" $100 کے نوٹ کی کہانی " کا ڈیجیٹل ٹرانزیکشن ورژن
" $100 کے نوٹ کی کہانی " کا ڈیجیٹل ٹرانزیکشن ورژن
" $100 کے نوٹ کی کہانی " کا ڈیجیٹل ٹرانزیکشن ورژن
عرفان صادق۔ لاہور
پرانی کہانی میں نوٹ ویسے کا ویسے بچ گیا تھا اور تمام لوگوں کی احتیاجات پوری ہوگئیں تھیں۔ اس سے یہ ثابت کیا جاتا تھا کہ دولت کو گردش میں رکھنا معیشت کے لیےبہت اہم ہے۔
اَب کے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اَب کی بار تو لگ رہا ہے کہ دولت گردش کرے نہ کرے، بینک کو حصہ پتی ملنا ضروری ہے۔ بہرحال تجزیوں میں کیا دھرا ہے، کہانی سنیے۔
ایک گنجے سر والا باریش اجنبی شہر میں رُکا اور ایک چھوٹے سے پرانے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لینے کے لیے گیا، اس نے پہلے کمرے کو چیک کرنے کو کہا، اس لیے نیک نیتی سے
اس نے ہوٹل کے مالک کے پاس $100—ایک قسم کا زرِضمانت—منتقل کیا۔ بینک نے 0.5فی صد چارج کیا اور کچھ فیس۔
ہوٹل کے مالک نے فوری طور پر اپنا کریانہ کا بل ادا کر دیا۔ بینک نے 0.5 فی صد چارج کیا اور کچھ فیس۔
کریانے والے نے اپنے تھوک پر سامان مہیا کرنے والے کو ادائیگی کی۔ بینک نے 0.5 فی صد چارج کیا اور کچھ فیس۔
تھوک والے نے اسے اپنے دوست کے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا۔ بینک نے 0.5 فی صد چارج کیا اور کچھ فیس۔
دوست نے مقامی طوائفہ کو ادائیگی کی، جس نے مذکورہ ہوٹل میں رہائش اختیار کی تھی۔ بینک نے 0.5 فی صد چارج کیا اور کچھ فیس۔
طوائفہ نے اپنے ہوٹل کا بل، واپس آنے والے مسافر سے ذرا پہلے ادا کر دیا۔ بینک نے 0.5 فی صد چارج کیا اور کچھ فیس۔
ہوٹل کے مالک نے مسافر کو $100 واپس منتقل کر دیا جو یہ کہہ کر چلا گیا کہ کمرے تسلی بخش نہیں تھے۔ بینک نے 0.5 فی صد چارج کیا اور کچھ فیس۔
الغرض / قصہ مختصر بینک نے اس سارے قضیہ میں مجموعی طور پر تقریباً $5 بنا لیے۔