انسان کیا ہے ؟ نظاموں کے تناظر میں ایک جائزہ
انسان کیا ہے ؟ نظاموں کے تناظر میں ایک جائزہ
انسان کیا ہے ؟ نظاموں کے تناظر میں ایک جائزہ
تحریر: حذیفہ بٹ۔ ناروال
اسلام كا اقتصادی( معاشی ) نظام، نبوی تعليمات پرمبنی ایک ایسے جامع نظام حیات کا جز (حصہ ) ہے جو انسانیت کے تمام پہلوؤں پرحاوی اور فطرت انسانی کا مکمل ترجمان ہے۔ اس لیے اسلام کے معاشی نظام میں بھی فطرتِ انسانی کے تمام تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔انسان کیا ہے ؟ انسان دیگر حیوانات کی طرح محض ایک حیوان نہیں ہے ، بلکہ انسان کو خالق کائنات نے حیوانی تقاضوں ( بھوک ، پیاس ، سردی ،گرمی کا احساس وغیرہ ) کے ساتھ ایک خاص قسم کی روح اور عقل بھی عطا کی ہے ۔ مادی یا حیوانی تقاضوں کے ساتھ اس روح اور عقل کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور وہ ہیں قرب الہٰی اور اخلاقِ فاضلہ کا حصول۔ اس لیے اسلام کے معاشی نظام میں انسان کے تمام حیوانی (مادی) تقاضوں کے ساتھ ان روحانی تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔
جب کہ دیگر دونوں نظاموں ( سرمایہ داریت اوراشتراکیت )کی بنیاد محض مادیت پر ہے، ان دونوں نظاموں نے انسانیت کے روحانی پہلو کو بالکل نظرانداز کردیا اور انسان کو محض ایک حیوان قرار دیا ہے اور جہاں تک ان دونوں نظاموں کے آپس میں تقابل کا تعلق ہے توان میں سے سرمایہ دارانہ نظام نے سارا فوکس سرمائےپر کیا ہے، اورشخصی آزادی کے نام پرافراد کی انفرادی ملکیت کو اتنا آزاد اور بے لگام چھوڑا کہ چند طاقت ور افراد کی آزادی نے ساری انسانیت کی آزادی سلب کرلی،اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ملکوں میں چند سرمایہ دار افراد نے اپنے عوام اور طاقت ور ملکوں نے کمزور ملکوں کے سارے وسائل معیشت پر قبضہ کر کے عام انسانوں کو بنیادی ضروریات اوربنيادی حقوق سے بھی محروم کردیا اور ابھی بھی سرمایہ داروں كی ہوس سرمایہ پرستی کہیں تھمنے کانام نہیں لے رہی، اور سرمایہ دارافراد و اقوام کمزورافراد اوركمزور اقوام کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ نچوڑنے کے لیے دن رات نئی سے نئی تدبیریں اور سازشیں کرنے میں لگے ہوے ہیں،جس کے لیے سود در سود اور ظالمانہ ٹیکسز کا ایک لامتناہی (ختم نہ ہونے والا) سلسلہ قائم ہے اور احتکار واکتناز ( ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی اور سرمائےکاارتکاز) کرکے عام ضروریات زندگی عام انسان کی دسترس سے دور کرنے اور وسائل معیشت پر قبضہ کرنے کے لیے انسانیت کش اور حیاسوز بد ترین جرائم کا بازار گرم ہے، یہ سب کچھ نتیجہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کے سرمایہ ہی کو سارے نظام کا محور و مقصود قرار دینے کا۔
اشتراکیت ؛ سرمایہ داریت کے ظلم اور استحصال کے ردِعمل میں کارل مارکس کا بنایا ہوا اشتراکیت کے نام پر جو نظام وجود میں آیا، اس نے بھی انسانیت کے روحانی پہلو کو یکسر نظرانداز کر کے انسان کومحض ایک حیوان قرار دے کر جونظام وضع کیا، اگر چہ اس نے اِنفرادیت کے بجائے انسانیت عامہ اور اجتماعیت کو اپنے نظام کی بنیاد بنایا، لیکن محض مادیت پر مبنی ہونے اور روحانیت کو نظراندازکرنے کی وَجہ سے اس میں اعلیٰ انسانی اقدار ( جوکہ انسانیت کااصل جوہرہیں) نظرانداز ہوگئيں۔
دوسری طرف (چوں کہ سرمایہ داریت کا سارا ظلم لامحدود اِنفرادی ملکیت اور بدترین طبقاتیت کی وَجہ سے تھا) تو اس کے ردِعمل میں اشتراکیت میں اِنفرادی ملکیت اور درجات معیشت کی بالکل نفی کردی گئی، جس کے نتیجہ میں ( شروع شروع میں) اشتراکی ملکوں کی اجتماعی معیشت بھی متاثر ہوئی اور اس تلخ تجربے کے نتیجے میں فطرت انسانی کے اس پہلو ( کہ خالق کائنات نے افراد انسان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں میں جو تنوع اور ورائٹی رکھی ہے اورمسابقت صالحہ بھی انسانی فطرت کا جزو لازم ہے اوریہ دونوں اجتماعی ترقی کی بنیاد ہیں ) کے سامنے اشتراكيت كو اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی اور (محدود ) اِنفرادی ملکیت اور درجات معیشت میں توازن کو بھی قبول کرنا پڑا، لیکن ابھی فطرت انسانی کے دوسرے اہم تقاضے كی کمی ان کے ہاں باقی ہے، جس کی وَجہ سے وہ انسانی معاشرے کی کامل راہ نمائی سے تاحال قاصر ہے، اور جب تک دین اسلام کے دیے ہوئے ( جامع اور کامل اور فطرت انسانی کے ترجمان ) نظام حیات کو اختیار نہیں کیا جاتا، انسانیت کے روگ ختم نہیں ہوسکتے۔
اور اس کے لیے انسانیت کے دشمن (نظام سرمایہ داریت) کے مکمل خاتمے اور انسانیت کے ناقص نظام ( اشتراکیت ) کی مکمل اِصلاح کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
اور چوں کہ دین اسلام خود ایک کامل و اکمل اور فطرت انسانی کے تمام روحانی اور مادی کی تکمیل کا نظام رکھتا ہے۔ اس لیے ایک مسلمان جماعت کو کسی دوسرے باطل انسانيت دشمن ( سرمایہ داریت ) یا کسی ناقص نظام (اشتراكيت ) سے کچھ بھی لینے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ ایک مسلمان کا یہ سوچنا کہ فلاں بات فلاں نظام کی اچھی ہے ،لہذا یہ ہمیں اس سے لے لینی چاہیے ، ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت عطا فرمائي ہو اوروه اپنے گھر میں موجود یہ سوچتا پھرے کہ میں فلاں چیز فلاں ڈاکو یا فلاں بھکاری سے لے آؤں ۔
جوکچھ یہاں عرض کیا گیا ہے، یہی قرآن حکیم ، رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی مقدس جماعت ( جماعت صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ) کے اُسوہ حسنہ اورتمام سلف صالحین اور بالخصوص امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒکی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔
اللہ تعالی ہمیں دین فطرت دین اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے اور اپنے اجتماعی نظام کی بنیاد بنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!