ملک میں کمر توڑمہنگائی اور تباہ حال کسان
ملک کے ہر چیز کو اتنا زیادہ مہنگا کیا گیا کہ عام آدمی کے پہنچ سے باہر ہے لیکن کسان وہ واحد مظلوم ہے کہ اس کے اجناس کو مارکیٹ میں بطورِ مزاق نیلام کیا
ملک میں کمر توڑ مہنگائی اور تباہ حال کسان
تحریر؛ سعد اللہ مری بلوچ، سبی بلوچستان
انسان اپنی ابتدا سے ہی محنت سے اپنی زندگی کی خوشیاں کشید کرتا آیا ہے اور یہ دنیا انسانی محنت سے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ ابتدا سے ہی انسانوں کی جملہ راہ نمائی کے لیے ہر دور میں انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لاتے رہے۔انھوں نے بنیادی پیشے ایجاد کیے، انسانی عقلوں کو غوروفکر کی دعوت دی ۔ لیکن ہر دور میں ان کا مقابلہ مفادپرست حکمراں طبقات سے ہوا ۔ وہ چاہے وہاں کی مقتدرہ ہو یا پھر بوسیدہ مذہبی طبقہ۔ یہی کچھ نمرود اور اس کے معاونین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، اور فرعون قارون اور ہامان نے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا، اس کا انجام سامنے ہے۔ اور اپنی بھلائی کے پروگرام سے جان بوجھ کر انکار کرنے والے گروہ نے خاتم الانبیاﷺ کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا ۔ غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا مشن واضح اور دو ڈوک ہے۔خدا پرستی اور انسان دوستی (بلاتفریق رنگ ،نسل مذہب ،جغرافیہ) اور خلق خدا کو انسانوں کی غلامی سے آ زاد کر کے صرف اللہ کی غلامی کے طرف لانا ۔
ہرقل روم کے نام خط میں آقائے دو جہاں نے واضح تحریر فرمایا ہے کہ ظالمانہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دَبے ہوئے کسانوں کی تباہی اور ان کے گناہوں کا ذمہ دار حکمران وقت ہے ۔
چوں کہ ظالم حکمراں طاقتوں کی انسانوں پر حکمرانی کا مطلب محض ان کو محکوم بنا کر اپنے عیاشی کو طول دیناہوتا ہے جو دین اسلام میں ایک بہت بڑا جرم ہے اور یہ بھی ایک مسلم امر ہے کہ ان کا یہ لوٹ کھسوٹ کا سسٹم زیادہ دیر نہیں چلتا ۔ ظلم فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ اس لیے اس کی مخالفت جاری رہتی ہے اور یوں ملکی نظام اس قابل نہیں رہتا کہ بیرونی حملوں کا مقابلہ کرسکے۔ اسی لیے انبیائے کرام علیہم السلام عدل کے نظام کی دعوت دیتے ہیں۔
76 سالوں سے ہمارے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے جو فرعون، قارون، ہامان نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا یا پھر سامراج نے برصغیر پاک وہند کے لوگوں کے ساتھ کیا۔ اس نظام کا اصل مقصد آج بھی وہی ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا۔ محض شراب پر شہد کا لیبل لگا دیا گیا ہے،جس سے عوام کا خون چوسنا مزید آسان ہوا۔اورہرطرف لوٹ کا بازار گرم ہے مثلاً
