پاکستان کی ترقی و استحکام میں شماریات کا کردار
دنیابھر میں 20 اکتوبر کو ورلڈشماریات ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد عوام، حکومت اور اداروں کو یہ باور کرانا ہے کہ اعداد و شمار کی درستگی اور ۔۔۔۔۔
پاکستان کی ترقی و استحکام میں شماریات کا کردار
تحریر: ڈاکٹر محمد زبیر، بہاولپور
دنیابھر میں 20 اکتوبر کو ورلڈشماریات ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد عوام، حکومت اور اداروں کو یہ باور کرانا ہے کہ اعداد و شمار کی درستگی اور ان کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلے ہی ترقی، عدل و انصاف اور معاشرتی استحکام کی ضمانت ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں شماریات کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اعداد و شمار درست نہ ہوں تو منصوبہ بندی، وسائل کی تقسیم اور قومی پالیسیاں محض اندازوں پر مبنی رہ جاتی ہیں۔
شماریات کی عملی مثالیں اور اس کے بغیر وطن کو درپیش نقصانات
شماریات محض ریاضی کا مضمون نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں فیصلہ سازی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم، صحت، معیشت، زراعت، ماحولیات اور حتیٰ کہ کھیلوں تک میں فیصلے شماریاتی تجزیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس علاقے میں اسکولوں کی شرح داخلہ کم ہے اور کہاں اساتذہ کی کمی ہے۔
صحت کے میدان میں یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کن علاقوں میں امراض کا پھیلاؤ زیادہ ہے، تاکہ حکومت بروقت اقدامات کر سکے۔
زراعت میں فصلوں کی پیداوار، بارش کے تناسب اور زمین کے معیار کے اعداد و شمار سے کسانوں کو بہتر رہنمائی ملتی ہے۔
معیشت میں مہنگائی، بیروزگاری، تجارت اور سرمایہ کاری کے اعداد و شمار پالیسی سازی کا بنیادی ذریعہ بنتے ہیں۔
شماریات کے بغیر کوئی ملک اندھیرے میں تیر چلاتا ہے۔اگر اعداد و شمار درست نہ ہوں تو حکومت غلط ترجیحات طے کرتی ہے، وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہوتی ہے، بجٹ غلط سمت میں جاتا ہے اور عوام کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔شماریات کے بغیر وطن کو درج ذیل ممکنہ نقصانات لاحق ہو سکتے ہیں ان میں
1۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت ختم ہوجاتی ہے۔
2۔ آبادی، تعلیم اور صحت کے درست تخمینے نہ ہونے سے پالیسی ناکام ہوجاتی ہے۔
3۔ مالی وسائل ضائع ہوتے ہیں، کیوں کہ منصوبے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
4۔ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کے حقیقی اسباب پوشیدہ رہ جاتے ہیں۔
5۔ بین الاقوامی سطح پر ملکی اعتماد کمزور ہوجاتا ہے۔
یوں کہا جاسکتا ہے کہ شماریات کسی قوم کی آنکھوں کی بینائی ہے؛ جس ملک کے پاس ڈیٹا نہیں، وہ اندھا ہوکر فیصلے کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور تاریخ میں شماریات کا استعمال
اسلام نے حساب، پیمائش اور انصاف پر مبنی نظام کی بنیاد رکھی اور قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر گنتی، پیمائش اور حساب رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا:”بے شک اللہ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے“۔(النساء: 86) اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا: ”ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گن کر محفوظ کیا“۔(النبا: 29) یہ آیات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظم میں اعداد و شمار کا ایک مربوط نظام قائم کیا۔ اسی اصول کو مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں ریاستی اور معاشرتی نظام کا حصہ بنایا۔ اسلامی تاریخ میں اعداد و شمار کی مثالیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ اسلامی ریاستوں نے شماریات کے اصولوں کو عملی شکل دی۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے پہلی بار عرب اور غیرعرب علاقوں میں مردم شماری کروائی۔ ہر قبیلے، فوجی دستے اور بیت المال کے اہلکاروں کے نام، عمر، پیشہ اور ذمہ داری کے اعداد و شمار جمع کیے گئے۔ اس سے مالی نظم و نسق اور فوجی منصوبہ بندی میں شفافیت آئی۔
