وسائل سب کے لئے
محروم المعیشت طبقات مختصر حصہ حاصل کرنے کی دوڈ میں لگے اپنے حق سے غافل رہتے ہیں اور سرمایہ دار ان کو یقین دہانی کراتے رہتے ہیں کہ تم ہی نا اہل ہو ۔
وسائل سب کے لیے
تحریر: محمودالحسن، راولپنڈی
امام شاہ ولی اللہؒ نے انسان کی کچھ خصوصیات بتائی ہیں جو اس کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں، ان میں سے ایک رائے کلی ہے،یعنی صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ سب کی بہتری و بھلائی کے لیے سوچنا۔ اس خصوصیت کی بنا پر انسان اجتماعیت پیدا کرتا ہے اور اجتماعیت میں اللہ تعالیٰ نے جو برکتیں رکھی ہیں، ان سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کوئی کسان، کوئی معالج، کوئی تاجر اور اسی طرح کے کئی کام اور ہزاروں طرح کے پیشے ہیں جو سب اجتماعیت کو فائدہ اور قائم رکھنے میں مدد فراہم ہیں۔ یہ اسی وَجہ سے ہے کہ ہر شخص دیگر تمام لوگوں کے فائدے کے لیے کام کرتا ہے اور خود اپنی ضروریات باقی تمام لوگوں سے حاصل کرتا ہے۔
وقتاً فوقتاً اجتماعیت میں کچھ افراد کو یہ بات سمجھنے میں مشکل درپیش آتی ہے کہ وہ اجتماعیت میں سب کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اور اجتماعیت سے جو فوائد پیدا ہو رہے ہیں، اس میں پوری اجتماعیت کی مشترکہ محنت شامل ہے۔ انسان میں دو بہت اہم عناصر مادہ اور روح موجود ہے، مادی بہیمیت کے غلبے کی وَجہ سے ان کو غلط فہمی لاحق ہوجاتی ہے کہ ان کی محنت شاید باقیوں کی محنت پر فوقیت رکھتی ہے اور وہ زیادہ نتائج کے حق دار ہیں۔ یہ غلط اس لیے ہے کہ کسی بھی ایک شخص کو اکیلے کسی جنگل یا غیرآباد علاقے میں رہنا پڑ جائے تو وہ جانوروں کی سی زندگی گزار کر جلدی موت کا شکار ہوجائے گا۔ چاہے اس شخص نے اس سے پہلے اجتماعیت سے کتنے علوم ہی کیوں نہ حاصل کیے ہوں اور کتنی ہی شان دار مہارتیں کیوں نہ سیکھی ہوں۔ اس لیے یہ تمام علوم اور تمام مہارتیں جو اجتماعیت کی وَجہ سے حاصل ہوئیں اور اجتماعیت میں ہی کارآمد ہیں تو اس کے نتائج میں بھی تمام اجتماعیت شامل ہے۔ اور یہی بات رائے کلی کی عکاسی کرتی ہے۔
دوسری غلط فہمی بنیادی وسائل کی ملکیت کے حوالے سے ہوجاتی ہے۔ ہر انسان صلاحیتوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایک شخص میں تمام کاموں کی صلاحیت نہیں پائی جاتی، اور جو چند صلاحیتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے عموماً ایک دو میں اعلی مہارت حاصل ہوتی ہے۔ اور انسان کو اگر بہت سی مہارتیں حاصل ہو بھی جائیں تو جسمانی طور پر اس کے لیے ممکن نہیں کہ اپنے تمام کام خود سے اور عمدہ طریقے پر کرسکے۔ اس لیے اجتماعیت بنائی جاتی ہے کہ ہر شخص اپنی صلاحیتوں میں سے کوئی ایک کام اپنے ذمے لے کر اس میں اپنی مہارت سے اجتماعیت کو فائدہ پہنچائے اور بدلے میں خود اجتماعیت کی مہارتوں سے مستفید ہو۔ اسی طرح بنیادی وسائل جیسے زمین وغیرہ کچھ افراد کے ذمے لگا دی جاتی ہے کہ وہ اس سے معاشرے کے فائدے کا سامان پیدا کریں۔ لیکن جب اس طرح ذمہ داریاں سونپنے کا باقاعدہ نظام موجود نہیں ہوتا تو لوگ خود سے یہ کام اپنے ذمے لیتے ہیں اور کچھ غلط فہمی میں بہت زیادہ وسائل پر قبضہ کرکے اور اس کو اجتماعیت کے فائدے کا سامان پیدا کرنے کے بجائے محض اپنی ملکیت سمجھ لیتے ہیں اور جیسے قارون نے کہا تھا کہ ’’یہ تمام دولت جو میرے پاس ہے یہ میں نے اپنی مہارت سے حاصل کی ہے‘‘، اسی طرح آج کے چالاک لوگ جو سیاست کے ذریعے سماج میں بالادستی حاصل کرلیتے ہیں وہ بھی وسائل کو ہتھیا کر اور وسائل پر قبضہ کرکے، اجتماعی محنت سے پیدا ہونے والی دولت اور وسائل میں اجتماعیت کے حصے کا تعین نہیں کرتے۔