جو بجلی کا استعمال کرے،وہ اتنا بل ادا کرےجو ہم کہیں،قطع نظر اس کے کہ کتنا بل درست ہے اور کتنا غلط، ہمیں بس پیسے سے سرو کار ہے، نہ اس سے کہ کتنے یونٹ چلے۔ اور آپ میں کتنی سکت ہے۔چوں کہ سرمایہ داروں کے چیزوں کا ریٹ ان کی مرضی کاہوتا ہے، اس میں چیز کی حقیقی قدروقیمت کے بجائے سرمایہ دار کا اپناہدف ہوتاہے۔یہی حال یہاں کی اشیائے خوردونوش کا بھی ہے، جن اشیا کا تعلق ساہوکار کمپنیوں سے ہے، ان کا ریٹ تو کم ہونے کا نام بھی نہیں لیتے، جن چیزوں کو یہاں کا کسان دن رات مہینوں محنت و مشقت کر کے مارکیٹ میں لاتا ہے، اسے اپنی چیز کی حقیقی قیمت اور اپنی بنیادی ضرورت کے تحت قیمت متعین کرنے کااختیار نہیں ہوتابلکہ سرمایہ دار اس کی چیز کی قیمت کاتقررکرتاہےبھلےکسان کو اس چیز کی اصل لاگت بھی نہ ملے-بلکہ وہ کوڑیوں کے دام بکتی ہے یا پھر ضائع ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر سرمایہ دارانہ نظام کا قانون طلب و رسد بھی خاموش نظر آتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بیچارے کسان کے پاس کسی اور کا مال ہے، وہ ریٹ کا ایک روپیہ بھی اوپر نیچے نہیں کرسکتا ہے۔ وہ اتنا بے اختیار ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ بات مشہور کرائی گئی کہ ریٹ اور موت کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔
ستم بر ستم تو یہ ہے کہ اسی فصل کا بیج وہ بڑے بڑے سیڈ کمپنیوں سے مہنگے داموں سے خرید چکا ہوتا ہےاور بوائی سے لے کر مارکیٹ لانے تک وہ اپنی فصل کے حوالے سے بالکل بے خبر ہوتا ہے کہ اس کا کیا ریٹ ہوگا۔
ہم اپنے علاقے کی بات کرتے ہیں،مثال کے طور پر ایک سال پیاز کا ریٹ اتنا بڑھا کہ مارکیٹ میں اس کو آتے ہی خریدا گیا، جب اسی زمین دار نے اگلی دفعہ کئی ایکڑ اراضی پر پیاز کاشت کیا توفصل آنےپراسے کوئی لینے کو تیار نہیں تھا۔ کسان بے چارہ اس نقصان کو کئی سالوں تک بھگتتا رہا۔ یہی حال اس سال کی گندم کا ہوا۔ بوقت کاشت ڈی اے پی کا فی بوری یعنی 50کلوگرام 14000 ہزار اور یوریا 9000 ہزار روپے تک خریدا گیا اور پھر جان بوجھ کر اس کی قلت کرائی گئی۔ اس ناروا سلوک کے خلاف ہڑتال اوراحتجاج کے بجائے خود دکان داروں سے لیتے وقت منتیں کی جارہی تھیں۔ ہمارے ہاں تو اے سی، ڈی سی سے پرچیاں تک لینا پڑیں، وَجہ یہ بتائی گئی کہ دکان دار ضلع سے باہر کھاد لےجاکر مہنگی بیچ رہے ہیں۔
اس ٹوٹکے کے استعمال سے مرض بڑھتا گیا اور کسان کو کھاد پھر بھی مہنگی ملی۔ گھر انھی کے اُجڑ گئے، جو نان جویں کے محتاج تھے، مہنگائی فروش پھر بھی بچ گئے۔
مظلوم کسان کویہ امید دلائی گئی کہ چند دنوں بعد گندم کی قیمت بڑھے گی،اور نقصان کا ازالہ ہوجائےگا۔
جب وہ وقت آیاتو کسان اپنی گندم مارکیٹ میں لے آ یا۔ اس کو پتہ نہیں تھا کہ اب ماضی سے بھی بڑھ نقصان اس کامنتظر ہے۔ یوکرین کا سڑا ہوا گندم یہاں کے فریش مال کو بہا لے جائے گا۔ اَب چوں کہ ہمارےمعاشی قانون کے مطابق کسان کے ریٹ اور موت کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، لہٰذا ریٹ گرگیا۔
اَب یاتو کوڑیوں کے دام بیچو یا پھر گھر لے جاؤ۔ گندم جیسا اعلیٰ اناج اس ملک کی مارکیٹوں میں لوگوں نے اتنا ذلیل ہوتے دیکھا، جتنا 6ماہ پہلے کھاد لینے کے لیے کسان کو۔اس سے انتظامیہ کی سوچ کا اندازہ بھی لگائیں، کہتے ہیں گندم چوں کہ کھانے کی چیز ہے۔ اس سےعام آدمی کو فائدہ ہے، اس لیے اس کا سستا ہونا اچھا ہے۔ اَب سوال تو یہ بنتا ہے کہ اگر آپ کو اتنا زیادہ حاتم طائی بننے کا شوق ہے تو پھر صرف کسان کی گندم کیوں سستی ہے ۔
