قرضوں کی معیشت اور پاکستان کا بجٹ
پروفیسر رحیم بخش سومرو،شاہ عبداللطیف یونیورسٹی۔ خیرپور
انسان ضرورتوں کا پتلا ہے اور مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے انسان پیسہ کمانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح ہر ملک کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے ملک مقامی اور بین الاقوامی مالیاتی اور غیرمالیاتی اداروں سے قرض لیتا ہے۔ معاشی طور پر طاقت ور ملک امریکا بھی کئی ممالک کا مقروض ہے۔ سی این بی سی نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے اندرونی قرضوں کا کل حجم 34 ٹریلین ڈالر ہے۔ ہر 100 دن بعد اس کے قرض میں ایک ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فیڈرل ریزرو اور امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق، 2023ء تک امریکا پر بیرونی قرضوں کا کل حجم تقریباً 25 ٹریلین ڈالر ہے، اور اس میں سب سے زیادہ حصہ جاپان کا ہے۔اس کے بعد چین، برطانیہ، لگزمبرگ کا نمبر آتا ہے۔ ان معلومات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر ملک دوسرے ممالک سے پیسہ لیتا ہے اور قرض لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ قرض ملکی معیشت کے لیے اس وقت خوف ناک ہو جاتا ہے، جب اسے غیرپیداواری اخراجات ،حکمرانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیوں پر خرچ کیا جائے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے عام لوگوں پر مختلف بالواسطہ ٹیکس عائد کیے جا ئیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو قرض لینے کی ضرورت کیو ں پڑ تی ہے؟
جس کا جواب ہے ؛ کہ ہر سال حکومت اگلے مالی سال کا بجٹ جون میں پیش کرتی ہے۔ بجٹ بنیادی طور پر ایک مخصوص مدت کے لیے کسی گھرانے یا ملک کی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے۔ جب اخراجات آمدنی سے زیادہ دکھائے جائیں تو خسارے کا بجٹ کہلا تا ہے اور حکومت بیرونی اور اندرونی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی کوشش کرتی ہے۔محض مسلسل قرض لینے سے ملکی معیشت کمزور ہوجاتی ہے۔ غیرملکی قرضوں میں آئی ایم ایف، براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری، ایشیائی ترقیاتی بینک، پیرس کلب اور دیگر ملکی اور غیرملکی مالیاتی ادارے شامل ہیں۔ صرف آئی ایم ایف سے قرضوں کا بوجھ 2.14 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر واجبات بہ شمول اندرونی اور بیرونی تقریباً 27.5 فی صد یعنی 4.63 کھرب روپے ہیں۔ دسمبر 2023ء تک پاکستان پر مجموعی بین الاقوامی قرضہ 131 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ یہ قرض کل مجموعی پیداوار کے تقریباً 42 فی صد کے برابر ہے۔ ملک کے مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ جون اور جولائی کے مہینوں میں پاکستان کے ذ مہ واجب الادا قرض تقریباً 10 ارب ڈالر ہیں ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور جی ایس گلوبل ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کو اگلے 12 ماہ میں تقریباً 27.52 بلین ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں۔ حکومت نے اپریل کے مہینے میں اسٹینڈبائی معاہدے کے تحت آئی ایم ایف سے 3 ارب روپے کا قرضہ بھی حاصل کیا تھا۔ وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف سے اگلے چار سال کے لیے 6 سے 8 ارب ڈالر قرض لے گی۔ گزشتہ جون اور جولائی میں پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دیگر دوست ممالک سے بھی تقریباً 3 بلین ڈالر کا قرضہ لیا۔ حکومت اتنی بڑی رقم کیسے واپس کرے گی، جب کہ پاکستان کا کل زرِمبادلہ صرف 10 ارب ڈالر ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی پاکستان کو 500 ملین ڈالر کی پہلی قسط کی منظوری دے دی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے مقابلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک کا قرضہ بہت مہنگا ہے۔ اس قرض پر سود کی ادائیگی 2 سے 6.5 فی صد ہے۔ حال ہی میں وزیرمملکت علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ امسال وفاقی بجٹ آئی ایم ایف نے تیار کیا ہے ۔ قرضوں کے کچھ مختصر اور پریشان کن اعدادوشمار ہیں جو مختلف حکومتوں نے اپنے دور میں لیے ہیں۔