محقق علمائےاسلام نے اجتماع میں دولت کے حوالے سے معاشی تناظر میں چند اصول متعارف کرائے ہیں۔
1۔ حق معیشت میں مساوات: یعنی اجتماعیت کے فائدے کے کام کرنے کے لیے تمام افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق بالکل یکساں مواقع ( وسائل ، علوم اور مہارتیں ) مہیا کیے جائیں۔
2۔ درجات معیشت میں تفاوت: جب ہر شخص اجتماعیت کے فائدے کے لیے کام کرے گا تو کچھ افراد اپنی صلاحیتوں اور زیادہ محنت کی وَجہ سے اجتماعیت کے لیے زیادہ مفید ہوں تو یقیناً اضافی حصے کے حق دار ہوں گے۔ مگر اس سے پہلے تمام افراد جو اجتماعیت میں محنت کریں ان کو اس قدر حصہ ملنا چاہیے کہ عصرحاضر کے مطابق ان کی ضروریات عمدہ طریقے پر پوری ہوجائیں۔
3۔ احتکار و اکتناز کی ممانعت: یعنی سماج میں جتنے بھی وسائل معاش ہیں اور وسائل سے پیدا شدہ دولت، وہ کسی ایک طبقے میں جمع نہ ہو، بلکہ پوری سوسائٹی میں عدل کے مطابق تقسیم ہو۔
4۔ سرمایہ اور محنت میں توازن: یعنی باہمی تعاون کے اصول پر معاشی اشتراکِ عمل ہو، جس سے پورے سماج میں سب انسانوں کو نفع حاصل ہو اور کوئی تنازع پیدا نہ ہو۔
کسی بھی اجتماعیت کا نظام ایسے افراد کے ہاتھ میں ہونا چاہیے جو رائے کلی کے ان اصولوں کو سمجھ سکیں، غلط فہمیوں کے شکار افراد نظام کے اہل نہیں ہوسکتے۔ سرمایہ دار طبقہ نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے اس لیے کوشاں رہتا ہے کہ رائے کلی (اجتماعی بھلائی) کے نظام کو رائے جزئی (اِنفرادی مفاد) کے نظام سے بدل دے اور اجتماعیت میں موجود افراد کو اپنی گمراہ خیالیوں پر قائل کرکے ہر چیز پر قابض ہو جائے۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح یہ طبقہ نوجوان کو خوف دِلاتا ہے کہ مصنوعی ذہین مشین اس کے روزگار کو کھا جائے گی۔ یہ آج کی کہانی نہیں، بلکہ مشین کی ایجاد کے وقت سے ایسا ہے۔ وسائل اور نظام پر قابض طبقہ حقیقت کے متضاد تصویر کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مشین کی ایجاد اور اَب مصنوعی ذہین مشین کا لازمی نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے کہ اَب انسان پہلے سے بھی کم محنت کرکے زیادہ نتائج حاصل کر لیں اور جن افراد کو پہلے کم وسائل دستیاب تھے، اَب ان کو بھی حاصل ہوجائیں۔ مگر سرمایہ دار طبقہ، افراد پر محنت کا بوجھ کم کرنے کے بجائے، کم افراد سے ساری محنت کرا کے ان کو مختصر معاوضہ پر مطمئن اور دیگر کو بالکل محروم کرکے سارا حصہ خود اڑانا چاہتا ہے جوکہ حق معیشت میں مساوات کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال میں مختصر اور محروم المعیشت طبقات مختصر حصہ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ کر اپنے حقوق سے غافل رہتے ہیں اور سرمایہ دار ان کو یقین دہانی کراتے رہتے ہیں کہ تم ہی نا اہل ہو کہ محنت کرکے اپنا حصہ حاصل نہیں کر پا رہے، مزید محنت کرو، مزید اپنی صلاحیتوں کو چمکاؤ۔
لہٰذا ضروری ہے کہ رائے کلی کی اساس پر ایسا صالح اجتماعی سماج قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے، جس کے نتیجے میں تمام مخلوقِ خدا تمام وسائل سے یکساں طور پر مستفیض ہو اور کوئی شخص معاشی حوالے سے محروم رہ کر دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے محروم نہ ہوجائے۔