لیا جاتا تھا اور غیرمسلم تاجر سے ٹیکس کی شرح 3 فی صد سے
3.25 فی صد تک ہوتی تھی، جب کہ مسلم آبادی کو 2 فی صد کے علاوہ ایک دوسرا ٹیکس بھی
دینا پڑتا تھا جو کہ 5 فی صد تھا، جسے مشہور برطانوی سیاح کیپٹن الگزینڈر ہملٹن نے
پال ٹیکس کے نام سے بتایا ہے جو عیسائیوں سے نہیں لیا جاتا تھا۔
ان محصولات کے عوض ریاست پر
جو ذمہ داریاں عائد تھیں اس کے متعلق کیپٹن ہملٹن نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ
اورنگ زیب کے زمانے میں حکومت نے مال کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر اس قدر لی
ہوئی تھی کہ اگر مال چوری سرقہ سے ضائع بھی ہوجاتا تو ریاست خود کو ذمہ دار مانتے
ہوئے، خزانہ شاہی سے نقصان کی تلافی کرتی۔ یہی وَجہ تھی کہ اورنگ زیب عالمگیر کے
زمانے میں ہندوستان کی تجارت کا مقابلہ یورپ کے بڑے بڑے تمام ممالک مل کر بھی نہیں
کرسکتے تھے۔
اسی طرح اگر کوئی کاروبار
مالی مشکلات کا شکار ہوتا تو ریاست اسے ایسی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے سہارا بھی
دیتی، تاکہ سرمایہ کار اپنے کاروبار کو بحرانی حالت سے نکال سکیں اور دوسری طرف
ریاست میں معاشی سرگرمی کا عمل نہ رُکنے پائے، بلکہ مزید فروغ حاصل کر سکے۔
اسی طرح سرجان میلکم نے لکھا
ہے کہ؛
" مجھے
یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ مختلف شہروں کے درمیان روپے پیسے کا بیوپار نہایت
وسیع پیمانے پر جاری ہے ۔ یہاں کے ساہوکار (Business men) اور صراف
(Gold traders) دولت مند ہیں اور ترقی کی انتہائی درجے پر پہنچے ہوئے ہیں۔
اس علاقے میں مال کی درآمد اور برآمد ہمیشہ کثیرمقدار میں ہوتی ہے۔ بیمہ
(Insurance) کے
دفاتر سارے ہندوستان میں جاری ہیں، کبھی اپنا کاروبار بند نہیں کرتے۔ مجھے اس بات
کا مطلق یقین نہیں کہ ہماری حکومت نے اس ملک کی ترقی میں امداد کی ہے۔"
اسی طرح بہ قول کیپٹن
الگزینڈر ہملٹن سورت کے صرف ایک تاجر مسمی عبدالغفار کا سرمایہ ایسٹ انڈیا کمپنی
کے سرمایہ کے برابر تھا۔
سلطان اورنگ زیب عالمگیر کے
دور میں شرعی قاعدہ کے مطابق زرعی پیداوار پر ٹیکس دس فی صد شرح پر مقرر کیا گیا،
جس پر بہ ظاہر ریاست کا نقصان تھا، مگر کاشت کاروں کی خوشنودی نے حکومت کے نقصان
کو فائدے میں تبدیل کر دیا۔ چناں چہ آمدنیوں کے گوشوارے جو کتب تاریخ میں درج ہیں
وہ شاہد ہیں کہ ٹیکس کی شرح میں کمی کے باوجود عالمگیر کے عہد میں آمدنی کا اوسط
(average) اکبر
کے دور سے بھی بہت زیادہ رہا۔
اس کے علاوہ شاہان مغلیہ نے
اپنے ادوار میں محصولات کی وصولی کی حکمت عملی لچک دار بھی رکھی۔ یعنی اگر کاشت
کار ٹیکس ادائیگی روپے یا زر میں ادا کرنے کے بجائے جنس کی شکل میں ادا کرنا چاہے
تو وہ بھی قبول کی جاتی تھی۔
حکومت کی طرف سے یہ کوشش
