استحصالی نفسیات کا تشکیل کردہ سرمایہ دارانہ نظام
سرمایہ داری نظام نے پچھلی دو صدیوں سے بتدریج دنیا کو اپنے معاشی جبر کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس نظام کے بانی اورکلاسیکل مفکرین نے انسانوں کو اپنے نظ
استحصالی نفسیات کا تشکیل کردہ سرمایہ دارانہ نظام
تحریر: فہد محمد عدیل، گوجرانوالہ
سرمایہ داری نظام نے پچھلی دو صدیوں سے بتدریج دنیا کو اپنے معاشی جبر کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس نظام کے بانی اورکلاسیکل مفکرین نے انسانوں کو اپنے نظریات کے دائرے میں گھیر ا ہواہے۔یہ نظام تیسری دنیا کے ممالک کا معاشی استحصال کرنے میں مصروف عمل ہے ؟ اس کے بنیادی نظریا ت کے تناظر میں اس کو سمجھنا ضروری ہے۔
"ایڈم سمتھ "(1723 تا 1790) سرمایہ دارانہ معاشی تصورات کا باپ (Father of Capitalism) کہلاتا ہے۔ اسکی مشہور زمانہ کتاب "دولت اقوام" کو اپنے دور میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔ ایڈم کے نظریات کے مطابق کوئی بھی کاروباری شخص جو محنت کرتا ہے اس کو معاشرے کے مجموعی مفاد سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے کاروبار کا فروغ اور ترقی ہے۔ یعنی ایک فرد کی معاشی زندگی کا مقصد کسی صورت بھی منافع کمانا ہے جس کے لیے معاشرے کےمفادات کو نظر انداز کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ مال دار فرد یا افراد کے کاروبار میں ترقی ہونی چاہیے اور معاشرے اور حکومت کی طرف سے اس کے اوپر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے ۔غور کیا جائے تو یہ ایک غیر منصفانہ تصور ہےجو اجتماعی مفادات کو نظر انداز کرکے سرمائے کی حرص اور لالچ پیدا کرتا ہے۔ یعنی اس کی بنیادہی ظلم پر ہے ۔ ایڈم سمتھ کے معاصرین ،جان سٹورٹ مل (1806 تا 1873) اورجین بیپٹسٹ (1767 تا 1832) نے بھی اس پر زور دیا ہے کہ کاروبار اور فرد کی معاشی جدوجہد مکمل طور پر آزادہو یعنی کسی روک ٹوک اور قانون کی پاسداری کے بغیر ، جس کا مقصد دولت کمانا ہے۔
ان تمام مورخین نے پیدائش دولت میں ، سرمایہ ، محنت اور زمین کو بنیادی عاملین قرار دیا ۔ان کے بعد آنے والے معیشت دانوں نے تنظیم کو بطور چوتھے عامل پیدائش کے شامل کیا۔ جبکہ حقیقت میں عاملین پیدائش دولت صر ف دو ہی ہیں ، ایک سرمایہ اور دوسرا محنت ۔ کسی بھی معاشرے میں ان دونوں عاملین میں عادلانہ توازن نہ ہو تو وہاں دولت کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔ ان عاملین پیدائش پر غور کیا جائے تو، زمین جس پر معاشی سرگرمی عمل میں لائی جاتی ہے وہ بھی وسائل کے اعتبار سے سرمایہ ہی ہوتی ہے ۔تنظیم یعنی مینجمنٹ بھی تربیت یافتہ افرادی قوت (Skilled Labor) کی ہی ایک صورت ہے۔ عاملین پیدائش میں زمین اور تنظیم کو سرمایہ اور محنت سے الگ ظاہر کرنے کا بنیادی مقصد تقسیم دولت کے عمل کو متاثر کرنا ہے۔جو غیر منصفانہ طور پر سرمایہ دار اور دولت مند طبقہ کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ایڈم سمتھ کے نظریات سے متاثر ڈیوڈ ریکارڈو (1772 تا 1823)نے نظریہ لگان پیش کیا جس میں اس نے ایک زمین کا وہ قطعہ جو کسی دوسرے قطعے کے مقابلے میں زیادہ پیداوار اور منافع فراہم کرے وہ اس کا لگان کہلاتا ہے۔ اسی طرح لارڈ کینز (1883 تا 1947 ) نے نظریہ سود پیش کیا ۔یعنی سرمایہ کا معاوضہ سود، زمین کا معاوضہ لگان ، تنظیم کا معاوضہ منافع اور محنت کا معاوضہ اجرت کی صورت میں طے پاتا ہے۔ یوں سود ، لگان اور منافع یعنی دولت کے تین حصے ایک سرمایہ دار یا تین افراد کی جیب میں چلے جاتے ہیں ۔اس معاشی عمل میں شریک ایک بڑی فیکٹری میں کام کرنے والےہزاروں افرا دمیں ،جنہوں نے بارہ سے پندرہ گھنٹے محنت کی ، ایک حصہ تقسیم ہوتاہے۔معیشت کی پیداوار اور اجرت کی تقسیم کے بعد لامحدود منافع کے حصول کے عمل سے محنت کش طبقہ ، جس نے دولت پیدا کرنے میں بنیادی کردار کیا ، باہر ہوجاتا ہے۔
آزاد منڈی کی معیشت کے تصور کے ساتھ طلب و رسد کے عمل کی صورت میں سرمایہ پرستانہ اور دولت کی حرص و ہوس پر مبنی ایک اور پہلو سامنے آتا ہے،جس میں خودکار نظام کی بجائے مصنوعی طریقہ کار ا ختیار کیا جاتاہے۔اس معاشی آزادی کے نام پر ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری ، اجارہ داری اورعام لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکرسرمایہ دار کو دولت بڑھانے کے عمل کی مکمل اجازت دے دی گئی کہ وہ ذخیرہ شدہ غذا و اجناس کو اپنی مرضی کے وقت پر مارکیٹ میں لا کرمن مانی قیمتوں کا تعین کرکے لامحدود منافع کمائیں۔دولت کے اس ارتکاز کے نتیجے میں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں وجود میں آئیں جو غیر حقیقت پسندانہ مقابلہ بازی (Monopolistic Competition) کی بنیاد پر پوری دنیا کی معیشتوں کو جب چاہیں جامد کر دیں اور جب چاہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں۔
یہ ہے استحصالی نفسیات کی تشکیل کردہ معاشی بنیادیں جس کی وجہ سے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے نظریات انسانیت کے لیے زہرقاتل قرار پاتے ہیں۔ جس کے سبب دنیا کی 80 فیصد آبادی غربت و افلاس اور کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ غریب اور سفید پوش طبقہ روز جیتا ہے اور روز مرتا ہے ۔ سرمایہ داری نظام میں انسانیت کے بنیادی حقوق اور معیارات بھی پیسوں کے عوض طے ہوتے ہیں۔تیسری دنیا کے ممالک میں کتنے ہی معاشی ماہرین ہیں جو غریبوں کو ریلیف دینے اور ان کے حالات کو بہتر بنانے کی حکمت عملیاں بناتے ہیں ، مگر نتیجہ صفر ہے۔ کیونکہ جب تک سرمایہ دارانہ نظام رائج رہے گا اس وقت تک انفرادی تصورات کے ذریعے طفل تسلیاں تو دی جاسکتی ہیں لیکن عوام الناس کی تقدیر نہیں بدلی جا سکتی۔