ریاست کی زبوں حالی کے اسباب اور عوام
ملکی معیشت کا مکمل سیاق و سباق جاننا ضروری ہے۔
ریاست کی زبوں حالی کے اسباب اور عوام
تحریر : بلال احمد خان لاہور
آج کل ہر طرف بگڑتی معیشت اور عوام پر بڑھتے معاشی بوجھ کا چرچا ہے۔ اس تناظر میں کچھ باتیں اہم ہیں، جو احباب کے مدنظر رہیں تو پورا عکس سامنے آتا ہے۔
1- پاکستان بطور ریاست اپنی سرکاری پیدائش 14 اگست 1947 (غیرسرکاری: 15 اگست 1947) سے پہلے ہی قرضے کی معیشت پر قائم ہوا تھا۔ پاکستان کا پہلا بجٹ آزادی سے قبل ایک بیوروکریٹ فنانس سیکرٹری مسٹر غلام محمد (جو آزادی کے بعد وزیرخزانہ رہے اور پھر اکتوبر 1951 سے تیسرے گورنر جنرل بھی رہے) نے پیش کیا جو کم و بیش دس کروڑ روپے خسارے کا بجٹ تھا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کا ہر بجٹ خسارے کا بجٹ ہے۔ لگتا یوں ہے کہ ریاست کے حقیقی بانیوں اور چارہ گروں نے اسے ایک مقروض ریاستی فریم ورک کے طور پر ہی پلان کیا، جو 72 سال گزرنے کے بعد سے اب تک یہ دس کروڑ کا قرضہ کئی ہزار کھرب کے قرضے میں بدل چکا ہے۔
2- پہلے بجٹ سے لے کر آج تک ریاستی آمدنی کے مصارف نہیں بدلے، وہی حد سے بڑھے ہوئے سرکاری اخراجات، دفاعی ضروریات، اور سب سے بڑھ کر ڈیبٹ سروسنگ کہ جسے عام الفاظ میں قرضوں کے ادائیگی کہا جاتا ہے سب سے بڑے مصارف کے طور پر موجود ہیں۔
3- قرائن بتلاتے ہیں کہ امریکی و برطانوی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، جنگ عظیم دوم کے بعد اشتراکی روس کی فوجی، معاشی اور علاقائی طاقت سے مرعوب تھی۔ گو کہ ذرائع ابلاغ اور پراپیگنڈے کے زور پر اتحادی ممالک نے جنگ کی کامیابی کا سہرہ بڑی چالاکی سے برطانوی و امریکی افواج کے سر باندھ دیا مگر محقق و جنگی علوم کے ماہر جانتے تھے کہ نازیوں کی شکست اصل میں روسی افواج کی دلیری و جانبازی اور کامیاب جنگی حکمت عملی کی بدولت تھی۔ یہ حقیقت برطانوی سامراجی ذہنیت کےلیے کسی صورت قبول نہیں تھی۔ جنگ کے دوران روس کی پے در پے جنگی کامیابیاں سرمایہ دارانہ ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی کی طرح تھیں۔ اسی وقت برطانوی عسکری اسٹیبلشمنٹ نے جنوبی ایشیا میں ایک طفیلی ریاست کے مطالبے کو بڑی شدت کے ساتھ قبول کیا، تاکہ آنے والی دہائیوں میں امریکیوں کے ساتھ مل کر روسی اشتراکیت کو اپنی سرحدوں تک لائے بغیر ایک اور خطے میں بطور سرد جنگ روکنے کی تیاریاں مکمل کی جاسکیں۔ جنگ عظیم دوئم کے دوران چرچل کا ہندوستانی افواج کی مسلمان رجمنٹس کے لئے خون بہا کا اعلانی بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
4- برطانوی حکومت ایک طفیلی ریاست کے لئے تو تیار تھی، مگر ایسی ریاست جس کی اشرافیہ و حکمران آزاد و قومی دھارے کی سوچ رکھتے ہوں، وہ ان کےلیے زہر قاتل کی مانند تھی۔ تبھی ابن الوقت سیاستدانوں، سرکاری ملاوٗں اور غداران ملک پر مبنی ایک ایسے جتھے کے پلڑے میں وزن ڈالا گیا جن کی قیادت انگریز کے تربیت یافتہ افراد کے پاس تھی۔ یہ ہرگز نہ تھا کہ یہ تربیت یافتہ افراد انگریز کی مکاری و چال بازی کو سمجھتے نہ تھے، بلکہ ان لوگوں کے ذریعے انگریز نے تعمیری اور انقلابی سوچ رکھنے والے طبقات کا اثر زائل کیا اور سادہ لوح عوام کی باگ ڈور تماشہ گروں، بہروپیوں، نوابوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے جتھوں (مافیاز) کے حوالے کردی گئی۔
