برین ڈرین اور ریاست کا کردار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • برین ڈرین اور ریاست کا کردار

    "برین ڈرین" کیا ہے، اور ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ عوام اور ریاست کا اس میں کیا کردار ہونا چاہیے؟

    By Asghar Surani Published on Sep 02, 2024 Views 633

    برین ڈرین اور ریاست کا کردار

    تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں 


    وطن چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہر فرد اپنے آبائی ملک سے بے پناہ محبت کرتا ہے، لیکن پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں ہر باصلاحیت اور کسی نہ کسی شعبے میں مہارت کے حامل نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہوکر برین ڈرین کا شکار ہو رہے ہیں۔ تو ایسے نامساعد حالات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان نوجوانوں کی وطن چھوڑنے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟ "برین ڈرین" کیا ہےاور اسے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ عوام اور ریاست کا اس میں کیا کردار ہونا چاہیے؟

    "برین ڈرین" سے مراد اعلیٰ ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت ہے، جو اکثر بہتر مواقع، کام کے حالات، یا معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ یہ رجحان زیادہ تر ترقی پذیر ممالک، یا جنہیں "تیسری دنیا" کے ممالک بھی کہا جاتا ہے، میں دیکھا جاتا ہے۔ ہنرمند، پیشہ ور اکثر ملازمت کے بہتر مواقع، زیادہ تنخواہوں، بہتر کام کے حالات، اور زندگی کے اعلی معیار کی تلاش میں ملک چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ افراد ایسے ماحول میں کام کرنا چاہتے ہیں، جہاں ان کی مہارتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے اور انھیں کیریئر کی ترقی کے بہتر مواقع ملیں۔ مزید برآں، سیاسی عدم استحکام، اور ناقص گورننس بھی اہم عوامل ہیں جو لوگوں کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جب بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ ہو اور حکومتی نظام غیر مؤثر ہو، تو ہنرمند افراد اپنی پیشہ وارانہ اور ذاتی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ عوامل ہنرمند افراد کی روانگی کی بنیادی وجوہات بنتے ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کی معاشی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔

    پاکستان میں برین ڈرین کی وجوہات

    پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے، جہاں کل آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کی قوتِ محرکہ ہوتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہاں کے ہنرمند نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں اور ان کی تعداد ہزاروں میں نہیں، بلکہ لاکھوں میں ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں بھی باصلاحیت افراد ایسے حالات کا شکار ہیں۔ خصوصاً نوجوان طبقہ، جو اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے، تاکہ اپنے خاندان کو بہتر زندگی فراہم کر سکے۔جب تعلیم مکمل کر لیتا ہے، تو پھر روزگار کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ اکثر اوقات، ضروریات زندگی تک میسر نہیں آتیں، اور بالآخر وہ اپنے وطن کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو جاتاہے۔ یہ صورتِ حال اسکی مایوسی اور ناکامی کی عکاسی کرتی ہے، جو نہ صرف اس کی ذاتی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ ملک کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

    اگر ہم اپنے وطن عزیز میں ترقیاتی کاموں اور صنعتی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو ہمیں بجلی کا شدید بحران، فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، صنعتوں کی بندش، اور زراعت میں بحران کا سامنا نظر آتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور حکومت کی منصوبہ بندی میں ان کے لیے کوئی قابلِ ذکر ترجیحات نظر نہیں آتی۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں نوجوانوں کے لیے متعدد منصوبے اور پروگرام موجود ہیں، لیکن اکثر اوقات یہ منصوبے عملی طور پر مکمل نہیں ہوتے، جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہر سال یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، اور ان کو مستقبل کی کوئی واضح سمت نہیں ملتی۔ 

    یہاں پر غیر تعمیری سرگرمیوں، جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا احساس پروگرام پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن انہی پیسوں سے کئی کارخانے قائم کیے جا سکتے ہیں، جو نوجوانوں کو عزت کے ساتھ روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں مفادات مختلف ہوتے ہیں، اور اکثر وسائل ایسے منصوبوں میں صرف کیے جاتے ہیں جو دیرپا ترقی کے بجائے وقتی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

    برین ڈرین ان ممالک کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتی ہے اور اس کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ جب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند پیشہ ور افراد ملک چھوڑ دیتے ہیں تو ان کے آبائی ممالک قیمتی انسانی سرمائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس سے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، ٹیکنالوجی اور سماجی بہبود جیسے اہم شعبوں پر منفی اثر پڑتا ہے، جہاں ترقی اور بہتری کے لیے مہارت کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ڈاکٹر، انجینئر، اور ماہرین اپنے وطن کو چھوڑ دیتے ہیں، تو صحت کی خدمات، انفراسٹرکچر کی ترقی اور تکنیکی جدت میں رکاوٹ آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، ملک کی معیشت سست روی کا شکار ہوتی ہے اور ترقیاتی منصوبے غیر مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔

