بجٹ 2023-24 اور مہنگائی زدہ عوام - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بجٹ 2023-24 اور مہنگائی زدہ عوام

    سال 2023 میں پیش کیا جانے والا بجٹ عوام کو کوئی ریلیف دے پائے گا؟ مہنگائی میں پستی ہوئی عوام کو بجٹ سے کیا توقعات وابستہ ہیں ؟

    By Fahad Muhammad Adiel Published on Jun 08, 2023 Views 606

    بجٹ 2023-24 ء اور مہنگائی زدہ عوام

    فہدمحمد عدیل۔ گوجرانوالہ


    وفاقی وزیرخزانہ نے9 جون  2023ء کو بجٹ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس بجٹ میں عوام کی کیا توقعات ہوسکتی ہیں؟ اور مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام کے لیے کوئی ریلیف ہوگا یا کہ نہیں، اس بات کا انحصار اس حقیقت پر ہے کہ وطنِ عزیز کی تاریخ میں کبھی بھی عوامی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی فیصلے نہیں کیے گئے۔ مالیاتی پالیسی ملکی معیشت کا رخ متعین کرتی ہے، جس کا ایک اہم جزو سالانہ وفاقی اور صوبائی میزانیہ یعنی بجٹ ہوتا ہے، جس میں حکومتیں اپنے اخراجات اور آمدنیوں کی ترجیجات کا تعین کرتے ہوئے سالانہ تخمینہ جات مرتب کرتی ہیں، ایک فرد کی معاشی بہتر حالت کی طرح ملک کی آمدن اور اخراجات متوازن ہونی چاہیے، مگر کیا کہیے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہمیشہ سے خسارے کے بجٹ پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ سال2023 ءمیں بھی حکومت کا کل بجٹ تقریباً  14,600ارب روپے کے اخراجات پر مشتمل، جب کہ آمدنی کا تخمینہ 9,200 ارب روپے ہےاورتقریباً 5,400 ارب روپےکا خسارہ ہے ۔ اخراجات میں پچھلے سال کی نسبت 50فی صد  اضافہ ہے، جس کی وَجہ افراطِ زر کا 48فی صد تک چلے جانا، اور ڈالر ریٹ اور گولڈ کی قیمتوں کا تقریباً دوگنا ہو جانا ہے۔ اگر اخراجات کی بات کی جائے تو اخراجات کا 64فی صد حصہ قرضوں (بمعہ سود) کی ادائیگیوں اور فوجی اخراجات پر مشتمل ہے ۔ بقیہ 36فی صد حصہ میں تعلیم، امن و امان، صحت ،ترقیاتی اخراجات وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ مگر یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوسکے گا، جب تقریباً ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی اداروں سے مزید قرضہ لیا جائے گا، جس میں سر فہرست آئی ایم ایف کا بیل آوٹ پیکیج ہے، جس میں جانے کے لیے حکومت نومبر  2022ء سے سر توڑ کوششیں کررہی ہے، مگر ابھی تک سٹاف لیول کا معاہدہ بھی عمل میں نہیں آسکا۔ حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف وفد کا نیا مطالبہ ملک میں امن و امان اور آئین اور قانون کی بالادستی کی شرط میں سامنے آیا ہے، جس پر حکومتی نمائندوں کی چیخیں نکل رہی ہیں اور آئی ایم ایف کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کہا جا رہا ہے، اس کے برعکس اگر آئی ایم ایف، پٹرول ،بجلی کی قیمتوں کا تعین ،تنخواہوں ، پنشنز میں کٹوتی کرے تو وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے ۔ جون 2024ء تک پاکستانی حکومت نے لگ بھگ 16ارب ڈالرز کی قرضوں اور سود کی مد میں بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں ،اگر حکومت ادئیگیاں کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ملک کو ڈیفالٹ ڈیکلیئر کردیا جائے گا۔مزید یہ کہ ورلڈ بینک ،ایشین ڈیویلپمنٹ بینک اور دوست ممالک کے قرضہ جات بھی آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط ہوں گے۔

    اپریل 2021ء میں شائع ہونے والی اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کلاس حکومت سے  17.4 ارب ڈالرز کی سالانہ مراعات حاصل کرتی ہے، اشرافیہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ سب سے پہلے ایک فی صد امیر ترین طبقہ جس میں فیوڈل زمین دار جو کہ پاکستان کے 22فی صد قابل کاشت رقبہ پر مسلط ہے اور دوسرے نمبر پر ملک کا طاقت ور ادارہ ملٹری جوکہ کمرشل زمینوں، انفراسٹرکچر اورٹیکس مراعات کی صورت میں لگ بھگ 1.7 ارب ڈالرز کی مراعات حاصل کرتا ہے۔ملکی اشرافیہ کا  20فی صد حصہ قومی آمدن اور وسائل کے 50 فی صد حصہ پر قابض ہے ۔ بجٹ میں غیرپیداواری اخراجات کا ایک بڑا حصہ، حکومتی عہدیداران کی شاہانہ مراعات، بیوروکریسی کی لامحدود مسرفانہ سہولیات اور ترقیاتی اخراجات میں کرپشن پر صرف ہو جاتا ہے۔

