بجٹ 2024-25: عوام پر ٹیکسز کا معاشی بوجھ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بجٹ 2024-25: عوام پر ٹیکسز کا معاشی بوجھ

    مالیاتی پالیسیز میں عوام کے لیے ٹیکسز اور مقتدرہ اور اشرافیہ کے لیے اربوں روہے کی مراعات ہیں۔

    By Fahad Muhammad Adiel Published on Jun 22, 2024 Views 1201

    بجٹ 2024.25ء:  عوام پر ٹیکسز کا معاشی بوجھ

    تحریر: فہدمحمد عدیل۔ گوجرانوالہ 


    ہر سال کی طرح اس سال بھی وفاقی حکومت نے مالیاتی پالیسی پر حکومتی اعداد و شمارکا زائچہ بجٹ کی صورت میں پیش کیا۔ ہرحکومت بجٹ تقریر میں عوام کو ایسے سہانے خواب دکھانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے کہ جیسا اس سے پہلے معاشی منصوبہ نہ تو کسی نے پیش کیا اور نہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ مگر حالات یہ ہیں کہ گزشتہ 77 برسوں میں عوام کو غربت ، بے روزگاری اور افلاس میں دھنسانے کی بڑی وَجہ یہی حکومتی معاشی پالیسیز اور محنت کش عوام پر ٹیکسز کی بھرمار ہے۔

    بجٹ میں وفاق کے اخراجات کا تخمینہ 18,877 ارب روپے کے قریب ،جب کہ سود اور قرضوں پراخراجات کا تخمینہ 9,775 ارب روپے ہے ۔ پاکستان کے ذمے اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کا حجم 131 بلین ڈالرز ہیں، جن میں سے 7.6 بلین ڈالرز آئی ایم ایف کے واجب الادا ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر مالیاتی  اورتجارتی پالیسیز پر اثر انداز ہونے والا ادارہ صرف آئی ایم ایف ہے۔ پاکستان میں بجلی ، گیس، پیٹرول کی قیمتیں غرض یہ کہ ٹیکسز کی شرح کے تعین سے لے کر اداروں کی پرائیویٹائزیشن تک ہر سطح پر آئی ایم ایف اثر انداز ہوتا ہے،جب کہ آئی ایم ایف کا اعلانیہ مقصد ممبر ممالک میں معاشی نمو میں استحکام اور خوش حالی کا قیام ہے، مگر پاکستان کی تاریخ میں دسمبر 1958ء کے پہلے اسٹینڈبائی ایگریمنٹ سے لے کر سال 2024ء کے بیل آوٹ پیکیجز کے نتیجے میں ملک میں لگ بھگ 40 فی صد(دس کروڑ افراد سے زائد انسان) خط غربت سے نیچے جا چکےہیں، اندرون سندھ غربت کی شرح85 فی صد تک ہوچکی ، عوام کے پاس بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ انفراسٹرکچر نام کی ملک میں کوئی چیز نہیں۔ ہر بجٹ آئی ایم ایف کے ماہرین کی زیرنگرانی بنتا ہے، مگر پھر بھی بلاواسطہ ٹیکسز کی شرح 42 فی صد اور قومی خزانہ کے 58 فی صد حصہ محنت کشوں، مزدوروں اور عوام الناس کی جیبوں سے سیلزٹیکس، پٹرولیم لیوی، کسٹم ڈیوٹیز وغیرہ کی صورت میں نکلوا کر ٹیکس کا ہدف پورا کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسز کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک میں مقتدرہ ، جاگیردار اور سرمایہ دار سالانہ 14.7 ارب ڈالرز کی مراعات کے مزے لوٹ رہا ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکم پر موجودہ بجٹ میں 1100 ارب روپے عوام پیٹرول کی مد میں ٹیکسز اور 3850 ارب روپے روزمرہ کی اشیاکی خریداری پر سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادا کرے گی۔ ملک کی قومی آمدنی کا قریباً ایک چوتھائی حصہ زرعی زمینوں سے حاصل شدہ آمدن پرمشتمل ہے، جس پر جاگیردار طبقہ قابض ہے، اس کو اس سال بھی چھوٹ دے دی گئی۔ اس کے برعکس موبائل فون، سیلری انکم اور پٹرولیم مصنوعات جن کے بغیر عام آدمی کی گزر بسر ممکن نہیں۔ اس پر ٹیکسز کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ 

