ٹیکس ریفارمز اور بحرانی کیفیت
امان اللہ گلال۔ حیدرآباد
موجودہ حکومت کی
طرف سے ٹیکس کے نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں کرنے کے عمل کا دعوی کیا گیا ہے۔ ان ریفارمز کا بنیادی مقصد ملک میں سے انفارمل اکانومی
(غیر رسمی معیشت) کا خاتمہ کرنا اور دوسرا
ٹیکس بیس کو بڑھانا بتایا گیا۔ مطلب یہ کہ جو لوگ
یا تاجرحضرات آج تک ٹیکس نہیں دیتے ، یا یہ کہ اپنی آمدن اور اثاثہ جات ظاہر نہیں کر رہے ان کی
آمدن اور اثاثہ جات کو رجسٹر کر کہ ٹیکس کے دائرےمیں لایا جائے۔ جس پر تاجر حضرات نے منفی رد عمل دے کر ٹیکس ریفارمز پر تشویش کا اظہار کیا اور پورے ملک میں ایک دن تمام کاروباری
سرگرمیاں احتجاجا معطل رکھیں۔
اس میں کوئی شک اور شبہ کی بات نہیں کہ ٹیکس لگانا اور ٹیکس وصول کرنا
حکومت کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔ کہ کوئی بھی حکومت اپنے عوام کے ٹیکس سے کٹھا
کئے ہوئے خزانے ہی کی بنیاد پر چل سکتی ہے۔ کیوں کہ حکومت کی بہت سارے اخراجات غیر
منافعہ بخش ہوا کرتے ہیں، جیسے ملکی دفاع، داخلی نظم و نسق برقرار رکھنا، عدالتی نظام
قائم رکھنا، تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں،
صحت کا نظام وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام اخراجات کو حکومت پورا کرنے کے لئےبیسیوں قسم کے ٹیکسز پر ہی انحصار کرتی ہیں۔موجودہ بحرانی کیفیت
کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں ٹیکس کے بنیادی نکات کو سمجھنا ہوگا۔ ٹیکس کے نظام کی ہم
دو حصوں میں درجہ بندی کر سکتے ہیں۔
ایک ڈائریکٹ یا بلاواسطہ ٹیکس
یہ ٹیکسز کا وہ حصہ ہے جس میں دینے والے کے اوپر براہ راست ٹیکس عائد
کیا جاتا ہے۔ جو کہ اس کی آمدن یا ان کے اثاثہ
جات کی بنیاد پر ہوتی ہےکہ جس نے ایک مخصوص مدت میں جتنا کمایا یہ جتنے اثاثے بنائے
اس حساب سے ٹیکس ادا کرے گا۔ لہذا یہ ٹیکس
کسی کو منتقل نہیں کیا جا سکتا ہےاورحکومت
کے ادارے براہ راست ٹیکس دہندہ سے وصول کرتے ہیں۔
اس کی مثال میں انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، ویلیو ایڈیڈ ٹیکس، یا کوئی قانون توڑنے پر جو جرمانہ عائد کیا جائےاور فیس وغیرہ ۔ جی ایس ٹی، امپورٹ ٹیکس، جن کو کنزمپشن ٹیکس بھی کہا جاتا ہے۔
دوسرا انڈائریکٹ بالواسطہ ٹیکس
یہ ٹیکس براہ راست ٹیکس دہندہ سے وصول نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بنیادی
پروڈیوسر سے وصول کیا جاتا ہے جو یہ ٹیکس اشیاء
یا خدمات کی قیمت میں شامل کر کہ صارف تک منتقل کر دیتا ہے، جس کو بالآخر صارف ہی ادا
کرتا ہے۔ یعنی یہ ٹیکس صرف کی جانے والے اشیاء اور خدمات کی قیمتوں کے اندر موجود ہوتی
ہیں۔اس قسم کے ٹیکس کا مقدار ، ٹیکس دہندہ کے آمدن یا اثاثہ جات کی بنیاد پر نہیں بلکہ
