ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ہماری ترجیحات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ہماری ترجیحات

    ملکی زراعت کو پیش نظر مسائل اور انکی وجہ بیرونی کمپنیوں کی غیر منصفانہ مداخلت

    By Muhammad Rizwan Ghani Published on Jul 10, 2024 Views 575
    ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ہماری ترجیحات
    تحریر: محمد رضوان غنی آزاد ۔ میرپور آزاد کشمیر

    رواں سال پاکستان آلو کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کے 10 بڑے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کی کل پیداوار تقریباً 80 لاکھ ٹن ہے جو کہ پچھلے سال 50لاکھ ٹن تھی۔جب کہ اس پیداوار میں سب سے زیادہ حصہ پنجاب کا ہے۔اَب اس اضافی پیداوار کے باعث ہمارے ذہن میں ایک ہی بات آتی ہے کہ ہم آلو کی پیداوار میں خودکفیل ہیں۔اسی وَجہ سے رواں سال آلو کی قیمت میں اضافہ سمجھ سے باہر ہے۔ دنیابھر میں جس چیز کی پیداوار میں کوئی بھی ملک خودکفیل ہوتا ہےتو اس کی قیمت اس ملک میں رہنے والے لوگوں کے لیے تو کم ہو تی ہے۔
    پاکستانی آلو کی بے قدری کی ایک وَجہ یہاں موجود ملٹی نیشنل برانڈز سے کیے گئے معاہدے ہیں۔کیوں کہ یہ کمپنیاں پوری دنیا میں اپنے سٹینڈرڈ کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں کی مقامی حکومتوں سے معاہدہ کر کے اپنے کام کا آغاز کرتی ہیں،لیکن جس ملک میں مستحکم سیاسی نظام نہ ہو، وہاں وہ اپنی من مانی سے کام کرتی ہیں۔یہاں اگر ہم میکڈونلڈ کی ہی مثال لیں اور اس کا موازنہ اپنے ہمسایہ ملک سے انڈیا سے کریں،جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا، تو یہ بات واضح ہوجائے گی۔
    میکڈونلڈ نے 1996ء میں جب ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں کاروبار کا آغاز کیا تو اس کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں سب سے پہلی شرط یہ رکھی گئی کہ اس کاروبار میں استعمال ہونے والی کوئی اشیا بھی برآمد نہیں کی جائیں گی، بلکہ یہیں اس کی پیداوار کو ممکن بنایا جائے گا۔ اَب میکڈونلڈز کے صرف فرائز کی بات کریں،جس میں آلو ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے سٹینڈرڈ برقرار رکھنے کے لیے آلو کے سائز کو ایک خاص حد تک بڑھانا ہوتا ہے، تب کہیں وہ اپنے معیار پر پورا اُتر سکتے ہیں۔اس طلب کو پورا کرنے کے لیے طے یہ پایا کہ ہماچل پردیش میں اس کی کاشت کی جائے گی،جس میں استعمال ہونے والی ادویات یہ فوڈکمپنی خود مہیا کرے گی۔نیز کاشت یہاں کے مقامی افراد ہی کریں گے۔گویا میکڈونلڈز کو پہلا برگر بیچنے سے پہلے تقریباً 500 ملین کا خرچہ اُٹھانا پڑا،یہی نہیں ہماچل پردیش ایک مشکل سرزمین ہے، جہاں سے آلو کی پیداوار کے بعد اس کو مقامی آؤٹ لیٹس پر پہنچانا اور پھر اس کے لیے آلو کو ایک خاص ٹمپریچر پر فریز کرنے کی ذمہ داری بھی فوڈ کمپنی پر تھی۔گورنمنٹ کے ساتھ یہ معاہدہ جوائنٹ وینچر کی بنیاد پر ہوا۔
