پاکستان معیشت کے سال 2023 کا جائزہ
پاکستانی معیشت سال ۲۰۲۳ میں مشکلات کا شکار رہی ، افراط زر، مہنگائی میں اضافہ عوام کا مقدر رہی
پاکستان معیشت کے سال 2023 کا جائزہ
تحریر؛ فہد محمد عدیل، گوجرانوالہ
سال 2023ء معاشی اعتبار سے پاکستان پر کس طرح کا رہا ؟ اور آنے والا سال کیسا ہوگا؟ یہ سوالات زبان زدِعام ہیں۔
وطن عزیز میں سال 2023ء معاشی حوالے سے بدترین رہا۔ حکومتی دعوؤں ، بلند و بانگ نعروں کے بر عکس عوام الناس غربت کی چکی میں پستی رہی اور پاکستانی اشرافیہ عیاشیوں میں مگن رہی ۔ پیٹرول ،بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام الناس کا بھرکس نکال دیا۔ افراطِ زر،غربت کی شرح میں تاریخی اضافوں نے یہ ثابت کردیا کہ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی بھیانک ترین شکل میں موجود ہے۔ حکومتی اعداو شمار کے مطابق ملک میں افراط زر کی شرح 25 سے 30 فی صد رہی، جس کا یہ مطلب ہے کہ اشیا اوسطاً اپنی اصل قیمت سے 30 فی صد تک مہنگی خریدی اور بیچی گئیں۔ یہ مصنوعی مصارف ملک میں مصنوعی آمدن کا باعث بنتے ہیں اور نتیجتاً وسائل پر قابض طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے اور شرح غربت میں اضافہ ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔
ورلڈبینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 40 فی صد عوام ایسی ہے، جس کی روزانہ کی آمدن 900 روپے سے کم ہے اور تقریباً 22 فی صد عوام وہ ہے جو کہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
سال 2023ء میں پیٹرول کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر گئیں ، ملکی خام قومی پیداوارکی شرح میں 0.2 فی صد کمی ، شرح سود میں 22 فی صد کے ساتھ یعنی بلند ترین سطح پر قائم رہی،جس کی وَجہ سے ملک میں اشرافیہ کلاس نے ٹریژری بلز پر 23 فی صد اور سونے میں سرمایہ کاری سے بے تحاشا منافع اس وقت کمایا، جب ملک مجموعی طور پر ایک سال میں کم و بیش مزید ایک کروڑ پچیس لاکھ افراد کی آبادی غربت کی سطح سے بھی نچلی سطح پر چلی گئی تھی۔
سال 2023ء کا مالیاتی خسارہ 3923 ارب روپے اور تجارتی خسارہ تقریباً 2625 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، جس کے لیے ملک کو بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑا۔ ستمبر 2023ء تک قرضوں کا حجم 128 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ملک میں گردشی قرضوں کا حجم ہر ماہ تقریباً 75.7 ارب روپے بڑھ رہا ہے اور ستمبر 2023ء تک تقریباً 2537 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اس ساری صورتِ حال کے تناظر میں آمدہ کیلنڈر سال میں عوام کو کیا ریلیف مل سکتا ہے ؟ موجودہ صورتِ حال نہایت ہی گھمبیر ہوچکی ہے۔ پاکستان کی ایک غیرسرکاری اعداد و شمار پر مشتمل رپورٹ کے مطابق جون 2024ء تک حکومت پاکستان نے تقریباً 2436 ارب روپے سود سمیت سرکاری قرضہ جات کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اور تقریباً 1400 ارب روپے کی غیرسرکاری (پرائیویٹ) ادائیگیاں کرنی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے گورنر کے حالیہ بیان کے مطابق بھی تقریباً 11 بلین ڈالرز کی رول اوور(Roll Over) کے بعد 13 بلین ڈالرز کی ادائیگیاں کرنا، ناگزیز ہوں گی۔ بجلی کی قیمتیں اوسطاً 50 روپے فی یونٹ تک پہلے ہی پہنچ چکی ہیں اور گیس کی قیمتیں بھی 200 فی صد تک بڑھائی جاچکی ہیں۔ قرضوں اور سود کی ادائیگیوں،تجارتی اور مالیاتی خساروں ،گردشی قرضوں میں تخفیف کے لیے حکومت کا تا حال کوئی ایسا منصوبہ منظرعام پر نہیں آیا، جس سے بیساکھی پر کھڑی معیشت میں جان آسکے۔ عوام کے مقدر میں مہنگائی ، غربت ،بے روزگاری،عدم تحفظ،نقصِ امن ، اشرافیہ کا شکار ہونا اور کسمپرسی کی زندگی گزارنا، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی وَجہ سے آمدہ سال میں نظر آ رہا ہے۔