اشیاء و خدمات کے تصرف کے مقدار کی بنیاد پر عائد کیا جاتا ہے جس میں آمدن
اور اثاثہ جات یا بچت کے کسی تناسب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ یعنی جو شخص جتنا کسی مخصوص اشیاء کا استعمال کرے
گا اتنا ٹیکس ادا کرے گا چاہے وہ کسی بھی انکم گروپ سے تعلق رکھتا ہو، کروڑوں روپے سالانہ آمدن رکھنے والا ہو، متوسط
طبقے سے تعلق رکھتا ہو، یا غربت کے لکیر سے
بھی نیچے کی زندگی بسر کر رہا ہو،یا یہ کہ
ممکن ہے وہ بھیک مانگ کر چند اشیاء ضرورت خریدنے
کی سکت پیدا کرتا ہو برابر نسبت سے ٹیکس ادا کرے گا۔ مثال کے طور پر صابن ،کپڑے ، جوتے
دوائیاں وغیرہ خریدنے پر ایک امیر شخص جتنا ٹیکس ادا کرے گا اتنا ہی کوئی غریب بھی
ادا کرےگا۔ اس لئے اس درجہ کی ٹیکس کو کم آمدن رکھنے والے لوگوں پر
زیادہ بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔
ٹیکسز (محصولات) ملکی وسائل یا
آمدن کو
از سر نو مختص کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی
ہیں۔ جیسے زیادہ آمدن پر زیادہ ٹیکس عائد کیا جائے تو جو پیسہ حکومت کے خزانے میں آ
جاتا ہے وہ تما م لوگوں کے لئے خرچ ہوتا ہے، چاہے
وہ ترقیاتی امور کے لئے خرچ ہو ، تعلیم و صحت کے لئے خرچ ہو یا چاہے حکومت اپنی
منشاء سے اپنے منشور یا مخصوص مطلوبہ نتائج
کی حاصلات کے لئے خرچ کرے۔ حکومت کی طرف سے کسی مخصوص انڈسٹری (معیشت کے کسی
حصے) کو مستحکم کرنے ، یا تحفظ دینے یا محدود کرنے جیسے مقاصد بھی انڈائریکٹ ٹیکس یا
سبسڈی کی پالیسیز کے ذریعے حاصل کئے جاتے ہیں۔
معیشت کے ماہرین کے مطابق اس قسم کا
انڈائریکٹ ٹیکس ملک میں عدم استعداد کو پروان چڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر لوگ ڈائریکٹ ٹیکس کے حوالے سے نا دہندہ ہیں۔ ٹیکس
دہندہ صرف یا تو سرکاری ملازمیں ہیں یہ بڑے بزنس مین جن کی آمدن کا حجم اتنا ہے کہ چھپانا نا ممکن بن جاتا ہے۔ پر کتنا
فیصد درست حساب کتاب سے ٹیکس دیتے ہیں یہ تو
معلوم ہی نہیں۔ انفارمل اکانومی (غیر رسمی معیشت جو معاشی نظام میں رجسٹرڈ ہی نہیں
ہیں) ان کا ڈائریکٹ ٹیکس میں حصہ صفر ہی کے
برابر ہے کہ ایسے لوگ یا تاجرحضرات ٹیکس دیتے ہیں نہیں ہیں۔
پاکستان میں کل ٹیکس وصولی میں ڈائریکٹ ٹیکس کا حصہ دو تہائی رہا ہے۔
جبکہ باقی ترقی پذیر ممالک میں یہ حصہ برابر کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ اور ٹیکس اہداف کا کوئی اسی فیصد بمشکل وصول سکتے
ہیں، جس میں ٹیکس وصولنے والے اداروں کی بدعنوانی بھی ایک اہم جز ہے۔
اور ہمارےتاجر حضرات
کو بھی سمجھنا چاہئے ایک ملک کے اندر رہتے ہوئے ٹیکسز سے بچنے کے لئے لابنگ کرنا، پریشر
گروپس کی طرح کے عمل کرنے سے کوئی بہتری کی طرف نہیں جا رہے بلکہ حالات مزید ابتر ہوتے
چلے جائیں گے۔ جب آپ لوگ ٹیکس دیں گے تو حکومت سے اپنے حق میں معاملات طئہ کر سکیں