    اگر حکومتی دعوؤں کی بات کی جائے تو اخبارات میں جو راگ الاپا جا رہا ہے کہ معاشی استحکام آرہا ہے اور ملک میں مہنگائی کی شرح 30 فی صد سے کم ہو کر 11 فی صد تک آگئی ہے تو اس کی بڑی وَجہ قومی خزانہ کو 300 ارب روپے کا نقصان پہنچا کر غیرمعیاری گندم یوکرائن سے خریدی گئی۔ اس کے نتیجے میں روٹی کی قیمتوں کو بیوروکریسی اور پولیس کے ذریعے سے کم کروا کر اور پیٹرول میں عالمی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود معمولی کمی کرکے مہنگائی میں کمی کا ڈھونگ رَچایا جا رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک افراط زر میں کمی کی نسبت سےشرح سود میں کمی کیوں نہیں کرتا؟ اس کی شرح میں صرف 1.34 فی صد کمی کر کے 20.66 فی صد پر فکس کی گئی ہے۔ حقیقت میں موجودہ حکومت میڈیا کے ذریعے سے مہنگائی کی کمی کا پروپیگنڈا کر کے موجودہ بجٹ میں سال 2023.2024ء کی نسبت لگ بھگ 3718 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے جارہی ہے ۔ سیلزٹیکس ایکٹ کے چھٹے شیڈیول میں جو آئٹمز مستثنیٰ ہیں ان پربھی 18 فی صد تک ٹیکسز مسلط کرنے، سیلری انکم ، پٹرولیم مصنوعات پر اضافی ٹیکسز سےمہنگائی کا ایک نیا طوفان اُٹھے گا۔ روپے کی قدر میں کمی ہوگی اور محنت کش مزدور طبقات کی حقیقی آمدنی اور قوت خرید کم ہوجائے گی،جس کا نتیجے ہو گا کہ ملک کا ایک بہت بڑا متوسط طبقہ خط غربت سے نیچے چلا جائے گا۔ متذکرہ بالا شیڈیول میں کھانے پینے کی اشیا، جیسا کہ دودھ ، آٹا، چاول، گھی وغیرہ اور اسی طرح وہ اشیا جو امپورٹ ہوکر ایکسپورٹ ہوجاتی ہیں ، کھادوں، ٹریکٹر اور ادویات و آلات پر مشتمل ہے۔ ان اشیا کے ذریعے سے عام صارف سے ٹیکس لیا جائے گا اور روزمرہ کے استعمال کی تمام اشیا کی پروڈکشن کاسٹ بڑھنے سے خودبخود مہنگائی بڑھ جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر پاکستانی خاندان اس وقت اوسطاً تقریبا ساڑھے تین لاکھ روپے سالانہ مختلف مدات میں ٹیکسز ادا کر رہا ہے۔ اس کے عوض نہ تو ملک میں جان و مال کا تحفظ ہے ، نہ صحت، تعلیم ، روزگار، عدل و انصاف، انفراسٹکرکچر، شہری/دیہاتی صفائی ستھرائی کی سہولیات میسرہیں، با الفاظ دیگر تمام انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی کا ایسا سسٹم جو ریاست اپنی عوام کو ٹیکسز کے بدلے دے، اس کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے۔ ملکی معیشت کا ایک بہت بڑا سیاہ دھبہ گردشی قرضوں کا طوق ہے، جس کا حجم قریب 2635 ارب روپے ہوچکا ہے ، ہر سال آئی ایم ایف گردشی قرضوں کو کم کرنے کا ہدف دیتا رہا ہے ۔ اس قرضے کو ختم کرنے کے لیے حکومت بجلی کی قیمتیں بڑھاتی رہی ہے اور دوسری طرف کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں لگ بھگ 24 ارب روپے کی پیمنٹ آئی پی پیز کے مالکان کو بغیر بجلی کی پیداوار کے ادا کی گئی۔

    حکومت کی غیر متوازن مالیاتی ، تجارتی پالیسیوں کی وَجہ سے ملک کے امیر ترین طبقات نے بے تحاشا ملکی دولت کو باہر منتقل کیا ۔ امریکا جو کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا لیڈر ملک تصور کیا جاتا ہے، اس میں بھی بیرون ملک دولت کی منتقلی پر سخت قوانین کا اطلاق ہے، مگر پاکستان میں پانامہ لیکس اور دوبئی لیکس کے رپورٹس کے مطابق قریب قریب 21000 پاکستانیوں کی 19 ارب ڈالرز کی جائیدادیں اور انویسٹمنٹ بیرونِ ملک ہے۔ یہ اعداد و شمار تو وہ ہیں جو کہ لیک ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ مضمر دولت کا اندازہ ہی نہیں ہے ۔ اس ساری صورتِ حال کے تناظر میں ملک میں جہاں پر سیاسی ادارے تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں، وہاں پر معاشی بدنظمی ، سرمایہ دار نواز، ذاتی و گروہی مفادات پر بنائی جانے والی مالیاتی پالییسیز، تجاری ایس آر اوز، ٹیکس جمع کرنے والے اداروں میں بے انتہا کرپشن نے ملک کو دیوالیہ ، مقروض اور نہ ختم ہونے والے معاشی بھنور میں ڈال دیا ہے اور ملک کی چوبیس کروڑ عوام کے لیے ریاست معاشی قید خانہ بن کے رہ گئی ہے ۔ان حالات میں جب تک عدل و انصاف ، نظم وضبط کی بنیاد پر مالیاتی، تجارتی، زراعتی ، صنعتی پالیسیز کا نظام قائم نہیں ہوتا، اس وقت تک ملک میں معاشی تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی۔ 


    ریفرینس ۱: https://www.finance.gov.pk/budget/Budget_2024_25/Budget_in_Brief.pdf

    Total taxes=12970 Billion

    Indirect taxes=7458 Billion (Ratio=58%)

    ریفرینس ۲: https://www.dawn.com/news/1838557

    Similar to the retail sector, the agricultural sector’s tax revenue is insignificant compared to its contribution to GDP. Agriculture accounts for roughly a quarter of Pakistan’s GDP, but agricultural income tax (AIT) is only about Rs2.5 billion, far below its potential of around Rs800 billion, suggests a study by Pide.


    ریفرینس ۲: https://www.finance.gov.pk/budget/Budget_2024_25/Budget_in_Brief.pdf

    Tax target 2023-24=9252 & 2024-25=12970

    Difference= 3718 Billion

    ریفرینس 

    ۳: https://dunya.com.pk/index.php/author/mian-imran-ahmad/2024-06-03/47750/66398019

    https://www.helgilibrary.com/indicators/number-of-households/pakistan/#:~:text=Number%20of%20households%20reached%2037.5,of%204.52%20mil%20in%201960.

    Total registered families =37.5Million

    Total tax target = 12970000 Million

    Ratio=12970000/37.5= 345866

    Share via Whatsapp