ملک میں اجتماعیت کی سوچ کے فقدان کی وَجہ سے کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں ہے، جس کے پاس معاشی مسائل سے نکلنے کا کوئی واضح منشور، بیانیہ یا روڈ میپ ہو ۔ عوام ، مہنگائی ، بد انتظامی، اداروں کی عوام دشمنی کے عذاب میں روز جیتی اور روز مرتی ہے، جس کا نہ کوئی پرسانِ حال ہے نہ ہی اس کے درد کی دوا ہے۔
مالیاتی خسارہ کس طرح سے ختم ہو گا؟ ملکی درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیسے ہوگا؟ قیمتوں میں استحکام کیسے ممکن ہے؟ کاروبار میں ترقی ، ملازمتوں کی صورتِ حال میں بہتری کیوں کر ممکن ہوسکے گی؟ ملک کی گرتی ہوئی معاشی نمو اور خام قومی پیداوار میں اضافہ کا خواب کیسے پورا ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کا تعلق ایسی پالیسیز سے ہے، جن کا تسلسل سے قائم رہنا ضروری ہوتا ہے،مگر یہ ان اقوام کا خاصہ ہے، جن اقوام کے پیش نظر قوم کے اجتماعی معاشی اہداف ہوتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک چین کا وزیراعظم سال 2021ء کے شروع میں قومی نشریاتی میڈیا پر گزشتہ سال کی معاشی کارکردگی کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور آمدہ سال کے لیے معاشی اہداف کا اعلان کرتا ہے اور تمام تر قومی ادارے ان معاشی اہداف پر اپنے سالانہ مقاصد کا تعین کرتے ہیں۔ مگر یہ ان اقوام کی خصوصیت ہوتی ہے، جن کی قیادت کے پیش نظر اجتماعی سوچ اور انسان دوستی کی منزل متعین ہوتی ہے، مگر سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کنندہ افراد جب فیوڈل طریقے سے اداروں اور ملک کی باگ ڈور کو چلانے کے خوگر ہو چکے ہوں تو اس قوم میں معاشی تبدیلیاں پیدا ہونا مشکل ہوجاتی ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ ملک کی تمام تر پالیسیاں ، بیرونی ادارے ، جیسے آئی ایم ایف ، ورلڈبینک بناتے ہیں وہاں پر شخصی ، قومی اور معاشی آزادی کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے؟ جس ملک میں معاشی و سیاسی عدم استحکام سالہا سال سے رواج بن چکا ہو ، دنیا میں اس قوم کی نہ تو عزت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی وقار ہوتا ہے،جس قوم کا پڑھا لکھا، ہنرمند طبقہ اپنے ہی اداروں کے خوف سے ملک سے باہر جا کر محنت کرنے اور زندگی بسر کرنے میں عافیت سمجھے ، اس کے نوجوانوں میں مایوسی ، عدم تحفظ کا احساس ہر دم غالب رہے اس قوم کی معاشی ترقی کیسے ممکن ہو سکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جوابات وطن عزیز کے کسی ادارے ، کسی سیاسی قائد، کسی ماہر معیشت کے پاس نہیں ہیں۔ کیوں کہ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جوابات سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی تبدیلی اور عادلانہ و منصفانہ نظام کے قیام کے ساتھ وابستہ ہیں، جن کو آج کے نوجوان کو سمجھنا ہو گا اور اس کی بنیاد پر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