گے۔ ورنہ تو حالات جوں کے توں ہی رہیں گے، جس میں ناجائز رشوتیں، سیاسی بھتہ وغیرہ
سر فہرست ہیں۔ ٹیکس کو وصول کرنے میں سخت نظام کا ہونا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ
اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک میں یہ کہاوت ہے کہ "دو ہی چیزیں یقینی
ہیں، ایک موت اور دوسرا ٹیکس"۔ تو دوسری طرف بہت بھاری کرپشن ٹیکس کے نظام میں شدید جھول کی
بھی چغلی کرتی ہے۔ اگر تمام لوگ اپنی آمدن ،
اخراجات اور بچتوں سے بننے والے اثاثہ جات ایک بار ظاہر کر کہ ہر سال ان کا حساب کتاب
دینے لگ جائیں گے تو یقینا کرپشن بہت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔
اس پس منظرسے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کے نظام میں کس حد تک اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ٹیکس
کے نظام اور طریقہ کار کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت کےساتھ ایسا ٹیکس کا ماڈل، جس
میں کم آمدن والے لوگوں کو رلیف مل سکے ، کی
بھی شدید ضرورت موجود ہے۔ موجودہ حکومت کی
یہ پالیسی دیر آید درست آید، تسلیم ہی کرنی چاہئے، ۔ جو کام عشروں پہلے ہونا چاہئے
تھا، وہ اگر آج ہو رہا ہے تو یہ بھی بہتر ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی اہم ہے وہ بھی ملاحظہ کریں۔
اب کی بار ٹیکس وصولیوں
کی زد میں چونکہ زیادہ تر چھوٹا اور اوسط درجے
کا تاجر آ رہا ہے، تو حکومت کو یہ بھی ذہن نشین کرنا ہوگا کہ ٹیکس کے بدلے میں اس کی
یہ ذمہ داری بھی ہوگی کہ عام لوگوں اور تاجروں کے لئے آسانیاں پیدا کرے، اور ان کو ہر لحاظ سے
تحفظ فراہم کرے۔ خاص کر بڑے تاجروں اور کارپوریٹ
کے مقابلے میں یہ حکومت ہی ہے جس کو ان کےمفادات کا تحفظ کرنا پڑے گا۔ اگر حکومت یہ سب کر نے میں ناکام رہی (جیسا کہ پاکستان
دنیا میں ایک ناکام ریاست کا تعارف رکھتا ہے)
تو یقینا تاجروں اور ملازمت پیشہ افراد کو ایک بار ٹیکس بیس میں لانے کے بعد بھی ٹیکس وصولیوں
میں حکومت ہمیشہ کی طرح ناکام ہی رہے
گی۔
حکومت کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرے اور
وصول کرنے کے تمام طریقے استعمال کرے۔ تو ساتھ
ہی تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ، ان کو سہولیات فراہم کرنا، اور زندگی کی بنیادی ضروریات بہم پہنچانا بھی ریاست کا فرض اولین ہے۔ اگر حکومت
وقت یہ تمام امور سرانجام دینے سے قاصر رہے، یا اپنے فرائض مکمل طور پر ادا نہیں کر
سکے تو یقینا ٹیکس لگانے اور وصولنے کے حق پر بھی سوال اٹھیں گے۔ اور ساتھ ہی لوگوں
کی امانتوں (ٹیکس) کےحوالے سے غیرجانبدار،
مکمل اور زوردار احتساب بھی عوام کی طرف سے حق ہوگا اور اس حق کو استعمال کرنے کا کوئی
موثر طریقہ کار سامنے لانا ہوگا