حضرت عثمانؓ کے زمانے میں مفتوحہ علاقوں کی زرعی پیداوار، آبادی، ٹیکس اور مالِ غنیمت کے رجسٹر باقاعدہ طور پر رکھے گئے۔ اسی طرح بنوعباس کے دور میں بغداد میں “دیوان الاحصاء” (محکمہ شماریات) قائم کیا گیا، جہاں زمین، آبادی، ٹیکس، طلبا اور فوجی ریکارڈ تفصیل سے محفوظ کیے جاتے تھے۔ عباسی خلیفہ المامون کے زمانے میں ہر شہر کی آبادی، اسکولوں کی تعداد، استاد و شاگردوں کے اندراج اور سالانہ آمدن کے اعداد و شمار کا باقاعدہ ریکارڈ موجود تھا — یہ نظام جدید Statistical Bureau کی بنیاد تھا۔ جنگی حالات میں شماریات کا کرداراہم ہے، جیسا کہ اسلامی فوجی حکمتِ عملی میں شماریاتی نظم و ضبط بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔ غزوہ بدر میں حضور ﷺ نے جنگ سے قبل مخالف لشکر کے سپاہیوں، اونٹوں اور ہتھیاروں کی تعداد کا درست تخمینہ لگوایا۔ مسلمانوں کی کل تعداد 313 اور مشرکین کی تقریباً 1000 تھی۔ یہ معلومات دشمن کی طاقت کا اندازہ لگانے، حکمتِ عملی طے کرنے اور وسائل کے درست استعمال میں مددگار ثابت ہوئیں۔ غزوہ خندق میں خندق کی کھدائی پیمائش کے اصولوں پر تقسیم کی گئی۔ ہر دس افراد کے ذمہ مخصوص گزوں کے حساب سے خندق کا حصہ مقرر کیا گیا — یعنی Measurement-Based Distribution System۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں فوجی رجسٹر تیار کیے گئے جن میں سپاہیوں، گھوڑوں، ہتھیاروں اور راشن کا مکمل حساب رکھا جاتا تھا۔ یہی نظام بعد میں اسلامی سلطنتوں میں جنگی منصوبہ بندی (War Logistics) کی بنیاد بنا۔
دورِ زوال میں شماریات کا کردار
تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کا عروج علم، نظم اور تحقیق پر قائم ہوتا ہے اور ان کا زوال تب شروع ہوتا ہے، جب فیصلے علم کے بجائے خواہشات پر مبنی ہونے لگتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے زوال کے دور میں بھی یہی ہوا — جب بیت المال، مردم شماری، معیشت اور تعلیم کے باقاعدہ ریکارڈ بتدریج ختم ہونے لگے، تو فیصلہ سازی اندازوں، شخصی آرا اور غیرسائنسی بنیادوں پر ہونے لگی۔ نتیجتاً ریاستی وسائل ضائع ہوئے، عدل و انصاف میں توازن بگڑا، اور عوامی فلاح کے بجائے طاقت کا مرکز محدود طبقوں تک سمٹ گیا۔ شماریات کا زوال دراصل فکری زوال کی علامت ہے۔ جب اعداد و شمار کو غیرضروری سمجھا جانے لگے، تو معاشی کمزوری، کرپشن اور بدانتظامی نے جڑ پکڑ لی۔ ماضی کی مسلم ریاستیں جنھوں نے کبھی “دیوان الاحصاء” جیسے ادارے قائم کیے تھے، رفتہ رفتہ اعداد و شمار کے علم سے بے نیاز ہوگئیں۔ اس علمی خلا نے نہ صرف حکومتی نظام کو کمزور کیا، بلکہ سائنسی ترقی کا دروازہ بھی بند کر دیا۔ جدید دور میں یہی سبق ہمارے سامنے ہے کہ اگر کسی قوم کو دوبارہ عروج حاصل کرنا ہے تو اسے اپنے فیصلے حقائق اور اعداد و شمار کی بنیاد پر کرنے ہوں گے۔ قومیں جذبات سے نہیں، ڈیٹا سے ترقی کرتی ہیں۔ شماریات ہی وہ علم ہے جو زوال کے اندھیروں میں روشنی کا کام دیتا ہے — کیوں کہ جو قوم اپنے حالات کو گننے، سمجھنے اور جانچنے سے غافل ہو جائے، وہ خود اپنی تاریخ سے مٹ جاتی ہے۔
تنظیم سازی میں شماریات کی اہمیت
کسی بھی ادارے یا تنظیم کی کامیابی کا انحصار اس کے نظم و ضبط، درست منصوبہ بندی اور باخبر فیصلہ سازی پر ہوتا ہے — اور یہ تینوں عناصر شماریات کے بغیر ممکن نہیں۔ شماریات دراصل تنظیمی بصیرت فراہم کرتی ہے، جو کسی بھی ادارے کی بنیاد کو مضبوط بناتی ہے۔ ایک اچھی تنظیم ہمیشہ اپنے انسانی وسائل، کارکردگی، مالی وسائل، اہداف اور نتائج کو عددی پیمانے پر جانچتی ہے۔ اعداد و شمار سے تنظیم کے رہنما یہ جان سکتے ہیں کہ ادارے کے کون سے شعبے زیادہ مؤثر ہیں، کہاں وسائل ضائع ہو رہے ہیں اور کس سمت میں بہتری کی ضرورت ہے۔ مثلاً ایک تعلیمی ادارہ اگر طلبا کی حاضری، امتحانی نتائج اور اساتذہ کی کارکردگی کے اعداد و شمار باقاعدگی سے جمع کرے تو وہ آسانی سے اپنی کمزوریوں کی نشان دہی کر کے ترقی کی بہتر حکمتِ عملی بنا سکتا ہے۔ اسی طرح کسی سرکاری محکمے کے لیے اعداد و شمار اس کے منصوبوں، کارکردگی اور عوامی اطمینان کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بھی تنظیمی نظام شماریات کی بنیاد پر استوار تھا۔ اگر کسی تنظیم کے پاس اعداد و شمار نہ ہوں تو وہ بغیر نقشے کے سفر کرنے والی کشتی کی مانند ہے جو راستہ کھو بیٹھتی ہے۔ نتیجہ شماریات دراصل علمِ فیصلے ہے۔
اگر قومیں اپنے وسائل، تعلیم، صحت، دفاع اور معیشت کے درست اعداد و شمار نہ رکھیں تو ترقی محض خواب بن جاتی ہے۔ اسلام نے حساب و کتاب کو انصاف کی بنیاد قرار دیا اور آج کی جدید دنیا میں یہی شماریات شفافیت اور ترقی کی ضمانت ہے۔