آئندہ بجٹ میں فیڈرل بیورو آف ریونیو نے 12900 ارب روپے تک ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے اور یہ رقم گزشتہ سال کے مجموعی ہدف سے 40 فی صد زیادہ ہے۔ حکومت آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کا قرضہ لینا چاہتی ہے اور اس قرض کی شرائط عام لوگوں، تنخواہ داروں اور محنت کش طبقے کے لیے معاشی طور پر بہت تباہ کن ہیں۔ آئی ایم ایف کے حکم پر حکومت اشیائے صرف پر 18 فی صد ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک اور شرط یہ ہے کہ حکومت تمام اعانتیں یعنی ٹیکس رعایتیں واپس لے۔ اس شرط کے مطابق حکومت کو ادویات اور کھانے پینے کی اشیا سمیت روزمرہ استعمال کی مختلف اشیا پر 1500 ارب روپے کی چھوٹ واپس لینا ہوگی،جس کا مطلب ہے کہ 1500 سے زائد ٹیکسوں کا بوجھ عام لوگوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ آئندہ بجٹ میں حکومت غیرملکیوں پر اضافی ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس بھی عائد کرنا چاہتی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو سولرپینلز پر بھی ٹیکس لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو تنخواہ دار اور غیرتنخواہ دار طبقے پر یکساں ٹیکس لگانے اور تنخواہ کو ذاتی آمدنی تصور کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ اس سخت شرط سے تنخواہ دار ملازمین پر ٹیکس کی شرح مزید بڑھ جائے گی۔ اسی مالیاتی ادارے نے بھی حکومت سے ٹیکس سلیب کو 5 سے کم کرکے 4 کرنے کا مطالبہ کیا ہے،جس سے ملازم طبقے پر ٹیکس کا بوجھ بڑھے گا۔ آئی ایم ایف نے ان پنشنرز کی پنشن پر ٹیکس لگانے کی تجویز بھی دی ہے، جن کی پنشن ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس بجٹ میں آئی ایم ایف کے حکم پر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 سے 20فی صد تک اضافہ تجویز کیا ہے۔تنخواہ میں اضافہ ملک میں مہنگائی کی موجودہ شرح سے کئی گنا کم ہے۔
معاشی صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑا ہو ا ہے ۔کل قرضہ، مجموعی ملکی پیداوار کے 80 فی صد کے برابر ہے،جس کی وَجہ سے ملک سابقہ قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے قرض لینے پر مجبور ہے۔ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ میں 1.5 فی صد کمی کا اعلان کیا تھا اور اَب پالیسی ریٹ 20.5 فی صد ہے۔ پالیسی ریٹ یعنی شرح سود اَب بھی بہت زیادہ ہے، جس سے اندرونی ذرائع سے قرض لینا بہت مہنگا ہوجاتا ہے۔ 2019ءسے، سود کی ادائیگی 4.8 فی صدسے بڑھ کر 7فی صد ہوگئی ہے۔ حکومت عام لوگوں پر متعدد براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی جارہی ہے،جن میں بجلی اور پیٹرولیم مصنو عات ،ایل پی جی اور گیس وغیرہ شامل ہیں ۔ ان پر ٹیکس عائد کرکے حکومت قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے رقم استعمال کرے گی ۔
عام آدمی پر اس کے بہت منفی اَثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔کیوں کہ بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں استعمال ہو رہا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق ملک میں غربت کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے ۔غربت کی شرح شہری علاقوں میں 40 فی صد اور دیہی علاقوں میں 50 فی صد ہے۔ 26فی صد شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، 50فی صد لوگ تعلیم سے محروم ہیں، جب کہ 25فی صد لوگ طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی قرضوں کی وَجہ سے یہ مزید معاشی جھٹکے برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ عوامی بہبود کے لیے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ۔ یہاں تک کہ سرکاری افسران اور سیاست دانوں کی طرف سے فلاحی اسکیموں اور منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں ہورہی ہیں ۔ اس افسوس ناک صورتِ حال کی بنیادی وجوہات میں غیرپیداواری حکومتی اخراجات، ٹیکسوں کی ناکافی وصولی، سود کی بلند شرح، مینوفیکچرنگ انڈسٹریز کی بندش، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا باعث بن رہی ہے ۔ گڈ گورننس کا فقدان اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکی ہے۔ تشکیل پانے والے معاشی ڈھانچے کے باعث وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہو نے سے اکثریت محروم ہورہی ہے۔غربت کا جبڑا مزید کھلتا جارہا ہے ۔ ارتکازِ دولت کے معاشی نظام کے تدارک کے لیے اسلام چار اقتصادی اصول پیش کرتا ہے، جن کی روشنی میں جدید معاشی نظام استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے،جس سے خوش حالی پیدا ہو کر عوام کے اجتماعی اخلاق سنور سکیں گے۔