پاکستان کا معاشی گرداب - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان کا معاشی گرداب

    پاکستانی معاشی پالیسیز ہر سطح پر آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی ادارے تشکیل کرتے ہیں

    By Fahad Muhammad Adiel Published on Nov 20, 2023 Views 700

    پاکستان کا معاشی گرداب

    تحریر؛ فہد محمد عدیل۔ گوجرانوالہ 


    جولائی 2023ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ 3 بلین ڈالرز کے قرضے کے سلسلے میں اسٹینڈبائی معاہدے (Standby Agreement) کے تحت 1.2 بلین ڈالرز مل چکے ہیں اور اگلی قسط کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کا جائزہ کمیشن نومبر 2023ء کے وسط تک اپنی رپورٹ جاری کرے گا۔پہلی قسط کے اجرا پر پاکستانی عوام نے جو مہنگائی کا عذاب بجلی کے بلوں، پیٹرول کی ہوش رُبا قیمتوں اور افراط زر میں 35 فی صد اضافے اور اشیائے خوردونوش کی مہنگائی کی صورت میں جھیلا ہے ۔ گزشتہ چھ ماہ میں حکومت عوام کی محنت کی کمائی پر بجلی، گیس کے بلوں، ٹیکسز اور پٹرول کی بے لگام قیمتوں کے نشتر چلا چلا کر اپنے مالیاتی اہداف کو پورا کرتی رہی۔

    پاکستان کے اس معاشی گرداب نے نے عوام کو مکمل طور پر جانوروں کی سی زندگی گزانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ایف بی آرکی کارکردگی 41 ارب روپے کے ٹیکس کولیکشن کے اعتبار سے 3فی صد  زیادہ رہی جو کہ بالواسطہ ٹیکسز (Indirect Taxes) کے ذریعے یعنی بجلی ، پیٹرول اور سیلز ٹیکسز کے ذریعے سے پورا ہوا، جس کا بوجھ پاکستان کے نچلے طبقات نے اُٹھا رکھاہے۔ اس دوران کتنے افراد نے خودکشیاں کیں، کتنے پڑھے لکھے افراد اس ملک کو چھوڑ کر چلے گئے؟ کتنے بے کس، بے سہارا لوگ زندگی کو ایک بوجھ کی طرح گزارنے پر مجبور ہوئے؟ ان سماجی اہداف کو نہ تو پاکستان کے پالیسی سازوں نے اپنے پیش نظر رکھا، نہ ہی جائزہ کمیشن کے عہدے داران نے اس طرف نظر کی ۔

    اقتصادی جائزہ کے دوران کلائمیٹ فنانسنگ پالیسی جسے عرف عام میں سرمایہ دارانہ نظام کی پرائیوٹائزیشن پالیسی کہا جا سکتا ہے،اس کے تحت تین مزید قومی اداروں، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پاکستان پوسٹ اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن، وزارت ِخزانہ کے ماتحت ، سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کی نگرانی میں لاکر اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اداروں کی نجکاری کا عمل کس طرح سے جلد از جلد مکمل کیا جائے،کس حد تک ان اداروں کے اثاثہ جات کو بیچا یا گروی رکھا جاسکتا ہے۔مالیاتی بجٹ کے تقریباً  20 بلین ڈالرز کے خسارے کے خلا کو پر کرنے کے لیے 6 بلین ڈالرز کے بیرونی قرضہ جات کے حصول کا تخمینہ رکھا گیا،جس میں سے یہ فرض کیا گیا تھا کہ 4.5 بلین ڈالرز دوست ممالک دیں گے اور 1.5 بلین ڈالرز کے یورو بانڈز کا اجرا کرکے ہدف کو حاصل کیا جائے گا۔ مگر پہلی سہ ماہی کے آخر تک نہ تو متذکرہ بالا ممالک کی طرف سے رقم مل سکی اور نہ ہی یورو بانڈز کا اجرا ہو سکا، جس کی وَجہ بلند شرح سود بتائی جارہی ہے۔

    موجودہ نگران حکومت دوست ملکوں کی طرف رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے،جس میں سرفہرست ہمسایہ ملک چین ہے، جس سے دسمبر کے آخر میں 600 ملین ڈالرز کا قرضہ ملنے کی توقع ہے۔ اس وقت پاکستان کا کل قرضہ تقریباً 125 بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہے، جس پر موجودہ بجٹ میں 7.3 کھرب روپے سود کی ادائیگیوں کا تخمینہ لگایا گیا تھا، مگر پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار 8 کھرب روپے سے زائد کے اخراجات بتا رہے ہیں۔ ان تمام حقائق سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے معاشی پالیسی ساز کس حد تک سطحی پالیسیز بنا رہے ہیں ، جن کوعوام کے مسائل سے بالکل بھی سروکار نہیں ہے۔جیسا کہ آمدہ سال 2024ء میں پاکستانی عوام کو معاشی طور پر ریلیف ملنا ناممکن نظر آرہا ہے۔ فروری 2024ء میں الیکشنز ہونے جارہے ہیں، اس پر لگ بھگ 6 سے 7 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے اور آمدہ حکومت اس سارے منظر نامے میں آئی ایم ایف اور قرضوں سے جان چھڑوا سکے گی ؟ اس پر کوئی بھی سیاسی پارٹی کیا منشور رکھتی ہے۔ اس بارے میں کسی کو کوئی پتہ نہیں ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں عالمی ادارہ آئی ایم ایف ،بجلی ، گیس ، پیٹرول کی قیمتوں کا تعین کرتا ہے ، سیلز ٹیکس ، انکم ٹیکس وغیرہ کی شرح پر ہدایات دیتا ہے۔ سابق وزیرخزانہ نے آئی ایم ایف کے ایما پر سرکاری ملازمین کے پنشن رولز میں بہت بنیادی تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر عمل درآمد سے سرکاری ملازمین کی پنشنز اور گریجوئیٹی میں کافی حد تک کمی ہوجائے گی ۔

    اداروں کی نجکاری کے اہداف، پاکستانی اثاثوں کو فروخت کرنے کافیصلہ، گو کہ جزوی و کلی معاشیاتی پالیسیز (Micro & Macro Economic Policies) پر ہر طرح سے اختیار مقامی کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کا ہے ۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کا مقصد ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کی تقویت اور اداروں کی پبلک اونرشپ کو ختم کرکے پرائیویٹ اونرشپ کی پالیسی پر عمل درآمد ہے۔ متذکرہ بالا قرضہ جات کے استعمال میں عدم شفافیت پاکستان جیسے ممالک کا ایک بہت بڑا المیہ ہے، وگرنہ 125 بلین ڈالرز اگر صحیح طور پر کسی بھی ملک کی معیشت میں داخل کیے جائیں تو معاشی منصوبہ بندی سے دیرپا نتائج حاصل کیے جانا، ناممکن نہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے سیاسی فیصلوں کی طرح ملک کے معاشی فیصلہ جات بھی عالمی اداروں اور قرض خواہوں کے مرہون منت ہیں،جس کی وَجہ پاکستان میں گروہی و ذاتی مفادات کی سیاست ہے۔ ملک میں قومی بنیادوں پر مسائل کے حل کی جوہری تبدیلی سیاسی و معاشی نظام و قیادت کی تبدیلی کےساتھ مشروط ہے۔

    Share via Whatsapp