آئی پی پیز کی لوٹ مار اور ریاستی اداروں کی معاونت
ملک عزیز کو لوٹنے کے نت نئے ہتھکنڈوں سے لوٹنے کی ایک جھلک
آئی پی پیز کی لوٹ مار اور ریاستی اداروں کی معاونت
کبیرعباسی۔مری
پاکستان بلکہ شاید دنیا کی سب سے بڑی کرپشن پاکستان میں کرائے کے بجلی گھروں یعنی آئی پی پیز کی صورت میں کی جارہی ہے۔پاکستاں جہاں،ہائیڈرو،اٹامک،سولر،ونڈ،تھرمل گویا ہر ذرائع سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، وہاں پٹرول سے انتہائی مہنگی بجلی پیدا کرنے کا ٹھیکہ چند طاقت ور لوگوں نے اپنے کرائے کے بجلی گھر بنا کے لیا اور خود ہی سرکار ہوتے ہوتے قومی خزانے پر شب خون مارا۔معاہدے ایسے کئے گئے کہ چاہے وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں انھیں ان کی فل کیپسیٹی کے مطابق ہی ادائیگی کی جائے گی۔اگر وہ فل کیپسیٹی کے مطابق کام کریں تو گرمیوں میں بھی کوئی لوڈشیڈنگ نہ ہو،بلکہ ضرورت سے ڈیڑھ گنا زائد بجلی پیدا ہو،لیکن انھوں نے عوامی خزانے سے بھاری بھرکم رقوم لینے کے باوجود گرمی ہو یا سردی عوام کو لوڈشیڈنگ سے ستانا بھی فرض سمجھا۔
اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ کوئی دس روپے کلو آٹے کے آپ سے سو روپے لے لے اور آٹا بھی نہ دے یا تین ٹائم میں سے ایک ٹائم دے اور دو ٹائم آپ کو بھوکا رہنا پڑے۔اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا؟
نوے کی دہائی سے قبل پاکستان میں دو ایٹمی بجلی گھر بنے،لیکن پھر مقتدرہ کو کرائے کے بجلی گھروں کی مدد سے عوام کے خون کا ایسا چسکا لگا کہ اس کے بعد کوئی مزید ایٹمی بجلی گھر نہ بن سکاجو تھوڑی بہت ہائیڈرو پاور پلانٹس سے بجلی کے منصوبے بنائے گئے،ان کے ٹھیکے کمیشن لے کر بیرونی کمپنیوں کو دیے گئےاور وہ بھی مکمل کم ہی ہو پائے۔
واپڈا کے شئیرز جو بیرونی کمپنیوں کو فروخت کر کے کرپشن کی گئی اس کی کہانی الگ ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان جو تیزی سے مقروض ہوا، اس کی سب سے بڑی وَجہ آئی پی پیز کے ساتھ ظالمانہ معاہدے ہی بنے۔یہ کرائے کے بجلی گھر چاہے فرنس آئل سے بجلی پیدا کریں یا کوئلے سے،ہوا کی حرکی توانائی استعمال کریں یا سورج کی توانائی سے فائدہ اٹھائیں، عوام کو ان کی پیداوار کا ایک یونٹ بھی پچاس روپے سے اوپر ہی پڑ رہا ہے۔ان کا نقصان صرف مہنگی بجلی کی صورت میں ہی ملک کو نہ ہوا، بلکہ اور کئی طریقوں سے بھی ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھانے میں ان کا اہم کردار ہے۔جیسا کہ ان کو ادائیگی کرنے کے لیے قرضے لیے گئے۔عوام پر احسان بھی جتلایا گیا کہ بجلی کی مد میں ہم سبسڈی دے رہےہیں۔
مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ کی وَجہ سے ہر طرح کی انڈسٹری حتی کہ زراعت کو بھی نقصان پہنچا،جس کی وَجہ سے اپنی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی اور نتیجے میں برآمدات میں بھی کمی ہوئی۔گویا قومی آمدنی بھی کم ہوگئی۔
بیرونِ ملک سے اشیا کی امپورٹ مجبوری بنی۔اس مد میں بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔
مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کی وَجہ سے جہاں انڈسٹری کو نقصان پہنچا، وہاں بےروزگاری میں بھی بےتحاشا اضافہ ہوا۔ غرض کوئی شعبہ بلکہ کوئی فرد ایسا نہیں، جسے ان آئی پی پیز نے نقصان نہیں پہنچایا۔ان کی لوٹ مار دیکھ کر تو انگریزوں کی برصغیر میں لوٹ مار کے قصے بھی کم تر معلوم ہوتے ہیں۔وہ تو غیر تھے، لیکن انھوں نے "اپنا" ہو کے ہمیں لوٹا ۔
1990ءسے آج تک جتنی حکومتیں بنیں،آئی پی پیز ان کا حصہ رہے۔کسی اقتدار میں رہنے والی کسی سیاسی پارٹی نے اس کرپشن کی نشان دہی نہیں کی۔وہ سب مل بانٹ کے کھاتے رہے اور ہم ان کی جگہ ایک دوسرے سے جھگڑے میں مشغول رہے۔اَب وقت آ گیا ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے لیے لڑنے کے بجائے ہم اپنے حقوق کےلیے ایک ہوکر ان سے لڑیں۔ان سیاسی گماشتوں کی دولت بھی بیرونِ ملک ہے اور اولادیں بھی۔یہ بھی بس حکمرانی کےلیے آتے ہیں،جب کہ ہم نے اور ہماری اولادوں نے یہی رہنا ہے۔
اس سال اور آنے والے چند سالوں میں بیش تر آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے ان ظالمانہ معاہدوں کی مدت ختم ہورہی ہے۔ یہ اَور اس قسم کی لوٹ مار کے حوالے سے وقتی ہیجان اور جذباتی نعرے بازی ، مسائل کا مستقل حل نہیں ہے، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس استحصالی، آلہ کار نظام کے بدلتے پینتروں کو سمجھا جائے اور اس سے چھٹکارے کے لیے شعوری بنیادوں پر اجتماعی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے ۔
سانپ کے نکلنے کے بعد شور شرابہ اور وقتی ہنگامہ آرائی مسائل کا حل نہیں ۔