روایتی بازار اور سپر مارکیٹیں: مسائل اور حل
چھوٹے اور بڑے شہروں میں بازار لوگوں کی سماجی، ثقافتی اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز رہے ہیں۔ جہاں مختلف طبقات کے لوگ ملتے ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کرتے
روایتی بازار اور سپر مارکیٹیں: مسائل اور حل
تحریر؛ پروفیسر رحیم بخش سومرو، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سندھ
چھوٹے اور بڑے شہروں میں بازار لوگوں کی سماجی،ثقافتی اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز رہے ہیں،جہاں مختلف طبقات کے لوگ ملتے ہیں، اپنے خیالات کا اِظہار کرتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی جماعت قائم ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے مختلف دکانوں پر جانا پڑتا ہے اور یہ عمل اکثر لوگوں کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ کے طریقے یکسر بدل گئے ہیں۔ آن لائن مارکیٹس قائم کی گئی ہیں،جہاں لوگ آسانی سے اپنے گھروں سے مصنوعات خرید سکتے ہیں۔ آج آن لائن بازاروں کے ساتھ ساتھ ملک کے کونے کونے میں سپر مارکیٹیں بھی قائم ہو چکی ہیں۔ مارکیٹنگ کی زبان میں انھیں مقامی جدید تجارتی(Local Modern Trade) طریقے کہا جاتا ہے۔ آپ کو پاکستان کے تمام اضلاع میں ایسے بڑے جدید شاپنگ سینٹرز (Superstores/Supermarkets) مل سکتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر نجی افراد کی ملکیت ہیں۔ یہ بہت بڑے شاپنگ مالز تیزی سے بنائے جارہے ہیں۔اس قسم کے بڑے شاپنگ سینٹرز میں خریداروں کے لیے بہت سی سہولیات ہیں جیسے ایئرکنڈیشنڈ عمارتیں،خصوصی کاؤنٹر یا ڈپارٹمنٹ،گاڑیوں کے لیے پارکنگ،ریستوراں،صفائی،حفاظت اور حفاظت اور بہت سی دوسری سہولیات۔ یہ سہولیات گاہکوں کو مؤثر طریقے سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ان سہولیات کے علاوہ، ان جدید شاپنگ سینٹرز میں مقامی سطح پر تیار کردہ اور درآمد شدہ اشیا مناسب قیمتوں پر ملنے کی سہولت ہوتی ہے ۔ روزانہ ہر طبقے کے استعمال کی تقریباً تمام اقسام کی مصنوعات (سبزیاں، تازہ اور خشک میوہ جات، گھریلو سامان، ادویات، کھلونے، دودھ کی مصنوعات، کچن کے سامان، گھریلو صفائی کی مصنوعات، ادویات اور پالتو جانوروں کا سامان اور بہت کچھ) ایک ہی چھت کے نیچے آسانی سے فروخت کی جاتی ہیں۔ ایک طرف تو یہ جدید سٹورز پہلے بیان کی گئی بہترین سہولیات اور مصنوعات فراہم کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف اس طرح کے تجارتی مراکز ایک بڑے معاشی بحران کا بھی حصہ بن رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں سات لاکھ سے زیادہ گروسری اسٹورز ہیں۔ جنرل سٹور،میڈیکل سٹور اور دیگر اقسام کی دکانیں اس کے علاوہ ہیں۔ اَب تک ان روایتی دکانوں پر روزانہ استعمال کی 70 فی صد اشیا فروخت ہورہی ہیں۔ جب کہ یہ جدید اسٹورز اپنے صارفین کو روزانہ استعمال کی 20 فی صد اشیا فروخت کررہے ہیں،جس طرح یہ بڑھ رہے ہیں، بہت جلد یہ نئی اور بڑی دکانیں ان روایتی دکانوں کی مکمل بندش کا ایک بڑا سبب بن جائیں گی۔ پہلے کے مقابلے میں آپ دیکھیں گے کہ ان جدید دکانوں کے ایک کلومیٹر کے اندر، آپ کو اپنے شہر میں کوئی روایتی دکان نہیں ملے گی۔ یا تو یہ روایتی دکانیں بند ہوگئی ہیں یا پھر صارف نے ان سے خریداری کرنا چھوڑ دی ہے۔ عام طور پر کسی بھی جدید سپراسٹور میں 100 سے 500 روایتی اسٹورز جیسی مختلف قسم کی مصنوعات فروخت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں بہت سے جدیداسٹورز کھل چکے ہیں، جہاں وہ ایک وقت میں 30,000 سے 50,000 مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جدیداسٹورز میں صارفین کو درکار تقریباً تمام مصنوعات ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہیں۔ اس طرح وہ لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کررہے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگوں کے لیے روزگار کے سینکڑوں مواقع پیدا کررہے ہیں، لیکن دوسری طرف روزگار کے لاکھوں مواقع کو تباہ کررہے ہیں۔ چوں کہ یہ جدید اسٹورز بہت سی کمپنیوں سے بڑی تعداد میں مصنوعات خریدتے ہیں، اس لیے وہ یہ مصنوعات باقاعدہ خریداروں کے مقابلے میں بہت کم قیمت پر حاصل کرسکتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، یہ سپراسٹورز روایتی اسٹورز کے مقابلے میں بہت سستی قیمتوں پر فروخت کررہے ہیں۔ دوسری طرف، جنرل سٹور کے اندر محدود جگہ اور کم گردش کی وَجہ سے کوئی بھی مینوفیکچرنگ کمپنیوں سے بڑی تعداد میں مصنوعات خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے نتیجے میں جہاں جدید سپراسٹورز اپنی مصنوعات اسی قیمت پر فروخت کررہے ہیں وہیں چھوٹے تاجر اپنی مصنوعات فروخت نہیں کرسکتے۔ ہر روایتی دکان بہت سے لوگوں کے روزگار سے وابستہ ہوتی ہے، جیسے دکان کے مالک اور کارکنان اور ان کے خاندان۔ اگر یہ روایتی دکانیں بند ہوگئیں تو بہت سے لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔ آج کل جدید سپراسٹورز مالکان تجارتی سامان (Inventory) کی بہتر طریقے سے جانچ پڑتال کرنے کے لیے اور صارفین کی خدمت کے لیے روبوٹس کی طرف رجوع کررہے ہیں۔ سپرمارکیٹوں میں روبوٹس کا داخلہ سپراسٹورز کے عملے کے ارکان کی بے روزگاری کی ایک اور اہم وَجہ ہوگی اور اس کے نتیجے میں بہت سے خاندان اور افراد معاشی مشکلات کا شکار ہوں گے۔ اس قسم کی معاشی بدحالی سے معاشرے میں چوری، فساد اور دیگر سماجی برائیوں میں اضافہ ہوگا۔ کسی شخص کی عزت اور جان محفوظ نہیں رہے گا، جیساکہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے۔ یہ روایتی اسٹورز جو بھی منافع کماتے ہیں وہ ان سے وابستہ لوگوں اور خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید سپراسٹورز کی صورت میں 500 اسٹورز کے برابر منافع چند افراد یا خاندانوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ سپرسٹور جتنا بڑا ہوگا منافع اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں معاشرے میں دولت کا ارتکاز (Concentration of Wealth) بڑھتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دولت چند افراد اور خاندانوں میں مرتکز ہورہی ہے۔ معاشرے میں دولت کی گردش اتنی ہی اہم ہے جتنی انسانی جسم میں خون کی گردش۔ اگر انسانی جسم کے کسی حصے میں خون گردش نہ کرے تو جسم کا وہ حصہ غیرفعال ہوجائے گا۔ اس طرح اگر معاشرے کے کسی حصے میں دولت گردش نہ کرے تو معاشرے کا وہ حصہ غیرفعال ہوجائے گا۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں انسانی اخلاق تباہ ہوجائے گا، پہلے ہی آپ غریب اور امیر میں واضح فرق آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ اس قسم کے کاروبار اس فرق کو اور بھی بڑھا رہے ہیں۔ برعظیم کے عظیم مفکر امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ مالی مسائل لوگوں کے اخلاق کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اخلاقیات کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں سے بہتر انداز میں بات کرتے ہوئے ہمارے اعمال انسانیت کے لیے فائدہ مند ہوں۔ لوگوں کے غیراخلاقی رویے کی سب سے بڑی وَجہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ اسلام معاش کا حق (معاشی وسائل میں تمام انسانوں کا مساوی حصہ) اور محنت اور سرمائے کے درمیان توازن پر خاص توجہ مرکز کرتا ہے۔ اس طرح کے کاروبار اور دوسرے بڑے نجی کاروبار معاشرے میں دولت کا ارتکاز پیدا کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کی اکثریت دولت سے محروم ہے اور معاشی تنگ دستی میں زندگی گزار رہی ہے۔ معاشی ناہمواری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو ان بڑے کاروباروں کو اپنی تحویل میں لینا چاہیے۔ اس سلسلے میں حکومت پہلے ہی ملک میں یوٹیلٹی سٹورز چلا رہی ہے۔ سٹورز کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور مالی بدعنوانیوں کے مکمل خاتمے کے لیے مناسب انتظام کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح یوٹیلیٹی سٹورز نہ صرف مناسب قیمتوں پر معیاری مصنوعات فراہم کریں گے، بلکہ روزگار کے بہت سے مواقع بھی فراہم کریں گے۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر ان تمام سرگرمیوں سے حاصل ہونے والا منافع سرکاری خزانے میں جائے گا اور اس منافع کو پاکستان کے عوام کو صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اس سال سب سے زیادہ منافع ایک اسلامی بینک نے کمایا ہے جو تقریباً 48 ارب روپے ہے۔ اس منافع کا بڑا حصہ چند خاندانوں کی جیبوں میں جائے گا۔ اس کے نتیجے میں یہ لوگ اور بھی امیر ہو جائیں گے۔ لیکن اگر یہ مالیاتی ادارے حکومت کے کنٹرول میں ہوتے تو یہ بھاری منافع عام لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا۔