پاکستان کے ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کش طبقات
پاکستان میں موجود ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کش طبقات کو جو مسائل پیش ہیں وہ موجودہ نظام میں حل نہیں ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کش طبقات
تحریر؛ فہدمحمد عدیل۔ گوجرانوالہ
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جہاں سیاسی اور اقتصادی بحرانات نے اس خطے پر پنجے جمائے وہیں پر تعلیم و تعلم کے میدان بھی اجتماعی طور پر معاشرے کے افراد کے سامنے نہ کسی منزل کا تعین کیا گیا اور نہ کوئی پالیسی بنائی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں پر محنت کش طبقہ، مزدور اور کسان کی ذہنی حالت آج سے سو سال پیچھے ہے۔ ماہرین معاشیات لٹریسی ریٹ کی بنیاد پر ملکوں کے عوام کی تعلیمی حالت کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ پاکستان کا ہمسایہ ممالک کے ساتھ جب موازنہ کیا جائے تو چائینہ میں لٹریسی کی شرح 96%، سری لنکا 93%، ایرن 87%، ہندوستان 72% ، بنگلہ دیش 61%a اور پاکستان 56% ، جس کا براہ راست اثر سماج کے کمانے والے طبقات (قوت کاسبہ) پر پڑتا ہے۔ جتنی تعلیمی حالت کسی ملک کی بہتر ہوگی اتنا ہی مزدور ہنر مند اور معاشرے کا مفید طبقہ ہوگا۔
اگر مجموعی محنت کش طبقات کی بات کی جائے تو فرسودہ تعلیمی پالیسیز اور طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے یہاں کا اکثریتی مزدور طبقہ بنیادی اور تکنیکی تعلیم سے محروم ہے۔ جس کا یہ نتیجہ ہے دنیا میں ہونے والی جدید ترین ایجادات ، اور اس کی بنیاد پر زراعتی اور صنعتی ترقی کی رفتار ملک میں انتہائی سست ہے۔ یہاں کی زراعت اور صنعت مزدوروں کے غیر ہنر مند ہونے کہ وجہ سے مکمل طور پر سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقات کے مرہون منت ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں محنت و افرادی قوت کے محکمہ جات صوبوں کو تفویض کیے جانے کے بعد بھی اس شعبہ میں ترقی کے بجائے زوال کا دور دورہ ہے۔ باوجود اس بات کے کہ صوبائی حکومتیں کم سے کم شرح اجرت برائے ہنر مند و غیر ہنر مند افراد کا تعین کرتی ہیں، ان کے لیے صحت ، تعلیم کی سہولیات کی پالیسیز بنائی جاتی ہیں مگر سرمایہ دار کی معاشرتی گرفت ، زراعت و صنعت پر اجارہ داری کی وجہ سے محنت کشوں کے حوالے بنائی جانے والی تمام تر پالیسیز کے اثرات و ثمرات سے محنت کش طبقہ محروم رہتا ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی ۲۹ اپریل ۲۰۲۳ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سندھ میں صنعتی مزدوروں کی تعداد 30 لاکھ سے کم نہیں مگر اداروں کے تحت رجسٹرد افراد صرف 5 لاکھ ہیں جو کہ کسی نہ کسی درجے میں حکومتی سہولیات کو حاصل کر پاتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں رجسٹرڈ صنعتی مزدوروں کی تعداد صرف ساڑھے نو لاکھ کے قریب ہے۔ دیہاتوں میں کام کرنے والے مزدور کسانوں ، تعمیراتی شعبہ میں کام کرنے والے مزدوروں کی کسی قسم کی رجسٹریشن کا نہ تو ملک میں کوئی میکانزم موجود ہے نہ ہی ارباب اختیار کے پاس ان کے مسائل کو سوچنے کے لیے ٹائم ہے۔
