بھوک و افلاس؛ امتحانِ خدا یا تخلیقِ انسان؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بھوک و افلاس؛ امتحانِ خدا یا تخلیقِ انسان؟

    ایک تجزیاتی رپورٹ...جو حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اس قول کی تصدیق کرے گی کہ”بھوک و افلاس کی وجہ پیداوار کی کمی نہیں بلکہ اس کی غلط تقسیم ہے۔“

    By سفیان خان Published on Feb 20, 2024 Views 967
    بھوک و افلاس ؛ امتحانِ خدا یا تخلیقِ انسان ؟
    تحریر : سفیان خان۔ بنوں 

    "اور اللہ بہترین رزق دینے والا ہے"۔ (سورۃ جمعہ) 
    اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو اس کے ساتھ ہی انسانیت کی بقا اور ارتقا کو برقرار رکھنے کے لیے زمین کو وسائلِ رزق سے مالامال کردیا۔ کوئی جاندار تب تک اس دنیا کا دیدار کر ہی نہیں سکتا، جب تک اس زمین میں اُس کے حصے کا رزق اُگانے کی capacity موجود نہ ہو۔ رزق کی تقسیم اگر منصفانہ طریقے سے کی جائے تو زمین پر کوئی بنی آدم نہ بھوک سے مرے گا، نہ بھوکا سوئے گا۔ 
    تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی تقسیمِ دولت و رزق (distribution of wealth) کسی صالح نظام کے ہاتھ میں آجاتا تو رزق کی فراوانی سے گداگری کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور زکوٰۃ لینے والے ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتےتھے۔ لیکن وسائلِ رزق پر جب کسی مخصوص ٹولے کی اجارہ داری قائم ہوجاتی تو لاکھوں لوگ بھوک سے بِلبِلاتے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر جاتے۔ اور نام نہاد مذہبی لوگ انسانوں کی تقسیم کو خدائی تقسیم قرار دے کر ظلم کے خلاف اُبھر آنے والی ممکنہ انقلابی چنگاری کو وقت سے پہلے زمین بوس کر دیتے ہیں۔ اور یوں معاشرے پر بھوک و افلاس کے سیاہ بادل چھا جاتے ہیں۔ 
    اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں روزانہ 25000 لوگ بھوک کی وَجہ سے مرتے ہیں،جن میں 𝟭𝟬,𝟬𝟬𝟬 صرف بچے ہوتے ہیں۔ پچاسی کروڑ چالیس لاکھ لوگ خوراک کی کمی کی وَجہ مختلف بیماریوں کے شکار ہیں۔ لیکن....
    کیا بھوک و افلاس کی وَجہ واقعی پیداوار کی کمی ہے؟
     کیا اِس سیارے (زمین) میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ انسانوں کے لیے دو وقت کی روٹی اُگا سکے؟ 
    کیا زمین پر انسانوں کی آبادی کا بوجھ زیادہ ہوچکا ہے؟ 
    آئیے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں...!! 
    سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ 𝗳𝗼𝗼𝗱 𝘄𝗮𝘀𝘁𝗲 یعنی خوراک کا ضیاع کیا ہے؟
    صاف اور اعلیٰ معیار کی خوراک کو کچرا دان یا سمندر میں پھینک دینا 𝗳𝗼𝗼𝗱 𝘄𝗮𝘀𝘁𝗲 کہلاتا ہے۔
    خوراک ضائع ہونے کی دو بڑی وجوہات یہ ہیں:
    1۔  خوراک میں مخمور پہلے درجے کے انسان رہ جانے والی خوراک کو اپنے گھروں، سٹورز یا 𝘳𝘦𝘴𝘵𝘢𝘶𝘳𝘢𝘯𝘵𝘴 سے باہر پھینک دیتے ہیں۔
    2۔ کارخانہ دار/سرمایہ دار کسانوں کی استحصال کے لیے غلے کی قیمتیں اتنی کم کردیتے ہیں کہ زیادہ تر کسان مجبور ہوکر اپنی فصلیں کھیتوں میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
    اَب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف
    👉 𝙁𝙚𝙚𝙙𝙞𝙣𝙜 𝘼𝙢𝙚𝙧𝙞𝙘𝙖
    یہ امریکا کا دوسرا بڑا ادارہ ہے، جس کا کام ملک بھر میں خوراک کے متعلق معلومات اکٹھا کرنا ہے۔ اِس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہر سال 53 ارب، 97 کروڑ، 74 لاکھ اور 92 ہزار کلوگرام خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔ اِس کی قیمت 𝟒𝟎𝟖 ارب ڈالر بنتی ہے۔ پاکستان کی کُل جی ڈی پی 376 ارب ڈالر ہے، یعنی اِس ضائع شدہ خوراک کے پیسوں سے پاکستان جتنا ایک ملک کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ یہ اتنے پیسے ہیں کہ دنیا میں روزانہ 25,000 افرادجو بھوک کی وَجہ سے مر رہے ہیں، آپ اِنھیں 163 سال تک اعلیٰ معیار کی خوراک دے سکتے ہیں۔
    وحشت ناک بات یہ ہے کہ امریکا میں ہر سال 40 فی صد خوراک ضائع ہوکر سمندر کی زینت بن جاتی ہے۔ اِس سے بھی ذیادہ وحشت ناک بات یہ ہے کہ خود امریکا میں آج بھی 3 کروڑ چالیس لاکھ لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ اور اِن میں 22 فی صد صرف سیاہ فام لوگ ہیں۔
    یہی حال وطنِ عزیز پاکستان کا بھی ہے اور یہی حال تمام Capitalist ممالک کا ہے۔ اِن کا طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے کہ وسائل پر قابض ایک مخصوص طبقہ اپنی اِس منافقانہ بیانیے (resources are limited) کو باقاعدہ طور پر نصابی کتب میں شامل کر دیتا ہے۔ اور نام نہاد مذہبی ٹولہ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے گمراہ کر دیتا ہے کہ یہ غربت، ذِلّت، بے روزگاری، بدامنی، بھوک و افلاس خدا کی طرف سے ایک امتحان ہے جو نظامِ زر کے ساتھ ٹھیک طرح سے وفاداری نہ نبھانے کا نتیجہ ہے۔ نتیجتاً یہ پِسا ہوا بھوکا پیاسا عام طبقہ نظامِ ظلم کے ساتھ مزید وفاداریاں نبھانے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے۔ اس نظریے کو رد کرتے ہوئے امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں”بھوک و افلاس کی وَجہ پیداوار کی کمی نہیں، اس کی غلط تقسیم ہے۔“
    اسی طرح قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ایک مثالی سوسائٹی کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ جو امن و امان والی ہو اور جہاں کا ایسا مطمئن معاشی نظام موجود ہو کہ ہر شخص کو وافر رزق مہیا ہو۔
    مُطْمَئِنَةٌ يَأْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ (سورۃ نحل) 
    آج باشعور لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ایک ایسا صالح اور مثالی نظام قائم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، جہاں ہر کسی کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہو اور جہاں تمام باشندگانِ ریاست بلا رنگ و نسل، مذہب و زبان وسائلِ رزق کی گردش سے مستفید ہوں، تاکہ حکمِ الٰہی کی تعمیل ہوسکے۔
    اس لیے قرآن کا حکم ہے: 
     کی لَا یَکُونَ دُوۡلَۃًۢ بَینَ الاغۡنِیَآءِ منکم
    یہ (مال) تمھارے دولت مندوں ہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہ جائے۔ (سورۃ الحشر)
    Share via Whatsapp