ذیابیطس( شوگر ) عالمی کمپنیاں اور سرمایہ داری نظام
انڈیا اور پاکستان (جنوبی ایشیاء) میں دنیا بھر میں ذیابیطس بہت کثرت سے ہے اس کی ایک انتہائی بھیانک اور تاریخی وجہ برطانیہ کا 89 سالہ استعماری نظام ہے۔
ذیابیطس( شوگر ) عالمی کمپنیاں اور سرمایہ داری نظام
ثاقب محفوظ۔ پشاور
ذیابیطس یعنی شوگر اس وقت دنیابھر میں بہت ہی عام اور سنگین بیماری ہے اور IDF انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کے مطابق دنیا بھر میں 537 ملین( 50 کروڑ 37 لاکھ) لوگ اس وقت شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں، جن کی تعداد 2030ء تک 643 ملین (60 کروڑ 43 لاکھ) ہو جائے گی اور 2045ء میں 783 ملین (70 کروڑ 83 لاکھ) ہو جائے گی۔
اور پاکستان میں شوگر 30.8 فی صد کے پھیلاؤ کی رفتار کے تناسب کے اعتبار سے دنیا میں نمبر 1 پر ہے۔ آئی ڈی ایف کے مطابق پاکستان میں 33 ملین ( 3 کروڑ 30 لاکھ) سے زائد لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔اور مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان کاتیسرا 3 نمبر ہے،جب کہ شوگر کے پھیلاؤ کے 9.6 فی صد کے تناسب سے wisevoter.com کے مطابق ہمارا پڑوسی ملک انڈیا اپنی کثیر آبادی کے باوجود 64 ویں نمبر پر ہے۔ تاہم مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ Reuters جون 2023ء کی پبلیکیشن کے مطابق انڈیا میں 101 ملین ( 10 کروڑ 10لاکھ) مریض ہیں۔انڈیا اور پاکستان جس کا ایک ہی خطہ جنوبی ایشیا ہے،لیکن ہمارے ملک میں شوگر کے پھیلاؤ کا تناسب انڈیا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کی ایک وَجہ دونوں ملکوں کا نظام صحت ہے۔انڈیاکانظام صحت عالمی سطح پر نمایاں مقام رکھتا ہے دوسری بڑی اور کلیدی وَجہ ہماری نسبت انڈیا میں آرگینک فوڈز کی دستیابی اور استعمال عام ہے۔اور ایک اہم وَجہ انڈیا کی اقتصادی پوزیشن ہم سے بہتر ہے، جس کی وَجہ سے انڈیا ہماری نسبت کم معاشی دباؤ کا شکار ہے،سماجی اور معاشرتی دباؤ بھی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شوگر ایک غذائی بیماری ہے، جس کی وَجہ کثرث سے چینی ، پراسس فوڈز ، فاسٹ فوڈذ، نان آرگینک فوڈز، کولڈڈرنک، جوسز، ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس،بیکری آئٹمز ہیں۔ اور ہمارے ملک میں توہرطرف نان آرگینک فوڈزاور ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس اور چینی کا بے تحاشا استعمال ہے- ایسی غذائیں کثرت سےہیں، جن کی وَجہ سے ذیابیطس کا پھیلاؤہوتا ہے۔
انڈیا اور پاکستان میں دنیابھرکی نسبت ذیابیطس کثرت سے ہے، اس کی ایک انتہائی بھیانک اور تاریخی وَجہ برطانیہ کا استعماری نظام ہے۔ دی گارڈین 12اکتوبر 2023ءکی ایک ریسرچ پبلیکیشن اور ڈاکومنٹری کے مطابق جنوبی ایشیا سابقہ ہندوستان بہ شمول پاکستان میں شوگر پھیلنے کی ایک بہت بڑی وَجہ 89 سالہ برطانوی استعماری دور ہے۔ ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران 25 بڑے قحط آئے،جس سے تقریباً 6 کروڑ ہندوستانی موت کے منہ میں چلے گئے ۔ ان قحطوں کی جہاں ایک وَجہ خشک سالی تھی تو دوسری بڑی وَجہ برطانیہ ایسی کاشت کروا رہا تھا جو اس کی ضرورت تھی، نہ کہ ہندوستان کی ۔اسی دورانیے میں برطانوی استعمار نے زمینوں پر بے تحاشہ لگان ٹیکس لگائے اور انتہائی ظلم و جبر سے ٹیکس وصول کیے اور اسی دورانئے میں برطانوی استعمار نے اس خطے میں انتہائی کم اخراجات کیے۔ اور ساتھ ہی کثرت سے دیگر خوراک اور اناج کو بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کر دیا،جس کا اثر خشک سالی سے بھی بدتر تھا-یوں برطانوی استعماری پالیسیوں کی وَجہ سے 1876-1878 کو جنوبی ہندوستان کو تباہ کن قحطوں نے جکڑ لیا اور 50-110 لاکھ تک انسان لقمہ اجل بن گئے۔اسی طرح 1943ء میں بنگال کے تباہ کن قحط میں تقریباً 30 لاکھ سے زائد انسان غذائی قلت کی وَجہ سے ہلاک ہوگئے،جس کا سیدھا سیدھا تعلق برطانوی راج کی پالیسیوں سے تھا۔ مزید یہ کے وینسٹن چرچل کی حکومت نے دوسری عالمی جنگ میں ہندوستان کے وسائل کو استعمال کرنے کی سختی سے ہدایت کی، جس کی وَجہ خوراک کی انتہائی قلت ہو گئی اور چاول کے ذخائر مسلسل ہندوستان سے ختم ہونے لگے، حتیٰ کہ برطانیہ نے ہندوستانی وائسرائے کی درخواست مسترد کردی، جس میں فوری طور پر 10 لاکھ ٹن گندم کی امداد مانگی گئی تھی۔ جب یہ قحط جاری تھا تو اس دورانیے میں برطانیہ نے استحصالی تجارت سے تقریبا 45 ٹریلین ڈالرز ہندوستان سے باہر برطانیہ منتقل کیے۔
ان قحطوں اور استحصال نے کیسے ہندوستانیوں کو ذیابیطس کے مرض کی طرف دھکیلا، اسی پبلیکیشن میں Genetical Science کے تحت تجزیاتی مطالعہ اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ جنوبی ایشیا کے قحط کو گو کہ 100 سال گزر چکے ہیں،لیکن جنوبی ایشیا کے افراد کی شکر اور جسم میں اس کی شکل (Fats) فیٹس سٹورینگ storing اور غذا کو ہضم یا جذب کرنے اور شوگر کو جزب کرنے پر ابھی بھی ان قحطوں کا اَثر ہے۔ یہ (Epigenetics) ایپی جینیٹیکس کی وَجہ سے ہوا، جس میں ہم پڑھتے ہیں کہ کیسے ہماری عادات اور ماحول ہماری جینز Genes کے کام کرنے کے انداز میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ اور یہ تبدیلیاں پھر ایک نسل سے دوسری نسل میں کیسے منتقل ہوتی ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں استحصال، جبر اور (قحط) نے جنوبی ایشیا میں موجود افراد کے جینز میں ایسی تبدیلیاں پیدا کیں،جس کی وَجہ سے شوگر اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھ گیا (یعنی یہ مرض جلد لگ سکتے ہیں)۔ ایک نسل جب قحط گزارتی ہے تو آنے والی نسل میں شوگر لگنے کے خدشات دوگنا ہوجاتے ہیں اور اسی طرح اس کے بعد آنے والی نسل میں بھی شوگر لگنے کا خدشہ دوگنا ہوجاتا ہے۔قحطوں کی وَجہ سے کم کھانے یا بھوک کے ساتھ زندہ رہنے کی جو تبدیلی جینز میں پیدا ہوئی تو اس کی وَجہ سے بہت سے جنوبی ایشیا کے لوگ انسولین ریزسٹنٹ ہوگئے (یعنی خوراک سے توانائی حاصل کرنے کے لیے جو ہارمون ہمارے جسم کے اندر ریلیز ہوتا ہے، اس کے ریلیز ہونے میں کمی آجاتی ہے۔ اس طرح قحطوں کے بعد بھی ایک صحت مند جسم کم انسولین سیکریٹ کرتا ہے، تا کہ خوراک کو بعد کے لیے بچایا جا سکے یا لمبی بھوک برداشت کی جا سکے۔ کم انسولین کی وَجہ سے ہمارے مسلز اور جگر خون سے شکر حاصل نہیں کر سکتے، جس کے نتیجے میں زیادہ شوگر فیٹس کی شکل میں ہمارے جسم میں جمع ہوجاتی ہے۔ البتہ بہت زیادہ خوراک کے وقت جیسا کہ آج کل جہاں مارکیٹس میں ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس، پراسیس فوڈز، بیکری آئٹم کی ہر شے میں دو تہائی اضافی چینی موجود ہوتی ہے تو ایسے میں بھوک کے ساتھ رہنے کی اہلیت جنوبی ایشیا کے افراد کے لیے منفی ثابت ہورہی ہے۔ یہ جمع شدہ فیٹس شوگر، موٹاپا اور دل کی بیماریوں کے خدشات بڑھاتی ہے۔ البتہ کچھ طرز زندگی کو اپنانے سے ٹائپ 2 شوگر کے خدشے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ریسرچرز تجویز کرتے ہیں کہ اپنے خطے کی طرز خوراک کا استعمال کریں اور ورزش اپنائیں، کیوں کہ جنوبی ایشیا کی شاندارتاریخ ہے جیسا کہ حکمت ، آیور ویدہ، یوگا اور یونانی دوائیوں کا استعمال بہت ہی کم ہو چکا ہے۔مغربی خوراکوں اور طرز زندگی کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے لوگ مزید پیچیدہ بیماریوں میں پھنس رہے ہیں۔
دنیابھر میں پچھلے 15 سالوں میں شوگر کے علاج پر 966 ارب ڈالر خرچ ہوئےاور شوگر کے علاج کے اخراجات میں 316 فی صد اضافہ ہوا اور مستقبل میں اس بیماری میں مزید اضافہ ہونےکاخدشہ ہے-اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جدیدترین میڈیکل سائنس اور بڑی بین الاقوامی ادویات ساز لیڈنگ کمپنیاں جو کہ شوگر کے مرض کے لیے بہت سی ادویات ایجاد کر چکی ہیں، ابھی تک حقیقت میں فقط اس کی مینجمنٹ کے لیے ہی ادویات بنا رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ کسی بھی کمپنی کی طرف سے کوئی میڈیسن جس سے کچھ وقت کے استعمال سے بیماری ختم ہو جائے، سامنے نہیں آئے گی اور نہ ہی مستقبل میں کسی بھی کمپنی کی طرف سے اس کا کوئی دعویٰ موجود ہے اور نہ ہی ایسی کوئی میڈیسن کی تیاری کا منصوبہ زیرغور ہے یا اس پہ ریسرچ ہورہی ہے، کیوں کہ مستقل علاج سے اربوں ڈالر کا فائدہ ُاٹھانے والی کمپنیوں کا مالی مفاد متاثر ہوگا۔ اس مرض کی بنیادی وَجہ تو خون میں شکر کی مقدار کا زیادہ ہونا ہے اور انسولین کی کمی ہے، جس کی وَجہ سے شکر خلیوں میں داخل نہیں ہوسکتی اور خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے، لیکن اس شکر کی زیادتی کی اہم ترین وَجہ پراسس فوڈز،بیکری آئٹمز،ڈرنکس،جوسز، فاسٹ فوڈز،ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس،چینی کا بہت استعمال اور نان آرگینک خوراکیں ہیں اور ان تمام فوڈز کے بیسک خام مال بنانے والی بھی بین الاقوامی کمپنیاں ہی ہیں، ساتھ ہی عالمی سطح پر ملکوں میں ایسے نظام موجود ہیں،جس کی وجہ سے آبادی سماجی مسائل اور سماجی دباؤ کا شکار ہے-اس دباؤ میں سرفہرست لوگوں کی معاشی تنگ دستی اور مالیاتی دباؤ بھی شامل ہیں جوکہ شوگر کی بیماری اور دیگر بیماریوں کا ایک بہت بڑا سبب ہے اس مرض سے بچنے کے لیے کسی بھی ملک کی وزارتِ صحت یا پرائیویٹ کمپنیاں نصیحت تو کرتی ہیں، لیکن پراسس فوڈز، فاسٹ فوڈز، ڈرنکس،جوسز ، ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس اور نان آرگینک فوڈز پر پابندی نہیں لگاتیں۔لائف سٹائل اور زندگی گزارنے کے طور طریقے بدلنے کا تو ہر جگہ پرچار کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں کئی شوگر کے لیے کام کرنے والی این جی اوز بھی موجود ہیں جو اس طرح کی نصیحتیں اور گائیڈ لائنز دیتی ہیں کہ آپ ورزشیں کریں، آپ اپنے لائف سٹائل کو تبدیل کریں، خوش رہا کریں، لیکن سسٹم کے ذریعے سے جو چیز ڈیلیور ہونی چاہیے، نہ اس کی طرف عوام الناس کی توجہ دلاتی ہیں اور نہ جان بوجھ کر وزارتِ صحت کو ایسی غذاؤں پر پابندی لگانے کا کہتی ہیں، جن سے شوگر کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہو رہا ہے-یوں شوگر اور دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ میں ملکی نظاموں کا وسیع کردار ہے۔