    ایک اندازے کے مطابق میکڈونلڈز 68 ملین لوگوں کو روزانہ فوڈ فراہم کرتا ہےجو پوری دنیا کا ایک فی صد بنتا ہے۔اس کے علا وہ ہر ملک میں وہاں کے لوگوں کےمن پسند ذائقہ کی بنیاد پر اپنا برگر بناتا ہے۔میکڈونلڈ ابھی تک 3300 سے زائد آؤٹ لیٹس بنا چکا ہے جو 117 ممالک میں موجود ہیں۔یہ ایک امریکی کمپنی ہے جو پچھلے عرصے میں اسرائیلی فوج کو مفت کھانا بھی مہیا کرتی رہی ہے۔اس کی آمدنی تقریباً 5.5 بلین سے زائد ہے، ایسی کمپنیوں کے لیے کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہےاور ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ کمپنیاں مفید ہوسکتی ہیں،اگر یہاں آزاد و مستحکم سیاسی نظام موجود ہو۔ 
    اَب اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں چوں کہ مفادپرست اور قومی سوچ سے عاری اشرافیہ تمام فیصلے کرتی ہے جو کبھی یہ نہیں سوچتی کہ ایک بیرونی کمپنی کے آنے سے مقامی مارکیٹ پر کیا فرق پڑے گا۔کچھ لوگوں کو روزگار تو ملے گا،لیکن اس کے بدلے اربوں روپے وہ کمپنی سرمایہ کما کر باہر لے جاتی ہے۔پاکستان میں بھی 1978ء میں میکڈونلڈز کو آفر کی گئی کہ پاکستان میں اپنا آؤٹ لیٹ بنائے، لیکن یہاں سیاسی عدم استحکام کی وَجہ سے وہ اس پر راضی نہیں ہو ئی۔ بعد ازاں انھوں نے اپنی شرائط پر ہی یہاں کام کا آغاز کیا، جس میں اہم بات ان کے عالمی سٹینڈرڈ کی تھی، جس کے لیے آلو کی پیداوار میں خودکفیل ملک،آلو برآمد کرنے پر راضی ہوگیااور آج ان فوڈ کمپنیوں کے سٹینڈرڈ کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان 9ملین ڈالر کے آلو برآمد کرتا ہے جو انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ہم باہر سے آئی کمپنیوں کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔ اس سے مقامی کسان کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟
    برصغیر کا یہ خطہ پیدائش دولت کے حوالے سے ہمسایہ ممالک سے بہت مماثلت رکھتا ہے اور اگر اس کی زمین کو بھی مو زوں سمجھا جائے تو یہاں ہر قسم کی پیداوار کو ممکن بنایا جا سکتا ہے، لیکن ایسا کون کرے گا۔ باہر سے آئی کمپنیاں تو پابند ہوتی ہیں،ملکی معاہدات کی،لیکن اگر معاہدہ کرنے والے ہی ان کمپنیوں کے بزنس پارٹنر ہوں تو پھر کون ہے جو ان کو پوچھے گا کہ ملکی زرمبادلہ کیوں باہر منتقل کیا جارہا ہے۔کیوں یہاں کے کاشت کار پر ظلم روا رکھا جا رہا ہے، کیوں ایسی کمپنیوں سے معاہدات کر کے مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے۔آج اگر ہم کچھ جزوی معاملات پر مشتعل ہوکر اپنی بات منوا بھی لیں تو کیا اس کا اثر پورے حکومتی ڈھانچے پر پڑے گا؟ایسا نہیں ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ کلی طور پر پورے نظام کی کارستانیوں کا علم ہو، کیوں کہ جب جب ملکی معیشت آزاد ہوتی ہے تو اس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی بہترین ہو جاتی ہے اور جب یہ معیشت کا گول چکر چند خاندانوں تک محیط ہو جاتا ہے تو اس کا نقصان پوری قوم اُٹھاتی ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری کو ملکی مفاد میں تبدیل کرنے کے لیے زیادہ دور نہیں تو ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے یہ بات سیکھ سکتے ہیں کہ کس پالیسی اور کس حکمت عملی سے ہم اپنی پیداواری قوت کو بڑھا سکتے ہیں۔ کیسے ہم گھریلو صنعت کو فروغ دے سکتے ہیں، شرط واضح کہ ہمیں اِنفرادی و گروہی سوچ سے نکل کر قومی سطح پر سوچنا ہو گااور قومی سوچ کی حامل قیادت پیدا کرنی ہوگی۔کیوں کہ موجودہ مسلط قیادت بیرونی قوتوں کی آلہ کار قومی مفاد کی سوچ سے عاری ہے۔
    Share via Whatsapp