پاکستان میں تصور ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظام
تصور ملکیت کو غیر حقیقی انداز میں پیش کرنے کی وجہ سے ملک میں ایک بڑا سرمایہ دار طبقہ وجود میں آچکا ہے جو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
پاکستان میں تصور ملکیت اور سرمایہ دارانہ نظام
تحریر؛ فہد محمد عدیل۔ گوجرانوالہ
سال 2018ء میں پاکستان میں غربت کی شرح 21 فی صد تھی، مگر 2024ء میں یہ شرح 40فی صد تک پہنچ چکی ہے ۔ گورنمنٹ کی معاشی پالیسیز اور اسٹیٹ بینک کی سرمایہ دارانہ نواز پالیسیوں کی وَجہ سے افراط زر کی شرح 25 فی صد کے ساتھ پاکستان جنوبی ایشیا کا مہنگا ترین ملک بن چکا ہے ۔ روزگار کے انتہائی کم مواقعے ، علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ، صاف پانی ، خالص غذاؤں کی کمی اور ملک میں کم ہوتی ہوئی اوسط عمریں اس وقت ملک کے سماجی ڈھانچے کو تباہی کے دھانے کے قریب لے آئیں۔
ریاستوں کے سیاسی و معاشی نظاموں اور اداروں کی ورکنگ پالیسز کے پس پردہ افکار و نظریات کارفرما ہوتے ہیں۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور ترقی کی وَجہ وہاں کے وہ فلسفے اور نظریات ہیں جو ان اقوام کے اداروں کے لیے اساس فراہم کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک سرمائے کی بنیاد پر معاشی نظاموں کی تشکیل کے عمل میں ملکی ترقی کی پالیسیز بناتے ہیں ، جب کہ اشتراکیت کی نظریاتی اساس کے حلیف ممالک اس کے مطابق اپنے اداروں کو منظم کرتے ہیں،مگر پاکستان کے اداروں کی تو گنگا ہی اُلٹی بہتی ہے ۔ یہاں پر تمام پالیسیز سرمایہ پرستوں کی حرص و ہوس ، ذاتی مفاد و لالچ اور اِنفرادیت کے معیارات کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ 1947ء میں ملک میں بہ ظاہر اسلام کے نام پر علاحدہ ریاست کا نعرہ لگایا گیا، مگر اسلام کے معاشی نظاموں کی کیا اساس ہے ؟ اسلام کا پیدائش دولت، تقسیم دولت ، تبادلہ دولت اور صرف دولت پر کیا بیانیہ ہے؟ اس پر کسی ریاستی اداروں میں بحث تو درکنار ان افکار کو موضوع ہی نہیں بنایا گیا۔ دوسری طرف مذہب اسلام کی من مانی تشریح کرنے والے سرمایہ دارانہ نواز مولویوں ، دانش وروں اور نام نہاد علما نے وقت کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفاد میں اسلام کے نظریات کو پیش کیا۔ مثلاً ایک مخصوص مذہبی حلقے کی طرف سے ملکیت کا ایسا تصور سامنے آیا کہ جس کی بنیاد پر اسلام کے چند ایک مالی حقوق (جیسا کہ زکوۃ، صدقات یا عشر وغیرہ ) کی ادائیگی کرکے اجتماعی مفاد کے برعکس بے تحاشا دولت وسائل پر قبضہ و ملکیت بنائی جاسکتی ہے ۔ فرد یا چند افراد کے زیرملکیت وسائل کو جس طرح سے چاہے، ذاتی اغراض و مقاصد اور اجتماعی مفاد کے برعکس استعمال کیا جا سکتاہے ۔ دوسرا بہت بڑا سرمایہ نواز تصور جوسامنے آیا وہ ملک میں مزارعت اور جاگیردارانہ نظام کو اسلام کے عین مطابق پیش کیا گیا۔ جب کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا دورِعروج ہو یا عہد خلافت ہو یا بنوامیہ اور بنوعباس کا شان دار عہد ، مندرجہ بالا تصورات کے برعکس معاشی و سیاسی نظاموں کی تشکیل اور افکار و نظریات کی تدوین ہوئی۔ عہدنبویﷺ اور خلافت راشدہ میں ملکیت کا لامحدود تصور کبھی بھی معاشرے میں قائم نہیں ہوا ،بلکہ اس کے برعکس معاشی وسائل، اجتماعی مفاد کے تحت بروئےکار لائے جاتے تھے جو قوم کی اجتماعی ترقی کے ضامن ہوتے تھے ۔