ضرور ہوتی تھی کہ ریاست کی آمدن میں اضافہ ہو، مگر ٹیکسوں یا ان کی شرح میں اضافے
سے نہیں، بلکہ زرعی اراضی کی آبادکاری اور زرعی پیداوار میں اضافہ کے ذریعے سے کیا
جائے۔ چناں چہ ایک منصب دار جو اپنے علاقوں کا انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے
ایک عہدے دار ہوتا تھا، اس کی بھرپور کوشش ہوتی کہ وہ زراعت کو زیادہ سے زیادہ
ترقی دے اور منصب دار کو بھی زرعی اراضی یا قطعہ اراضی اس کی استعداد کے مطابق دی
جاتی، ان کے مراتب اور عہدوں کا نام "ہزاری" کے عنوان سے ہوتا جوکہ ایک
شاہی منصب یا عہدہ تھا۔ ہزاری کے ساتھ دو، پانچ، سات، آٹھ یا دس، پندرہ اور تیس
ہزاری کے عنوان سے ہوتا تھا، جس سے منصب دار کے مرتبے اور درجے کا تعین ہوتا تھا۔
ان شاہی عہدوں کو بادشاہ جہانگیر نے اپنے بیٹے شاہ جہاں کو بھی بدرجہ استعداد و
قابلیت مختلف مواقع پر دیا تھا جوکہ شاہانِ مغلیہ کے جانشین کی تربیت کے اہتمام کا
آئینہ دار بھی ہے۔
مذکورہ عہدوں کا حامل اسی
مناسبت سے ایک مخصوص تعداد میں فوجی قوت اپنے ساتھ رکھنے اور انھیں بہ وقت ضرورت
مرکز کو فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوتا۔ اس کے علاوہ اس کے ماتحت زرعی اراضی کو آباد
رکھنے اور اس سے حاصل شدہ آمدن اور پیداوار پر نافذ شدہ محصولات کی وصولی کا بھی
ذمہ دار ہوتا۔ ان عہدوں سے متعلق یہ قانون بھی تھا کہ اس منصب کا حامل اپنی وفات
کے بعد وراثت کے طور پر کچھ تقسیم نہیں کرسکتا تھا، بلکہ وہ زمین اور وسائل واپس
ریاست کے پاس چلے جاتے، لیکن جب تک اس کی حیات ہوتی وہ اس کے ترقی میں شریک رہتا
اور اس سے منفعت بھی حاصل کرسکتا۔
یوں ایک منظم نظم و انتظام
کے ذریعے قومی وسائل و پیداوار کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ریاستی امور کو چلانے کے
لیے نظام محصولات بھی روبہ عمل رہا ہے، جس کے ذریعے ایک خوش حال ریاست 1526ء سے
1757ء تک اپنی مثال آپ رکھتی ہے۔
کامیاب معاشی حکمت عملی کی
ایسی روشن مثال جو ہمارے خطے کی ہی ہے۔ اگر اس سے استفادہ کیا جائے تو کوئی بھی
آزاد ریاست آج بھی مغلیہ دور کے رائج ٹیکس قوانین اور حکمت عملی سے سیکھ سکتی ہے،
مگر ہم جیسے ممالک کے تعلیم یافتہ افراد غلامانہ سوچ اور ظالمانہ نظام ریاست سے
نکل کر سوچنا ہی، پہلی سدراہ محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے منفی پروپیگنڈےکے زیراَثر
غلامانہ سطحی سوچ کے ساتھ تاریخی حقیقتوں کو جھٹلا دیتے ہیں اور ایسی غفلت کا ایک
نتیجہ تعلیم یافتہ افراد کے لیے مایوسی کی شکل میں نکلتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے
کہ ہم آزاد اور غیرجانب دارانہ سوچ کے ساتھ تاریخ کا مطالعہ کریں اور شعورِ بصیرت
سے لیس ہوکر اپنے وطن عزیز کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