مانیٹری پالیسی اور دگرگوں معیشت
پاکستان میں زری یا مانیٹری پالیسی کے مطابق شرح سود 22 کی سطح پر رکھا گیا جو کہ خطہ کے تمام ممالک سے زیادہ ہے
مانیٹری پالیسی اور دگرگوں معیشت
تحریر: فہد محمد عدیل۔ گوجرانولہ
جنوری 2024ء کے آخرمیں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں کیلنڈر سال کی پہلی مانیٹری (زری) پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے آئندہ تقریباً دوماہ کے لیے شرح سود کو 22 فی صد کی سطح پر جاری رکھا ہے اور افراطِ زر میں کمی کے رحجان کو بھی شرح سود کی سطح میں یکساں رکھا گیا ہے۔ اپریل 2022ء سے پہلے شرح سود تقریبا 10فی صد سے بھی کم تھی، مگر حالیہ دو سالوں میں باقی تمام اشیا کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کے ساتھ پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی "عوام بوجھ پالیسی" میں اپنا پورا حصہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ "اسلامی جمہوریہ" کے نام سے دنیا میں شناخت رکھنے والے ملک میں شرح سود دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بلند ترین سطح پر ہے ۔ اس ملک کےماہرینِ معیشت شرح سود میں انتہا درجہ کا اضافہ معاشی مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں مرکزی بینک کا کردار معاشرے میں معاشی پالیسیز کے ایک اہم ستون کی حیثیت کا ہوتا ہے۔ ماتحت بینکوں کو پالیسیز کے اندر رہ کر کاروبار کرنے کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری بھی مرکزی بینک کی ہوتی ہے ۔مگر گزشتہ دو سالوں میں ملک میں کون سا ایسا پیداواری کاروبار ہے، جس میں سالانہ 22 فی صد سے 25 فی صد تک منافع کمایا جا سکتا ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہوگا ۔ مگر کیا کہیے کہ اس ملک میں کاروبار کرنے والے بینکوں کو قرضوں کے اجرا پرعوام سے کارپوریٹ فنانسنگ (یعنی بڑے قرضہ جات پر ) کم سے کم 22 فی صد اور کنزیومر فنانسنگ (چھوٹے اور انفرادی قرضہ جات پر) 30 فی صد سے بھی زیادہ شرح سود کمانے کی قانونی اجازت کا پروانہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے ہر دو ماہ بعد گذشتہ دو سالوں سے بدستور جاری کیا جا رہا ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ موجودہ کاروباری کساد بازاری کے باوجود ملک کے تمام کمرشل اور اسلامی بینک اربوں روپے کا منافع کما رہے ہیں ۔
عوام کی معیشت دن بدن ڈوب رہی ہے ، دو وقت کی روٹی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، ملازمتیں، کاروبار اپنے اخراجات پورے کرنے سے عاجز ہیں اور پاکستانی بینکوں کے مالکان اور اشرافیہ کی کلاس عالمی کساد بازاری کے اس دور میں تاریخ کے بلند ترین منافعوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
سال 2022ء کے ماہِ اکتوبر میں ملک کے 8 نامور بینکوں نے ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کے تناظر میں راتوں رات ڈالرز کو ملک سے باہر شفٹ کرکے اربوں روپے کمائے، بلکہ روپے کی قدر میں تاریخی کمی کا باعث بھی بنے۔ اس وقت کے وزیرخزانہ نے اس سلسلے میں ایک انکوائری کرنے کا حکم دیا، مگر مئی 2023ء میں اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو کلین چٹ دیتے ہوئے صرف یہ ریمارکس دیے کہ بینکوں کے غیرذمہ دارانہ رویے کی وَجہ سے ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کا ریٹ اوپر چلا گیا، نہ اس قومی نقصان کی تخمینہ سازی کی گئی اور نہ ہی اس کو پورا کرنے کے حوالے سے کوئی سزا دی گئی۔ پاکستان کے معاشی پالیسی ساز ماہرین کے نزدیک بینکوں کے مالکان اور ان کے مفادات عوامی مفاد کے مقابلے میں حد درجہ مقدم اور اہم ہیں ۔ عوام ملک میں اس وقت مہنگائی کے جس کرب سے گزر رہی ہے، اس کی پوری ملکی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال مل سکے ۔