5- یہ بہروپیے، مذہبی نمائندے، جاگیردار، سرمایہ دار اور انگریز کے پٹھو گِدھوں کی طرح نومولود ریاست پر حملہ آور ہوئے۔ پاکستان کی پیدائش سے لے کر آج تک ان جتھوں کا طریقہ واردات ایک سا ہے۔ ان کے ہاتھ میں مذہب و ملت کے تمام گُر،اپنے مفادات کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو آج تک یہ فتوؤں اور الزامات کی بدولت دباتے آئے ہیں۔ یہ گروہ اس باطل نظام کے کرتا دھرتا بھی ہیں اور بڑے مضبوط سٹیک ہولڈر بھی۔ عوام کی اوقات ان جتھوں کے سامنے کیڑے مکوڑوں کی سی ہے (کسی کو شک ہے تو وہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر کی دھرتی پر کیڑوں کی طرح رینگتے، زندگی کی بھیک مانگتے اور بھوک، پیاس اور افلاس و جہالت سے بلبلاتے کروڑوں افراد کا تجزیہ کرے، جو غربت کی لکیر سے نیچے ہیں)۔ یہ جتھے ہر ریاستی بیانیے کے خالق و ہدایت کار ہیں۔ خودساختہ تاریخ ہو یا پھر سامراجی ریاستوں کی لگائی گئی ڈیوٹیاں، مذہب سے لے کر تاریخ تک، یہ جتھے ہر چیز کی حقیقت کو مسخ کرتے آئے ہیں۔
6- آزادی کے 72 سال، ان جتھوں کی آپس کی کشمکش اور ریاستی وسائل کی لوٹ میں حصہ بقدر جثہ وصول کرنے کی تگ و دو میں، بطور ثبوت دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ جتھے اور ان کے طفیلی گروہ، مل کر ملک کے اندر ایک ایسا نظام رائج کرچکے، کہ جہاں لوٹ کھسوٹ، کرپشن، لالچ، حرص، کمیشن، رشوت جیسی خرافات نے پوری ریاست اور اس کے مکینوں کی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ یہ جتھے جو خود وسائل کے لوٹ میں ملوث تھے، ان کے دیکھا دیکھی عوام میں بھی اسی ماحول کے زیراثر یہی اثرات غالب آگئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ عوام بھی اپنے تئیں وسائل کی لوٹ میں شامل ہو گئے۔
7- ریاست تو چونکہ پہلے ہی قرضے کی معیشت پر چل رہی تھی، لہذا طریقہ واردات کو بدل کر ایک نیا رخ دیا گیا، جہاں ریاست قرض لے کر مقروض ہوتی گئی جب کہ ان جتھوں کے اثاثوں اور ملک کے اندر اور بیرون ملک کاروبار اور اثاثہ جات میں ہوش ربا اضافہ ہوتا گیا۔ سامراجی طاقتیں بھی اس کھیل میں برابر کی شریک بلکہ محرک رہیں۔ ظاہر ہے، کوئی خود اپنے گھر پر تیل چھڑک کر آگ لگانے کے درپے ہو تو ہاتھ بٹانے والے بھی مل جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ اسی کسادبازاری، اور کرپشن کے دور میں سامراجی طاقتوں نے اپنے گندے مقاصد کے حصول کےلیے ریاست پاکستان اور اس کے جملہ اداروں سمیت مذہبی و سماجی جماعتوں کو ٹشوپیپر کے طور پر خوب استعمال کیا۔ اپنا مطلب نکل جانے کے بعد، ان طاقتوں نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں، اور ہم بیچ چوراہے میں ننگے پاؤں کھڑے رہے۔ وہاں بھی ریاست کے کرتا دھرتا اور عوام نہ سمجھے کہ اب وہ دور نہیں رہا کہ جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے، بلکہ اب تو نئے دور میں نئی حکمت عملی کا وقت ہے۔ قرضے پہ قرضہ ملتا گیا، اثاثے پہ اثاثہ گروی ہوتا گیا، اور نوبت یہاں تک آن پہونچی کہ سب ساتھ چھوڑ گئے۔ مگر ملک تو اب عوام کا ہے، قرضہ بھی عوام پر ہے، شیر، تیر، بلا، ٹوپی، کتاب یا بوٹ، سب اپنی اپنی باریاں لے کے چلتے بنے اور چلتے بنیں گے، مگر بوجھ عوام پر ہی رہے گا۔
8- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کیسے چلانا ہے، قرض تو مل نہیں رہا، تو پھر؟ واحد حل عوام و خاص کا باقائدگی سے ایمان داری کے ساتھ ٹیکس ادا کرکے؟ جی بالکل، یہی حل ہے۔ اب وہ پہلے والی بہاریں نہیں ہوں گی، اب تو خود ہی سب کچھ کرنا پڑےگا۔ جب پاکستان کے عوام ہی ٹیکس ادا کریں گے، چاہے وہ ڈائریکٹ ٹیکس ہو یا ان ڈائریکٹ ٹیکس، تبھی ریاست چلے گی۔ اب دنیا آپ کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ آپ سے جو کام لیا جانا تھا، وہ لیا جا چکا، اب آپ نے اپنی ریاست کو جدید دور کےلئے قابل قبول بنانا ہے۔ اب جب کہ ملک کے تمام گروہ اور جتھےاپنی اپنی آمدن سے ٹیکس دیں گے تو ملک چلے گا۔ یہ ماضی کے ہتھکنڈے استعمال کرکے اب نہیں چلا جا سکتا۔ صارفین کا نعرہ لگا کر صارفین کو ہی لوٹنے والے ٹولے تو عوام مسترد کرچکی ہے۔ رمضان المبارک میں ٹریڈر مافیاز کی ملی بھگت، حکومت کی ناکامی اور سسٹم کی تباہی کی بدولت عام عوام کھانے پینے والی عام اشیا کےلئے ترستی ہے۔ اب یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔
9- پاکستان کا سرمایہ دار پوری دنیا سے الگ ہے، پاکستانی سرمایہ دار کہتا ہے کہ نہ تو میں اپنا کاروبار شو کرکےکسی بھی قسم کا ٹیکس ٹھیک اور مکمل ایمانداری سے دوں گا، نہ مزدور کو مکمل اجرت پوری دوں گا، نہ بجلی و گیس کے بل باقاعدگی سے ایمانداری سے ادا کروںگا، نہ ماحولیاتی آلودگی کا تدارک کروںگا، نہ کوئی حساب کتاب دوںگا، نہ عوام کو اشیا سستی و اعلی کوالٹی فراہم کروںگا، نہ پرائز کنٹرول کو مانوں گا اور کوئی مجھے پوچھ بھی نہیں سکتا۔ یہ بدمعاشی کب تک چلے گی۔ پاکستانی سرمایہ دار اکیسویں صدی میں بھی تیسری صدی کی کاروباری ذہنیت کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ملک کا نظام سرمایہ دار کے ہراستحصال میں ان کا نمائندہ و محافظ ہے۔
10- جب یہ طبقات اپنی کمائی سے ٹیکس دیں گے، تو پھر ان کے اندر ریاست کے ایک تڑپ بھی پیدا ہوگی۔ جب قرض کی رقومات سیاسی قماربازیوں کےلیے استعمال ہوتی تھیں تو عوام سمیت تمام طبقات اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے تماشہ گر ناخداوٗں کی تعریف و توصیف کرتے تھے۔ اب جب اپنے خون پیسنے کی کمائی ٹیکس کی صورت میں سرکار کے پاس جائے گی، اور کوئی اس کمائی کو اپنے اللے تللوں میں اڑائے گا تو پھر پتہ لگے گا کہ کس کا تیر، کس کا شیر، اور کس کا بلا چلتا ہے۔
11- عام عوام سے التماس ہے کہ ریاست اچھی ہے یا بری، اس کے قوانین کی پاس داری، بطور شہری آپ کا فرض ہے۔ ان متحارب طبقات کے مفادات کےلیے اپنی بیوقوفی سے ان کا آلہٗ کار بننے یا ان کے ہاتھوں استعمال ہونے سے اپنے آپ کو، اور اپنے بچوں اور خاندانوں کو بچائیں۔ اپنے قومی فرائص کا شعور حاصل کریں، اور ریاستی قوانین سے متحارب ہونے کی بجائے ان کی پاسداری کریں۔