    برین ڈرین کے ملک پر اثرات

    مجموعی طور پر، برین ڈرین ترقی پذیر ممالک کی سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے، جس کے باعث ان ممالک کی عالمی معیشت میں حصہ داری اور ترقی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ ہنرمند کارکنوں کی ہجرت اقتصادی ترقی کو سست کرسکتی ہے۔ جب اعلیٰ مہارت اور تجربے والے افراد اپنے وطن کو چھوڑ دیتے ہیں، تو ان کے جانے سے پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے، کیوں کہ وہ خصوصی مہارتیں اور علم اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، کم ہنر مند کارکنوں کی موجودگی پیداوار اور اختراع کی سطح کو متاثر کر سکتی ہے، جو اقتصادی ترقی کی رفتار کو روک سکتی ہے۔ ہنر مند افراد کے بغیر، صنعتوں میں تکنیکی ترقی اور کارکردگی کی بہتری کی رفتار سست ہو جاتی ہے، اور ملک کی مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر ہنرمند کارکنوں کی روانگی جاری رہے، تو یہ ایک مسلسل چیلنج بن سکتا ہے جو ملک کی ترقیاتی حکمت عملیوں کی کامیابی کو مشکل بنا دیتا ہے۔

    بہت سے ترقی پذیر ممالک اپنے شہریوں کی تعلیم میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں، لیکن یہ تعلیم اکثر بیرون ملک جانے کا باعث بنتی ہے۔ یہ صورتِ حال ایک قسم کے وسائل کے ضیاع کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے، کیوں کہ اگر تعلیم یافتہ افراد اپنے آبائی ملک کی ترقی میں حصہ نہیں ڈالتے، تو ملک اپنی سرمایہ کاری کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔ اس صورت میں، قومی خزانے سے خرچ ہونے والی رقم، جو کہ تعلیم اور تربیت پر خرچ کی گئی تھی، ضائع ہو جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کے بیرون ملک جانے سے نہ صرف ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ آتی ہے، بلکہ ملک کی ترقیاتی پالیسیوں اور معیشت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے، جس سے عالمی سطح پر ملک کی پوزیشن کمزور ہو جاتی ہے۔

    برین ڈرین سماجی ڈھانچے کو بھی متاثر کرتا ہے، کیونکہ طب، انجینئرنگ، اور دیگر اہم شعبوں میں پیشہ ور افراد مقامی چیلنجوں سے نمٹنے اور سماجی بہبود میں اپنا حصہ ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جب ہنر مند افراد اپنے وطن کو چھوڑ دیتے ہیں، تو ان شعبوں میں تجربہ کار افراد کی کمی ہو جاتی ہے، جس سے صحت کی دیکھ بھال، اور سماجی خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ آتی ہے۔ مثلاً، ڈاکٹروں کی کمی صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر بوجھ ڈالتی ہے، اور انجینئرنگ کے ماہرین کی عدم دستیابی سے تعمیراتی اور تکنیکی منصوبے سست روی کا شکار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً، مقامی مسائل کے حل اور سماجی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ آتی ہے، جس سے سماجی ڈھانچے کی استحکام پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    برین ڈرین سے نمٹنے کی حکمت عملی

    1۔ کام کے ماحول کو بہتر، محفوظ، سازگار اور ترقیاتی مواقع فراہم کرنے کے قابل بنانا، تاکہ ہنرمند افراد اپنے ملک میں ہی رہ کر بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔

    2۔ تنخواہوں اور مراعات کو بین الاقوامی سطح پر مسابقتی بنانا، تاکہ ہنرمند افراد کو اپنے وطن میں ہی بہتر مالی فوائد مل سکیں۔

    3۔ معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی سہولتوں، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا، تاکہ ہنرمند افراد کی زندگی کے تمام پہلو بہتر ہوں۔

    4۔ ہنرمند افراد کے لیے پیشہ وارانہ ترقی اور تربیت کے مواقع فراہم کرنا، تاکہ وہ اپنی مہارتوں کو مزید نکھار سکیں اور اپنے وطن میں ترقیاتی منصوبوں میں حصہ لے سکیں۔

    مزید برآں، بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا اور تعلیم اور ہنر کے حصول کے لیے نئے راستے پیدا کرنا بھی اہم ہے۔ عالمی سطح پر تعاون اور مشترکہ تحقیقی منصوبے برین ڈرین کے منفی اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔کیوں کہ یہ علم اور ہنر کا تبادلہ ممکن بناتے ہیں اور ہنرمند افراد کو اپنے وطن میں ہی ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

    لیکن اس سب کے لیے ملک میں قوم دوست نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا ملکی حالات کا جائزہ لے کر اس میں مناسب تبدیلی لاکر نوجوانوں کے لیے سازگار ماحول قائم کرنا از حد ضروری ہے۔

    Share via Whatsapp