ملک کے اپنے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ افراطِ زر کی شرح 28 فی صد ہے، جب کہ غیرسرکاری اعدادوشمار اشیا صرف کی قیمتوں میں اضافہ اور مصنوعی قیمتوں کی شرح 40 فی صد تک بتا رہے ہیں۔ اس کے برعکس عالمی معاشی اداروں کے اعدادوشمار کا اگر جائزہ لیا جائے تو روس یوکرائن تصادم اور اسرائیل فلسطین لڑائی کی وَجہ سے عالمی معیشت پر جو اَثرات ہیں، ان میں ترقی یافتہ ملکوں میں افراط زر 3 فی صد تک اور ترقی پذیر ممالک میں 8 فی صد تک مشاہدے میں رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی معاشی پالیسیز کو صارفین کے اجتماعی مفاد میں تشکیل دیا جاتا ہے، مگر پاکستان دنیا کا واحد سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ ملک ہے، جس میں فیوڈل طرز پر پالیسیز کی تشکیل میں اجتماعی اور قومی مفاد کو کلیتاً نظرانداز کر کے اشرافیہ کے منظورِ نظر پالیسیز بنانے کا عمل کیا جاتا ہے۔
ملک میں غیر دستاویزی معیشت (undocumented economy) کا حجم خام قومی پیداوار کے 35 فی صد سے 40 فی صد حصہ تک کا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 457 ارب ڈالر تک کی ایسی ٹرانزیکشنز (لین دین )ہیں جو کہ ملک کے معاشی اداروں کے حساب سے باہر ہیں۔ پی ٹی آئی اور مشرف کے دورِحکومت میں جب بھی ملکی معیشت کو ڈاکومینٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک میں مختلف طبقات کی طرف سے احتجاج کے پیش نظر اس عمل کو کھٹائی میں ڈال دیا گیا۔
موجودہ مانیٹری پالیسی میں کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کا حالیہ تجربہ ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا ہے، مگر وہاں کے ماہرین کے نزدیک اہداف کا تعین کیا گیا تھا، جیسا کہ کالے دھن کو ختم کرنا ، معاشی ٹرانزیکشنز کو ملکی اداروں کے تحت رجسٹر کرنا۔ جس میں وقتی طور پر تو ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر انھوں نے ایک ریڑھی بان کو بھی ڈیجیٹل کرنسی یعنی کیو آر کوڈ پر منتقل کردیا ہے ،جس سے وہ اپنے اہداف میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ مگر پاکستان کی موجودہ مانیٹری پالیسی میں نوٹوں کی تبدیلی کو جعلی کرنسی کی روک تھام کا محرک بتلایا گیا ہے ۔ اس سارے عمل میں اچھا خاصا مالیاتی اخراجات کا مصرف ہوگا، مگر اس مصرف سے اگر معیشت کو دستاویزی شکل، کالے دھن کی نشان دہی اور بڑے مگرمچھوں کے خلاف گھیرا تنگ نہ کیا گیا تو اس عمل کے معاشی مصارف بھی بقیہ پالیسیز کی طرح عوام پر ایک بڑا بوجھ ثابت ہوں گے ۔
بیرونی ترسیلات کے حجم میں اضافہ، فارن ایکسچینج ریزرو میں بہتری اور جاری کھاتہ یعنی کرنٹ اکاؤنٹ (برآمدات و درآمدات کے فرق) کے نقصان میں کمی ملکی زری پالیسی کے اعلان میں بھی موضوع بحث رہی ۔ مگر متذکرہ بالا حالات میں عام آدمی کو ان تمام چیزوں میں بہتری کی وَجہ سے کوئی ریلیف ملنا ناممکن ہے ۔ کیوں کہ سرمایہ دارانہ، اشرافیہ دوست ، اجتماعی مفاد کے برعکس بنائی جانے والی معاشی پالیسیز کے نقصانات عوام پر اس قدر گہرے ہیں کہ ان تمام چیزوں کے باوجود حکومت کو فروری 2024ء کے اوائل میں پیٹرول کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافے نے عوام پر کمر توڑ بوجھ ڈال دیا ہے ۔
پاکستان میں مانیٹری پالیسی ، مالیاتی یا تجارتی پالیسی اس وقت تک عوام دوست نہیں بن سکتیں، جب تک اس ملک میں عدل و انصاف کی بنیاد پر صالح معاشی نظام کا قیام عمل میں نہیں آتا۔