کھاد، کیڑے مار اسپرے دیگر زرعی آلات کے ریٹ کو بھی کسان پر چھوڑ دیا جائے، تب کسان کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
کمپنیوں کی ادویات، بیج اور دیگر اشیائے خوردونوش یہاں کے برہمن ، کسان اور اس کا مال شودر ہے۔
گزشتہ سال جو گندم کا ریٹ بڑھاد یا گیا تھا وہ احسان بھی اس وقت ہوا، جب بے چارے کسان کے ہاتھ سے گندم نکل چکی تھی۔ چند ماہ بعد وہی گندم اسی کسان کو دگنی قیمت پر لینا پڑی۔ صرف گندم اور پیاز کیا، یہی کہانی گنا اور دیگر سبزی جات کا بھی ہے۔ پھر جس قدر شرف چینی کو بخشا گیا کسی اور کو شاید نصیب نہیں ہوا۔ دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے، لیکن چینی کا ریٹ کم کرنا، تذلیل انسانیت سے بھی بڑا جرم ہے۔ دو سالوں میں بہ مشکل 50 کلو 7300 سے محض 50 روپے کم ہوئی۔
ہم بہ حیثیت قوم اتنےبےحس ہیں کہ اپنی اشیا کی نیلامی میں اتنی پریشانی نہیں ہوتی، جتنی خوشی پٹرول کے قیمت کی آنکھ مچولی میں ہوتی ہے کہ 3 ماہ کے عرصے میں فی لیٹر پر 150 روپے مہنگا کرکےصرف تین دن 5روپے کم کرکے دنیا بھر کا ایوارڈ جیتنے کے مترادف ہے ۔
اسی طرح بازار میں ہر آئے دن انتظامیہ پوری ٹیم کو لے کر کھلے دودھ کے ہر برتن میں لیکٹو میٹر ڈبو رہا ہوتا ہے اور پھر پورے بازار کی سڑکوں پے دودھ کے نہریں جاری ہونے لگتی ہیں۔
کیا کبھی کسی ٹیٹرا پیک دودھ اور پانی کی چیکنگ کی ہے کہ وہ مہنگے داموں میں ہمیں کیا پلا رہی ہے ؟
یہ دھرا معیار کیوں ؟
چلو مان لیا کہ اناج، سبزی جات اور دودھ کھانے پینے کی اشیا ہیں، ان کا سستا ہونا اچھا ہے، لیکن کپاس تو کھائی بھی نہیں جاتی، اس کا صرف 10 کلو بیج بازار میں 5000 روپے سےلے کر 12000 روپے تک مل رہا ہوتا ہے، جس کے اُگنے اور نہ اُگنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، جب کہ کسان کی کپاس چھ سات ماہ بال بچوں سمیت لگاتار محنت کے باوجود بہ مشکل 40 کلو 8000 تک بکے گی اور اس سے ہرقسم کی گارنٹی لی جاتی ہے، چنائی صاف ہو، کسی قسم کی نمی وغیرہ ہونے کی صورت میں رقم کاٹ لی جائے گی ۔اور پھر اسپرے کے نام پر گرمی کے چھ ماہ میں کسان کی کمر پر اسپرے کا ٹینک ایسا لٹک رہا ہوتا ہے، جیسے لاڈلا بیٹا باپ کے کندھے پر۔
مثلاًسبز تیلا کا اسپرے کیا، تو لامحالہ اگلے ہفتے میں سفید مکھی کا نمبر پکا ہے۔یہ سلسلہ کولہو کے بیل کی طرح فصل پکنے تک چلتا رہے گا۔جڑی بوٹی مار اسپرے کی تو شان ہی نرالی ہے، جب ایک مرتبہ سپرے کرلیا تو اگلی دفعہ ایسےبے شمار کانٹوں اور پھولوں سے لدے پودوں کا نظارہ نصیب ہوگا کہ نہ کبھی آنکھوں نے دیکھے نہ کا نوں نے سنے۔کیا ہم جس سائنسی ترقی کا گیت گاتے تھکتے نہیں وہ یہی کچھ ہے ؟یہ سوچنے کا مقام ہے۔
الغرض! اس سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کم از کم ہمارے نوجوانوں کوقومی نفع نقصان کا شعوری بنیادوں پر علم ہونا چاہیے۔اور کسی چیز کے معیاری اور غیرمعیاری ہونے کے بارے میں کسی خوب صورت پیکنگ سے مرعوب ہونےکے بجائے اسے عقل اور صحت کے اصولوں سے سمجھنا چاہیے۔
ایک صالح معاشی نظام اور اس کے اصولوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ایک ایسی جماعت حقہ کو تلاش کریں جومروجہ مفادات اور دھوکے کی سیاست سے ہٹ کر مسائل کا حقیقی اور مکمل حل پیش کرے۔