موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے نام پر مالی امداد کی دلدل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے نام پر مالی امداد کی دلدل

    بین الاقوامی فورم پر مالی مدد مانگنے کی بجائے اپنے آبی وسائل کو بہتر طریقے سے بروئے کار لایا جائے...

    By Rao abdul hameed Published on Dec 22, 2022 Views 479
    موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے نام پر مالی امداد کی دلدل
    تحریر: راؤعبدالحمید، لاہور

    پاکستان کو قرض اور مالی امداد اکٹھی کرنے کا ایک نیا حربہ سوجھا ہے اور وہ یہ کہ "سارے ترقی یافتہ ممالک مل کر پاکستان کے نقصان کا ہرجانہ بھریں"۔اس مقصد کے لیے Loss and Damage فنڈ بھی قائم ہوگیا۔ ابھی تک کی معلومات کے مطابق پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی وَجہ سے (پروڈکشنز/انڈسٹریز) کاربن کا اخراج بڑھا ہے،جس سے موسم میں بہت زیادہ تبدیلی واقع ہوئی ہے۔موسم بھی شدت پسند ہوگیا۔ بے وقت موسم گرم ہوجاتا ہے، کبھی بے موسمی سردی پڑ جاتی ہے۔ کبھی شدید برف باری ہوجاتی ہے تو کبھی شدید بارش۔ 
    دنیابھر میں یہ موسمیاتی تبدیلی صرف پاکستان جیسے غریب ملک کو بھگتنا پڑرہی ہے۔ حالیہ سیلاب جس سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے۔ یہ سیلاب اسی کھاتے میں ڈالا جارہا ہے اور دنیابھر سے اس مد میں پیسے اکٹھے کرنے کی مہم عروج پر ہے۔قوی امکان ہے کہ پاکستان کو اس مد میں کچھ قرض اور کچھ امدادی ڈالر مل جائیں گے جو ہوں گے سیلاب سے متاثر لوگوں کی بحالی کے لیے، لیکن حقیقت میں کہاں استعمال ہوں گے یہ تو شاید کوئی پاکستانی نہ جان سکے۔ 
    بہ ظاہر یہ خارجہ پالیسی معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہی موسمیاتی تبدیلی کے بدلے لیا گیا فنڈ، پاکستان کے لیے مستقبل میں گلے کی ہڈی بنے گا۔پہلی بات یہ کہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ یہ پاکستان کی اپنی سوچ ہوکہ ایسا کچھ ہوتا ہے اور دنیا سے پیسے مانگنے بنتے ہیں۔ یہ بھی طاقت ور ملکوں کی آپسی چپقلش (نیچے لگانے کی مہم) ہے۔ ہم بہ طورِ ایندھن استعمال ہوں گے (ہمارا ماضی کا تجربہ بھی ہے، استعمال ہونے کا) ابھی دنیابھر میں میڈیا اور کانفرنسز کے ذریعے یہ باور کرایا جائے گا کہ دیکھو ترقی یافتہ ممالک کی فیکٹریوں کے کاربن اخراج وغیرہ سے پاکستان کو نقصان پہنچا ہے تو اسی طرح کا نقصان یورپ، امریکا اور برطانیہ کو بھی پہنچ سکتا ہے۔ 
    اَب جس جس ملک سے کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ اس کو قابو کیا جائے۔ یہ تو ساری دنیا کے علم میں ہے کہ سب سے زیادہ پیداوار کرنے کا ملک چائنا ہے اور پھر شاید انڈیا اور پھر دیگر ممالک ہیں۔امریکا اپنے اثر و رسوخ سے ان پیداواری ملکوں کو پابند کرے گا، کہ کاربن اخراج وغیرہ کو قابو کریں۔ ورنہ انسانیت کی بقا کے نام پر سیاسی و اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اَب یہ صرف چائنا اور انڈیا جیسے ملکوں کے لیے تو نہیں ہوگا۔ یہ قوانین تو ساری دنیا کے لیے ہوں گے۔ جب یہ قوانین بنیں گے تو ان اقدامات پر عمل کرنے کے لیے پاکستان سب سے کمزور واقع ہوگا (تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے) یہ جو چند ٹکے لیے ہوں گے، اس کے بدلے میں زیادہ بڑا سیاسی و اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
    اس تمہید کے بعد جو سمجھنے کی بات ہے، اس پر غور و فکر اور عمل کرنا چاہیے، کہ گزشتہ دنوں آنے والا سیلاب ہماری آبی بدانتظامی اور بے حسی کا نتیجہ ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ پاکستان کی پیدائش سے اَب تک اوسطاً ہر دہائی میں اتنی ہی تباہی پھیلتی رہی ہے۔ 
    اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ ایک نئے سامراجی پھندے میں اپنی گردن پھنسانے کی بجائے اپنے آبی وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے۔ بارش کو رحمت رہنےدیا جائے، نا کہ بدانتظامی سےزحمت۔آبی وسائل کے بہترین استعمال کے لیے اس شعبے کے ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے... ابھی FATF کی گرے لسٹ/بلیک لسٹ کے ساتھ ساتھ یہ تلوار بھی ہروقت لٹکتی رہے گی۔ 
    (لطیفہ پیش خدمت ہے: ہمارے اداروں کی حالت یہ ہے کہ آج کل سموگ سے بچاؤ کے لیے ضلعی انتظامیہ اور اینٹی سموگ سکواڈ والے ہر فیکٹری پر چھاپہ مار رہے ہیں۔ اکثریت کو سیل، جرمانہ اور ایف آئی آر کاٹ رہے ہیں۔ جیسا مرضی    Scrubber (گیس کو صاف کرنے کا آلہ) لگا ہو، انھوں نے اسے ریجیکٹ ہی کرنا ہوتا ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ آفیسر ہیں، ہماری رہنمائی کریں کہ کس طرح کا اینٹی سموگ پلانٹ لگایا جائے جو کم سے کم آلودگی ماحول میں چھوڑے تو وہ کہتے ہیں کہ "یہ تو ہمیں نہیں پتا۔ بس! آپ کی فیکٹری سے دھواں نہ نکلے"۔ آپ خود حساب لگا لیں پاکستان اَب کس آگ سے کھیلنا چاہتا ہے؟)

    Share via Whatsapp