ٹورازم انڈسٹری اور معیشت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ٹورازم انڈسٹری اور معیشت

    خوبصورت اور دلکش مقامات انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔یہاں تک کہ انسان خوبصورت مقامات کی سیر و سیاحت کےلئے دور دراز کے علاقوں اور دوسرے ممالک ۔۔۔

    By Tahir Haneef Published on Aug 07, 2019 Views 2031

    ٹورازم انڈسٹری اور معیشت

    تحریر : طاہر حنیف، جھنگ

    اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو بڑے احسن انداز سے تخلیق کیا ہے اور اس کو مختلف قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔یہ قدرتی وسائل ممالک کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔چاہے وہ وسائل آئل،گیس،سونے، چاندی،اور کوئلہ وغیرہ کے ذخائر ہوں یا وہ جنت سا سماں و سامان پیدا کرتے قدرت کے بنائے خوبصورت و سرسبز پہاڑ،جھیلیں اور خوبصورت وادیاں ہوں۔

    جو ممالک ان قدرتی وسائل سے بااحسن طورپر فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔انسان شروع دن سے ہی خوبصورتی کا شیدائی رہا ہے، اس لئے خوبصورت اور دلکش مقامات انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔یہاں تک کہ انسان خوبصورت مقامات کی سیر و سیاحت کےلئے دور دراز کے علاقوں اور دوسرے ممالک میں جانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔انسان سیر وسیاحت کے لئے  ان ممالک کو ترجیح دیتا ہے جو خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ پر امن بھی ہوں،جہاں اس کو کسی قسم کا ڈر خوف نہ ہو۔ دنیا میں وہی ممالک ترقی کیا کرتے ہیں جن کا سیاسی نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہو، امن و امان کو یقینی بنائے اور ہر انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرے۔ کوئی بھی ملک بدامنی اور  انتشار کا شکار ہو کر ترقی نہیں کر سکتا۔ دور جدید میں مختلف ممالک اپنی  معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے مختلف طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، جن میں سے ایک اہم طریقہ اپنے ہاں ٹورازم انڈسٹری کو فروغ دینا ہے۔مثلاً ملائشیا، جو کہ انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ٹوارزم انڈسٹری سے احسن طریقے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

    ایک نظر ملائیشیا کی ٹوارزم انڈسٹری پر۔

    ملائیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں  واقع ایک پر امن ملک ہے جس نے 1957 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔بحیرہ جنوبی چین اسے دو حصوں، مشرقی ملائیشیا اور جزیرائی ملائیشیا  میں تقسیم کرتا ہے،جو کہ تیرہ ریاستوں پر مشتمل ہے۔تین کروڑ سے زائد آبادی کا ملک ملائیشیا اپنے اندر کثیرالمذہبی،کثیر الثقافتی اورکثیرالسانی تنوع کو سموئے ہوئے ہے۔جس میں 55٪  مقامی آبادی،35٪ چینی پس منظر کے لوگ  اور 10٪ تامل انڈین شامل ہیں۔پاکستان سے دس سال بعد آزاد ہونے والا ملک آج ٹریول اینڈ ٹورزم سے متعلق 141 ممالک کی لسٹ میں پچیسویں نمبر پر ہے۔ملائیشیا میں سیر و سیاحت کو فروغ دینے کیلئے ملائیشیا ٹورزم پروموشن بورڈ یا ٹورزم ملائیشیاکے نام سے ایجنسی موجود ہے جو کہ منسٹری آف ٹورزم اینڈ کلچر کے زیر نگرانی کام کررہی ہے۔یہ ایجنسی 1987ء میں وجود میں آئی۔ٹورزم کے فروغ کیلئے 1999میں Malaysia Truly Asia کے نام سے ایک campaignشروع کی گئی جس کی بدولت 7.4 ملین سیاحوں نے ملائشیا کو رختِ سفر باندھا۔ 

    ملا ئشیا اپنے ریونیو کا %14.9 حصہ سیاحت سے حاصل کرتا ہے اور ملائیشیا کی ٹورزم انڈسٹری 1998 پ م سے اب تک ترقی کی منازل طے کی ہیں 1998 پ م  میں ملائیشیا نے ٹورزم سے 8580 ملین ملائشین رنگٹ(293994ملین پاکستانی روپے) کا ریونیو جنریٹ کیا جو کہ 2018ء میں 84135 ملین ملائیشین رنگٹ(2882923 ملین روپے) تک پہنچ چکا تھا۔ہر سال ڈھائی کروڑ سے زائد سیاح ملائیشیا کا رخ کرتے ہیں جس کی مد میں سالانہ 73 بلین ملائیشین رنگٹ کا ریونیو پیدا ہو تا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2015 پ م میں ٹورزم انڈسٹری کی وجہ سے 15 ملین لوگوں کو روزگار میسر آیاجبکہ 2017 پ م میں یہ تعداد 3.4 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ٹورزم انڈسٹری ملائیشیا کی معیشت کا ایک مرکزی ستون بن چکی ہے جس کے پیچھے منظم اور مستحکم مشینری(ریاستی انتظامیہ) کا ہاتھ ہے۔ملائیشیا نے سیاحت کے فروغ کیلئے بہت سے پرکشش طریقے استعمال کیے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:-

    1. سیر و تفریح کے  مقامات پر جدید آمد و رفت کے ذرائع کی دستیابی

    2.  سیاحوں کیلئے ان مقامات پر الیکٹرونکس، اشیاء خورد و نوش اور دوسری ضروریات زندگی کی ڈیوٹی فری فراہمی۔

    کسی بھی ملک کے پاس اپنی معیشت کا بہترین ذریعہ اپنے ہاں موجود مادی اور انسانی ذرا‏ئع کا صحیح اور عقل مندانہ استعمال ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے اگر ملک کی باگ ڈور تربیت یافتہ باشعوراور مخلص لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔وگرنہ وطن عزیز پاکستان کی طرح ملک میں بیروزگاری،دہشتگردی،مہنگائی اور ظلم و ستم کا بازار گرم رہتا ہے،مقتدر طبقہ ملکی وسائل کو مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹتا رہتا ہے،ذاتی مفاد پرستی پر مبنی لوٹ کھسوٹ کا بازارگرم رہتا ہے۔اور مفاد پرست اشرافیہ قومی و اجتماعی مصحلتوں سے قطع نظر اپنی عیاشی میں غرق رہتی ہے۔

    Share via Whatsapp