    بجٹ آمدن کی اگر بات کی جائے تو ملک میں رجیم چینج آپریشن کے بعد بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے بالواسطہ ٹیکسز یعنی ،پٹرول ، گیس،بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور سیلز ٹیکس کی شرح کو 18فی صد تک بڑھایا، جس سےملک میں اشیا حقیقی قیمتوں کے بجائے مصنوعی قیمتوں پر فروخت ہونا شروع ہو گئیں اور نتیجتاً ملک میں مہنگائی اور افرطِ زر کی شرح 48فی صد،ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی،مگر دوسری طرف ملک کا امیر طبقہ آج بھی آمدن کے لحاظ سے ٹیکس میں حصہ ڈالنے سے کہیں دور کھڑا ہے ۔ ملکی زرعی پیداوار کا ٹوٹل حجم تقریباً  1200 ارب روپے، جب کہ ٹیکس کولیکشن صرف  2ارب روپے ہے، اسی طرح پراپرٹی کی کل آمدن4000 ارب ہے، جب کہ ٹیکس میں حصہ صرف  16ارب ہے ۔ پاکستان کا کاروباری حجم (انڈسٹری، مینوفیکچرر، ریٹیلرز، تاجر) تقریباً 15,600  ارب روپے، جب کہ ٹیکس کا حصہ محض 25 ارب روپے ہے۔ مندرجہ بالا تین شعبوں کی آمدنی کا صرف 0.20فی صد حصہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے ۔تو ملک کیوں کر مقروض، مفلوک اور محروم نہ ہو۔ حکومتیں جتنا مرضی غریبوں پر ٹیکسز کا بوجھ لادتی جائیں ، جس قدر بھی ٹیکسز کی شرح بڑھائی جائے، جب تک امیر طبقہ سے ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، کوئی آئی ایم ایف پروگرام،کوئی چائنا،سعودی عرب دوستی عوام کی معاشی حالت کو بہتر نہیں کرسکتی۔ بالفاظ دیگر پاکستان امرا، اشرافیہ اور طاقت ور لوگوں کے لیے جنت ہے  اور محنت کش اور عوام الناس کے لیے جہنم ہے۔

    حالیہ مردم شماری کے غیرحتمی نتائج کے مطابق ملک کی اس وقت آبادی لگ بھگ 25 کروڑ افراد تک پہنچ گئی ہے۔ اور عموماً معاشروں میں معاشی حوالے سے تین سطح کے افراد ہوتے ہیں۔ امیر، متوسط اور غریب ، لیکن دنیا کے کچھ ایسے ممالک بھی ہیں، جن میں غربت سے بھی نچلی سطح ہوتی ہے، یہاں کے حکمرانوں نے معاشی تباہی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ملک میں 10فی صد  یعنی اڑھائی کروڑ افراد وہ ہیں جو کہ خطِ غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یعنی دو وقت کی روٹی سے بھی محروم غذائی کمی کا شکار بچے اور آلودہ پانی پینے پر مجبور یہاں کی مجبورو مقہور انسانیت جس پر سرمایہ داریت اور جاگیرداریت کا نظام ظلم پچھلے 75 سالوں سے مسلط ہے۔ موجودہ حکومت کی معاشی ظلم پر مبنی پالیسیز کے نتیجے میں معاشی نمو کی شرح منفی 4.4 فی صد تک پہنچنے کی توقع کی جارہی ہے، جس کی بڑی وجہ ملک میں بےروزگاری اور بڑے پیمانے پر صنعتوں کا بند ہونا ہے۔

    اس ساری صورتِ حال میں مالیاتی بجٹ کا اعلان عوام کی معاشی زندگیوں میں کیا تبدیلی پیدا کرے گا؟ مہنگائی سے عوام کو کس حد ریلیف مل سکے گا؟ اس کے بارے میں تو نہیں کہا جاسکتا، مگر موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں یہاں کا اشرافیہ ، طاقت ور اور امیر طبقہ مزید امیر تر ہوتا چلاجائے گا اور دولت کی بنیاد پر یہاں کے محنت کش طبقات اور عوام الناس پر زندگی تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے گی۔ 

    ایسی صورتِ حال میں ملک کے حالات کسی انقلابی تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں کہ جب تک سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرکے عدل و انصاف کی بنیاد پر اجتماعی اور قومی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشی پالیسیز اور نظام کی تشکیل نہ کی جائے، اس وقت تک نہ تو عوام الناس کو کوئی بڑا ریلیف مل سکتا ہے اور نہ ہی معاشی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔

    Share via Whatsapp