ملکیت کے سرمایہ دارانہ نام نہاد اسلامی تصور کے باعث پاکستان میں 24 کروڑ افراد میں سے کم و بیش ساڑھے 9 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ انھیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ، غذائی قلت کا شکار ہیں ، موسمی حالات سے غیرمحفوظ ، بے روزگاری، انتہائی کم آمدنی، علاج معالجہ کی سہو لتوں کا فقدان ، امن عامہ کی مخدوش صورتِ حال وغیرہ ۔ دوسری طرف پاکستان کے دس امیرترین افراد جن کی ڈیکلئرڈ دولت لگ بھگ 16 ارپ ڈالرز سے تجاوز کرچکی ہے ۔ یہ دس خاندان نہیں، بلکہ دس امیر ترین افراد ہیں، جن میں ملک کے نامور سیاست دان شامل ہیں۔ پاکستان میں ایک طرف 5 سال سے کم عمر افراد غذائی کمی کا شکار سالانہ ایک لاکھ ستتر ہزار ( 177000) بچے فوت ہو جاتے ہیں۔ تو دوسری طرف پانامہ لیکس اور دوبئی لیکس میں شائع شدہ رپورٹس کے مطابق ملک کے بائیس ہزار ( 22000) افراد کی یورپ اور دوبئی میں 19 ارب ڈالرز کی جائیدادیں ہیں جو انھوں نے ملک کے کسی ادارے کے سامنے ظاہر نہیں کیں۔اس کے برعکس پاکستان کے قرضہ جات کی اگر بات کی جائے تو ملک اس وقت 131 ارب ڈالرز کے اندرونی و بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے،جس میں ساڑھے 7 ارب ڈالرز آئی ایم کا قرضہ ہے،جس نے ملک کے معاشی اداروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ ہر قسط کے اجرا پر سرمایہ دار دوست اور عوام دشمن پالیسز بنائی جاتی ہیں ۔ ملک میں مہنگائی کا بوجھ ہو ، یابجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشر با اضافہ ، ٹیکسز کی بھرمار ہو یا قرضوں پر سود کی ادائیگی ، اس کا شکار یہاں کا محض محنت کش طبقہ اور عوام الناس ہے۔ اس کے علی الرغم ملک ، سرمایہ داروں کے لیے جنت اور کروڑوں عوام کے لیے معاشی قید خانہ بن چکا ہے ۔
جاگیردارانہ نظام کو ملک میں مذہبی جواز فراہم کیا گیا ہے۔ زیریں پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں جاگیردارانہ نظام کا وہی نقشہ موجود ہے جو یورپ کے زمانہ جاہلیت یعنی ڈارک ایج کی غمازی کرتا ہے ۔ قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے فیوڈل لارڈ زعوام اور مزارعین کو اپنا خاندانی غلام سمجھتے ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے ۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق جاگیرداروں سمیت ملک کے مقتدرہ کو 17.4 بلین ڈالرز کی رعائتیں (Subsidies) حاصل ہیں۔ ملک کا قانون اور عدالتیں ، ان کی باندیاں ہیں۔ ہر چڑھتا ہوا ،سورج عوام پرسماجی افراط و تفریط اور معاشی استبدادیت کی قہرمانی برساتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے خالص تصور ملکیت کو اُجاگر کر کے یہاں کی نسل نو میں سیاسی و معاشی شعور اُجاگر کیا جائے، تاکہ ملک میں اسلام کا حقیقی نظام معیشت قائم ہو سکے۔