غیر ہنر مند اور کم ہنر مند مزدور میں نہ صرف اجتماعیت کا فقدان ہے بلکہ اپنے حقوق کے شعور سے محروم یہ محنت کش طبقہ سرمایہ داروں، فیکٹری اونرز اور تاجروں کے رحم و کرم پر جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سال 2022-23 میں مہنگائی کی شرح 50% سے 60% تک جا چکی ہے مگر کیا صنعتی اداروں کے مالکان اس شرح سے اجرتوں میں بھی اضافہ کریں گے؟ کم اجرت پرکام کرنے پر مجبور ہنر مند افراد بیرون ملک جانے کے خواب دیکھتا ہے ، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں لگ بھگ 765000 اعلی تعلیم یافتہ افراد پاکستان کو چھوڑ چکے ہیں ۔ جس ملک میں ایک سال میں اتنے پڑھے لکھے افراد چھوڑ کر چلے جائیں اس ملک میں تعلیم و تعلم کا ماحول کس طرح سے پیدا ہو سکتا ہے۔ مندرجہ بالا رپورٹ کے مطابق بیرون ملک ہجرت کرجانے والے افراد کی تعداد تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ کے قریب ہے۔ بالفاظ دیگر ملکی آبادی کا لگ بھگ 5% انتہائی پڑھا لکھا طبقہ اس دھرتی ماں کو چھوڑنے پر مجبور ہے جس کی کوکھ سے اس نے جنم لیا۔ وہ دنیا کے دوسرے ممالک کی ترقی میں دن رات مصروف عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کونسے ایسے حالات ہیں جن کی وجہ سے وہ یہاں سے جانے پر مجبور ہوا اور کیا حالات ہیں جس وجہ سے وہ واپس ملک میں آ کر اپنی خدمات ادا کرنے سے قاصر ہے؟ نہ تو ان سوالات کا جواب یہاں کی مقتدرہ کے پاس ہے اور نہ ہی وہ اس بات پر غور کرنا چاہتے ہیں۔
ملک کی ہچکولے کھاتی ہوئی معیشت اور اشرافیہ و مقتدرہ کی آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی 75 سالہ تاریخ ملک کے پڑھے لکھے ، محنت کش اور ہنرمند طبقات کو متنفر کر چکی ہے۔ ہر سطح کا تعلیم یافتہ طبقہ ملک سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ملک میں کام کرنے والا نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند محنت کش طبقہ سرمایہ داروں کی ایما پر جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ سخت ترین معاشی حالات کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے سے بھی عاجز آ چکا ہے ۔ ان حالات سے مجبور وہ اپنے بچوں کو دکانوں ، اور بچیوں کو بڑے بڑے گھروں میں محنت اور مزدوری کروا کر زندگی گزار رہا ہے۔ بظاہر اس ملک میں چاٗئلڈ لیبر ممنوع ہے مگر اشرافیہ کلاس کے گھروں میں نہ صرف چائلڈ لیبر بلکہ محنت کش بچیوں پر مظالم کی داستانیں آئے روز یہاں کے اخباروں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مگر ان کے مظالم کی داد رسی تو درکنار ان کے مسائل پر سوچنا بھی یہاں پر جرم بن چکا ہے۔
ہر سال یکم مئی کو یوم مزدور منانے والی یہاں پر مزدوروں کی تنظیمیں اس ملک میں محنت کش طبقات کے مفادات میں تبدیلی لانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ فیکٹریوں کی سطح پر سی بی آئی یونینز کے عہدیداران سرمایہ دار مالکان کے ساتھ مل کے اپنے مفادات تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اجتماعی طور پر معاشرے کے محنت کش طبقات کے لیے کسی خاطر خواہ تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتے ۔ ان حالات و واقعات میں جب تک اس ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر توڑ کے اس کی جگہ سرمایہ اور محنت کے درمیان عادلانہ پیدائش دولت، تقسیم دولت ، صرف دولت اور تبادلہ دولت کا نظام قائم نہیں کیا جاتا ملک میں مزدورں اور محنت کشوں کے مظالم کی داد رسی نہیں ہو سکتی۔