شوگرکی ادویات ساز بین الاقوامی کمپنیوں میں سرفہرست یورپ اور امریکا کی کمپنیاں ہیں جو کہ برینڈڈ میڈیسن اور خام مال کی فروخت پوری دنیا میں کرتی ہیں، یورپ اور امریکا کی ادویات ساز کمپنیاں اس سلسلے میں کتنا استحصال کررہی ہیں ، اس کا اندازہ ان کی دولت سے ہوتا ہے Novo Nordisk جو کہ ایک یورپین بیس کمپنی ہے، شوگر کی مارکیٹ میں 33.30 فی صد مارکیٹ کنٹرول کے ساتھ سرفہرست ہے اور دنیا کی شوگر کی میڈیسن کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ جنوری 2022ء ڈیٹا کے مطابق فقط ڈائبٹیز کے شعبے میں تجارت کرتے ہوئے 240 ارب ڈالر کی مالک ہے اور کل 460.13 ارب ڈالر ایسٹس کی ملکیت رکھتی ہے۔اسی طرح امریکن بیس کمپنی Eli Lillyجو شوگر کی ادویات کے شعبے میں 220 ارب ڈالر کی مالک ہے اور کل 562.18 ارب ڈالر کی ملکیت رکھتی ہے، اسی طرح شوگر کی میڈیسن کی فروخت میں امریکن کمپنی Sanofi 127 ارب ڈالر کی مالک ہے۔اس دوڑ میں فرانس ، انڈیا، جاپان کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
سٹیٹسٹا Statista کے اعدادوشمار کے مطابق 2024ء میں ذیابیطس شوگر کی ادویات کی مارکیٹ کا حجم 73.46 ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا اور 5.12 فی صد کی رفتار کے ساتھ یہ اضافہ ہوتا جائے گا اور 2028ء میں اس مارکیٹ کا حجم 89.69 ارب ڈالر اور 2031ء میں 118 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گا۔
سرمایہ داری نظام کے ماتحت چلنے والی ادویات ساز کمپنیاں جب ایک دوسرے سے مارکیٹ شیئر لینے کاخوب مقابلہ کرتی ہیں،تو عالمی سرمایہ داری نظام کے ماتحت ملکوں میں رائج نظاموں سے ہم کیا امید لگا سکتے ہیں؟کیا ایسے ملکوں میں نظام صحت استحصال سے پاک ہوگا ایسا سوچنا اور سمجھنا کہ ان نظاموں کے ہوتے ہوئے صحت کے شعبے کو استحصال سے پاک کیا جا سکتا ہے، محض ایک خوش فہمی ہے۔ بیماریاں تو تمام جاندار انواع نباتات، حیوانات اور انسانوں کے ساتھ ہمیشہ تھیں اور مستقبل میں بھی رہیں گی لیکن نظام صحت کے شعبے کو استحصال سے محفوظ رکھنا ضروری ہے-
ذیابیطس کی بیماری میں غذا کا اہم اور بنیادی کردار ہے،دوسرےالفاظ میں ذیابیطس ایک غذائی بیماری ہے۔اس بیماری میں بہت حد تک کمی غذاؤں میں چینی ، پراسس فوڈز، فاسٹ فوڈ ، نان آرگینک فوڈذ، ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس اور کولڈ ڈرنک،جوسز کے استعمال پر قانونی پابندی لگا کر بھی کیا جا سکتا ہے،لیکن ضروری ہے کہ پہلے ان فوڈز کا متبادل قدرتی آرگینک فوڈز کو کاشت کیا جائے اور ان کی بنیاد پر صنعتی اور تجارتی نظام ترتیب دیا جائے، تاکہ ان کی دستیابی عام ہوسکے اور حلال اور طیب خوراکوں کو ہر طرف پھیلایا جائے اور قومی ادویات ساز صنعتوں کو قائم کیا جائے جو کہ اپنا خام مال بھی خود تیار کریں، اس طرح نہ صرف ذیابیطس شوگر، بلکہ دیگر بڑی بڑی بیماریوں میں بھی بہت بڑے پیمانے پر کمی کی جا سکتی ہے نیز بیماریوں کے ذریعے جو استحصال ہوتا ہے، اس سے بھی بچا جا سکتا ہے- اس کے لیے آزاد قومی نظام کا ہونا ضروری ہے، نظام عدل ہی قومی پیمانے پر ایسے نظام صحت اور ادویات سازی کا نظام اور پالیسی مرتب کرسکتا ہے جو انسان دوست ہو اور استحصال سے پاک ہو-